سیاسی حسد اور رقابت، کامیابی کی راہ میں حائل

تلنگانہ/ اے پی ڈائری    خیراللہ بیگ
سیاسی حسد اور رقابت کامیابی کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔ ورنگل لوک سبھا ضمنی انتخابات میں حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کی کامیابی کو اندیشہ کی نذر کرنے والوں نے اپنے طور پر گرما گرم انتخابی مہم شروع کردی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں خاص کر کانگریس تلگو دیشم اور بی جے پی نے ٹی آر ایس کو ناکام بنانے کا مورچہ تیار کرلیا ہے۔ واضح رہے کہ 2014 ء کے لوک سبھا انتخابات میں ٹی آر ایس نے اس حلقہ سے بی جے پی امیدوار کو تقریباً 3.90 لاکھ ووٹوں سے شکست دی تھی۔ بہار میں مودی زیر قیادت بی جے پی کی بدترین ناکامی کے بعد تلنگانہ میں بی جے پی کے صفایا کیلئے جو رجحان ساز گروپ کام کر رہا ہے۔ اس نے ٹی آر ایس کے بجائے کانگریس کے حق میں رجحان پیدا کرنے کی کوشش شروع کی ہے ۔ کانگریس کو یہ امید ہے کہ وہ اس مرتبہ ورنگل لوک سبھا حلقہ میں ٹی آر ایس کے ووٹ فیصد کو گھٹانے میں کامیاب ہوگی۔کانگریس کی کوشش ہے کہ ٹی آر ایس کو نا کام بنادے، مگر یہ مشکل ہے۔ تلگو دیشم اور بی جے پی مل کر ووٹ تقسیم کرتے ہیں تو کانگریس ٹی آر ایس کو نقصان نہیں پہونچا سکے گی لیکن کانگریس کو یہ بھی ڈر ہے کہ سرسلہ راجیا کو بہو کی موت کی وجہ سے پارٹی ٹکٹ واپس لینے کے بعد انتخابی رجحان تبدیل ہوسکتا ہے لیکن ٹی آر ایس کی دیڑھ سالہ کارکردگی اور کسانوں کی خودکشی کے مسئلہ پر حکمراں پارٹی کے خلاف عوامی ناراضگی میں اضافہ کو دیکھ کر یہ امکان قوی ہورہا ہے کہ کانگریس اپنا ووٹ فیصد بڑھانے میں کامیاب ہوگی۔ ٹی آر ایس کے جن وزراء نے اب تک انتخابی مہم میں حصہ لیا ہے ،

انہیں عوام کی ناراضگی اور غم و غصہ کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ورنگل کے رائے دہندے گزشتہ 17 ماہ کے دوران حکمراں پارٹی کے ناقص مظاہرہ کا تجربہ حاصل کرچکے ہیں، اس لئے وہ اپنی پسماندگی اور حکومت کے تمام دعوؤں کی ناکامی کے لئے حکمراں پارٹی کو ہی  ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ عوام حکمراں پارٹی کے قائدین سے سوال کرنے اور ان کا گھیراؤ کرنے سے بھی پس و پیش نہیں کر رہے ہیں۔ مقامی ارکان اسمبلی کی ناکامیوں کا برسر موقع جائزہ لے کر عوام کی بڑی تعداد نے ٹی آر ایس قائدین کی بولتی بند کردی ۔ اب حکمراں پارٹی کے خلاف عوامی ناراضگی یہی رہی تو ووٹ ڈالنے والوں کا فیصد ٹی آر ایس کے حق میں کم ہوجائے گا۔ ڈپٹی چیف منسٹر کڈیم سری ہری کو بھی عوام کی برہمی سے گزرنا پڑا ہے۔ ٹی ہریش راؤ کے علاوہ پرکال کے رکن اسمبلی دھرما ریڈی برہم عوام کا سامنا نہیں کرسکے۔ مقامی افراد نے جب ان قائدین کا گھیراؤ کر کے سوالات کی بوچھار کردی تو انہوں نے چپکے سے کھسکنے میں ہی عافیت سمجھی ۔ انتخابی ماحول میں حکمراںپارٹی کے خلاف عوامی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے تلگو دیشم نے اپنے لیڈروں کو گرما گرم مہم چلانے کی ترغیب دی ہے۔ صدر تلگو دیشم اور چیف منسٹر آندھراپردیش این چندرا بابو نائیڈو نے تلنگانہ تلگو دیشم قائدین کی مایوسانہ کارکردگی کا سخت نوٹ لے کر پارٹی لیڈرس کو زیادہ سے زیادہ محنت کرنے کا مشورہ دیا ۔ بی جے پی اور تلگو دیشم کا خیال ہے کہ مخالف حکمرانی لہر کے باعث ٹی آر ایس کو بری طرح شکست ہوگی۔ اب دو ہی گروپ ہیں کانگریس اور تلگو دیشم ۔ بی جے پی کے درمیان مقابلہ ہوگا تو کانگریس کا پلڑا بھاری ہوسکتا ہے کیونکہ بہار میں کانگریس کے اچھے مظاہرے سے بھی تلنگانہ کے کانگریس قائدین میں امید و حوصلہ پیدا ہوا ہے لیکن سیاسی پنڈتوں نے ٹی آر ایس کے حق میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی آر ایس کو یہ حلقہ حاصل ہوگا ، البتہ ووٹ فیصد کم ہوجائے گا ۔ بہار میں جس طرح مودی اور امیت شاہ کا غرور و گھمنڈ چکنا چور ہوا ہے ، اسی طرح تلنگانہ میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا گھمنڈ اور غرور کو توڑنے کیلئے ورنگل  ضمنی انتخابات میں ناکامی کو ضروری قرار دینے والوں نے یہ امید بھی از خود پیدا کرلی ہے کہ ٹی آر ایس کو سبق ضرور ملے گا۔ بلا شبہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کیلئے یہ ضمنی انتخاب پہلا سیاسی ٹسٹ ہوگا۔

اس کڑی آزمائش میں وہ  پورا اترتے ہیں تو پھر ان کے سامنے تلنگانہ کے کئی علاقوں میں خشک سالی کی صورتحال سے نمٹنے کی فکر لاحق ہوگی ۔ اگرچیکہ انہوں نے اب تک علاقہ تلنگانہ کے کسی بھی ضلع کو خشک سالی سے متاثرہ قرار دینے سے گریز کیا ہے ، اس کی وجہ تلنگانہ کا کمزور مالیہ ہے ۔ سرکاری خزانہ کو خالی کرنے والی حکومت اب خشک سالی سے نمٹنے کیلئے بے بس دکھائی دے رہی ہے ۔ ملک کی دیگر ریاستوں نے خشک سالی کے نام پر مرکز سے مالیاتی امداد حاصل کرنے کا کام شروع کرتے ہوئے اپنے علاقوں کو خشک سالی سے متاثرہ قرار دینے کے اعلان میں کوئی پس و پیش نہیں کی لیکن چیف منسٹر کے سی آر نے ابھی تک یہ تسلیم نہیں کیا ہے کہ ان کی ریاست خشک سالی کی گرفت میں ہے۔ چیف سکریٹری  راجیو شرما کی زیر قیادت سینئر عہدیداروں پر مشتمل ایک کمیٹی نے چیف منسٹر کو رپورٹ پیش کردی ہے کہ تلنگانہ کے بعض اضلاع خشک سالی سے متاثر ہیں۔ پڑوسی ریاست کرناٹک نے  خشک سالی کا اعلان کیا تو مرکز سے کرناٹک کو 1540 کروڑ روپئے کی امداد کا اعلان کیا گیا ۔ تلنگانہ کے عوام اور کسانوں کو ٹی آر ایس حکومت سے جو امیدیں ہیں انہیں پورا کرنے کیلئے چیف منسٹر کو از خود کوئی نہ کوئی قدم اٹھانا چاہئے۔ مرکز سے امداد لیئے بغیر وہ کامیاب ہوں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔ تلنگانہ کی صورتحال کا قصہ طولانی ہے۔ کے سی آر سے عوام کی بھی اپیل یہی ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں۔ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کا وعدہ بھی ورنگل ضمنی انتخاب کو لے ڈوبے گا تو ایک بنیادی  نظام عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے اپوزیشن کو موقع ملے گا ۔ عوام میں نیا جوش و خروش اس وقت جنم لے گا جب ٹی آر ایس کے مقابل دوسری پارٹی مضبوطی کا مظاہرہ کرے۔ کے سی آر کے اکثر وعدے منفی ہوتے جارہے ہیں ۔ کانگریس بھی اپنی مسخ شدہ پالیسی کو بہتر بنانے سے قاصر ہے تو تلگو دیشم بی جے پی کو بھی بہار میں مودی کی شرمناک ناکامی کے بعد پریشانی لاحق ہوگئی ہے ۔ عوام کیلئے کس پارٹی کو ذاتی طورپر ایماندار ہونا چاہئے، یہ ایک ثانوی خصوصیت ہے ۔ تلنگانہ میں اور بھی ایماندار سیاستداں ہیں لیکن ان کے اندر کے سی آر کی طرح عوام کو متحرک کرنے کی خوبیاں نہیں ہیں۔

سیاسی حسد ہو یا دفتری حسد ، پیشہ وارانہ رقابت ہو یا تجارتی دشمنی ہر شعبہ میں لوگ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحافی شعبہ ہو یا عدلیہ کا معاملہ ہرایک کو اپنی ترقی کی فکر رہتی ہے۔ مشاہدہ تو یہ بتاتا ہے کہ حسد اور رقابت کے ذریعہ کئی لوگوں کی نوکری اور زندگی دونوں اجیرن بنادی جاتی ہے۔ حیدرآباد میں جب اردو اخبارات کی دوڑ شروع ہوئی تو کئی صحافیوں نے بھی دفتری حسد اور رقابت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو چھوڑکر جانے کا سلسلہ شروع کردیا ۔ نئے اخبارات آنے سے پہلے ایسے کئی صحافی تھے جو اپنی موجودہ ملازمت سے عاجز تھے مگر اپنے کیریئر میں نام بنانے کی کوشش نے انہیں حالات سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ نوکری چھوڑ چھاڑ کر دوسرا کام شروع کیا جائے، کسی نے کرانہ کی دکان کا ارادہ کیا تو کسی نے ٹیلرنگ سیکھنے کا منشاء ظاہر کیا۔ ایسے میں کئی نئے اخبارات آئے تو ملازمتوں اور تنخواہوں کی پیشکش ہوئی اور پھر دھڑا دھڑ استعفے شروع ہوگئے لیکن جو ثابت قدم تھے حسد اور رقابت سے دور رہتے تھے ، استعفے نہیں دیئے ، پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ تنخواہیں اچھی ہوگئیں اور حالات بہتر ہوگئے جو لوگ سازشیں کرتے تھے ، اخبار چھوڑ کر چلے گئے ، ان کی جگہ دوسرے ساتھیوں کو مل گئی اور چند لوگ ہنوز سازشیں کرتے ہوئے اخبار، اخبار ، دفتر دفتر بھٹکتے رہتے ہیں۔ حسد اور رقابت کو اپنے سے دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ سیاسی حسد کا معاملہ اس سے زیادہ تباہ کن ہوتا ہے پھر بھی سیاستداں اپنے لئے کہیں نہ کہیں جگہ بنالیتا ہے ۔ ا یسے ہی سیاسی حسد کو ترک کرنے والے لیڈرروں میں چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو ہیں جنہوں نے تلنگانہ کے چیف منسٹر کے خلاف اپنی رائے تبدیل کر کے اثباتی کردار ادا کرنا شروع کیا ہے۔ جب سے وہ وجئے وا ڑ ہ منتقل ہوئے ہیں ان میں نمایاں تبدیل آئی ہے۔ کے سی آر اور چندرا بابو نائیڈو نے اس سال خوشی و مسرت کے ساتھ دیوالی منائی۔ نائیڈو کو کے سی آر میں امراوتی کے تعلق سے ہمدردی نظر آرہی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے پارٹی ہیڈکوارٹرس پر تلنگانہ تلگو دیشم  ا جلاس میں شرکت کر کے اپنے تلنگانہ ہم منصب کے چندر شیکھر راؤ کے بارے میں کوئی برا نہیں کہا بلکہ اپنی پارٹی کے لیڈروں کو ہی پارٹی امور پر توجہ دینے کا مشورہ دیا ۔ عوام کی تائید حاصل کرنے کیلئے عوام کی خدمت کرنا لازمی ہے ۔ اس لئے سیاسی حسد اور رقابت کو دور رکھ کر خصوصی طور پر عوام کی خدمت پر توجہ دی جانی چاہئے ، تلگو دیشم کو یقین ہے کہ 2019 ء سے تلنگانہ میں اس کو اقتدار حاصل ہوگا۔
kbaig92@gmail.com