سیاسی تعصب کی عینک اور تلنگانہ کابینہ میں توسیع

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
سیاسی تعصب کی عینک لگانے والوں نے تلنگانہ کابینہ میں توسیع پر جس طرح کی نکتہ چینی کی ہے اس کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کے سی آر کی حکومت میں اسے سیاسی خرابی کا نقطہ آغاز قرار دیا جارہا ہے۔ چیف منسٹر نے ایسے قائدین کو کابینہ میں شامل کیا جو دوسری پارٹیوں سے نکل کر آئے ہیں۔ بی جے پی کے قومی اگزیکٹیو کمیٹی کے رکن ناگم جناردھن ریڈی نے جو کل تک تلگودیشم میں تھے، کہاکہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے تلگودیشم کے منحرف قائدین کو کابینہ میں شامل کرکے تلنگانہ یا ٹی آر ایس کے ارکان اسمبلی کی توہین کی ہے۔ چیف منسٹر کے اس اقدام سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ آیا ٹی آر ایس کے ارکان اسمبلی نااہل ہیں کہ چیف منسٹر کو دیگر پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کو حکومت کی ذمہ داریاں حوالے کرنے پر مجبور ہونا پڑا لیکن اس تکلیف دہ فیصلہ کا چیف منسٹر کو بھی احساس ہے اس لئے چیف منسٹر نے ٹی آر ایس کے ارکان اسمبلی کو بھی آنے والے دنوں میں کابینی درجہ کا عہدہ دیں گے۔ اس اقدام سے پارٹی کے ہر ایک رکن اسمبلی کو اطمینان ہوگا کہ انھیں بھی ان کی محنت کا پھل ملے گا اور پارٹی میں ناراضگیاں پیدا نہیں ہوں گی۔ تلنگانہ کابینہ میں اب چیف منسٹر کے بشمول 18 رکنی وزارت کام کررہی ہے۔

چندرشیکھر راؤ نے اپنی کابینہ میں طاقتور طبقہ کے قائدین کو جگہ دے کر ایک مضبوط حکومت کا تصور پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی حکومت میں پیدا ہونے والی تلخی کے آثار فی الحال ظاہر نہیں ہورہے ہیں لیکن آنے والے دنوں میں انھیں تلخیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چیف منسٹر تیزی سے چھلانگ مار کر کچھ کارنامہ کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ کارنامہ ان کی مٹھی میں بند ریت کی طرح کھسکتا جارہا ہے۔ کے سی آر کی طرح چندرابابو نائیڈو نے بھی اپنی ریاست کے عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھاتے ہوئے جو وعدے کئے تھے انھیں پورا کرنے کے لئے ابھی تک ٹھوس پالیسیوں کا اعلان نہیں کیا۔ آندھراپردیش ہو یا تلنگانہ دونوں ریاستوں کے عوام کو 6 ماہ کے اندر ہی محسوس ہونے لگا ہے کہ انھوں نے اپنا ووٹ دے کر یہ کیسی حکومتوں کو خود پر مسلط کرلیا ہے۔ خالی سرکاری خزانوں کے ساتھ یہ دونوں چیف منسٹراپنے عوام کے لئے فلاح و بہبود کا کام کس طرح کریں گے۔
سرکاری خزانہ کو خالی دیکھنے کے باوجود ان دونوں نے عوام کو جو سبز باغ دکھائے ہیں اس پر ان کی صلاحیتوں کی داد دی جانی چاہئے۔ دونوں چیف منسٹر نے اپنے علاقوں کی ترقی کے لئے بلند بانگ وعدے کئے ہیں، عالمی درجہ کے معیارات سے آراستہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے سنگاپور اور ملائیشیا کا دورہ کرکے آنے کے بعد تلنگانہ میں اسمارٹ سٹیز بنانے کا فیصلہ کیا۔ 2004 ء میں پہلی مرتبہ لوک سبھا کے لئے جس حلقہ سے کے سی آر منتخب ہوئے تھے، اس ضلع کریم نگر کو ترقی دینے کا وعدہ کیا ہے اور یہ ترقی لندن کے خطوط پر ہوگی۔ تلنگانہ کے شہروں کو جدید رنگ روڈس سے مربوط کرنے اور عصری دواخانوں کا جال پھیلانے کے علاوہ دیگر کئی سہولتوں کا ذکر کیا تھا۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کو متحرک کرکے شہر کی صورت گری کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ تاریخی حسین ساگر کو گندے نالے کے پانی سے پاک بنانے کا مضبوط منصوبہ بنایا گیا ہے۔ حسین ساگر کے اطراف جب دنیا کی بلند و بالا 2722 فٹ والے دوبئی کے برج خلیفہ سے بھی بلند عمارتیں بنانے کا خواب دیکھا گیا ہے۔ اس طرح کے خواب چیف منسٹر آندھراپردیش چندرابابو نائیڈو بھی اپنے عوام کو دکھانے کے ماہر ہیں۔ ہندوستانی سیاست کے وہ بادشاہ گر ہیں، لیکن وہ اپنی ریاست کے عوام کے لئے بادشاہ گر ثابت نہیں ہوسکے، کیوں کہ ان کے لئے سب سے بڑا تکلیف دہ کام آندھراپردیش کے لئے ایک ریاستی دارالحکومت کی تعمیر ہے اور یہ دارالحکومت دنیا کے عصری ترین شہروں کے خطوط پر تیار ہوگا۔

چندرابابو نائیڈو نے بھی جب کبھی بیرونی دورے کئے ہیں، واپسی کے بعد عوام کو تیقن دیا ہے کہ عالمی درجہ کا ترقی یافتہ دارالحکومت بنائیں گے۔ چندرابابو نائیڈو ابتدائی دنوں میں کوالالمپور کی ترقی سے متاثر دکھائی دیتے تھے، اس کے بعد شکاگو کی تعریف کرنے لگے تھے، اب انھیں سنگاپور بہتر دکھائی دے رہا ہے۔ آندھراپردیش کے دارالحکومت کی تعمیر کے لئے انھیں 1.50 لاکھ کروڑ روپئے ملنے کی توقع ہے یا سرمایہ کاری کی جائے گی۔ نائیڈو نے اپنی ریاست میں واقع سمندری ساحلی پٹی سے بھرپور استفادہ کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس کے لئے بندرگاہوں کو ترقی دی جائے گی۔ دونوں ریاستوں کے چیف منسٹروں کا حال بھی پڑوسی ملک کے سیاستدانوں کی طرح دکھائی دے رہا ہے، جہاں عوام کے حق میں کچھ نہیں کیا جاتا اور اپوزیشن بھی اپنے نام کے لئے احتجاج کرتی ہے۔ جب کبھی حکومت یا اس کا سربراہ حیران پریشان ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ سے وقت تیزی سے نکل جاتا ہے۔ دونوں چیف منسٹروں کی بدنصیبی بھی ان کے شانہ بہ شانہ چلتی دکھائی دیتی ہے۔ 6 ماہ ہوچکے ہیں دونوں حکومتوں کے عوام کو دکھائے گئے خوابوں کی زندہ تعبیر بتانے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ اس صورتحال میں اب عوام کو خود سوچنا ہے کہ کیا وہ اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنے کے لئے دونوں چیف منسٹروں کی باتوں میں آئیں گے کیوں کہ انھوں نے اپنے ووٹ کا فیصلہ ان ہاتھوں میں دیا ہے جو ہاتھ ان کی گردنوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عوام آگے چل کر کتنے بڑے عذاب سے دوچار ہوں گے ، اس کی خبر اپوزیشن کو ہوگی کیوں کہ جلسوں اور جلوس میں زیادہ تر وہی لوگ آئیں گے، جنھوں نے حکومتوں کے وعدوں سے دھوکہ کھایا ہے۔

تلنگانہ حکومت میں ان نئے وزراء کو اپنی ذمہ داریاں دیانتداری سے انجام دینے ہیں۔ اپوزیشن کو بھی اپنے فرائض کو محسوس کرتے ہوئے عوامی مسائل کی یکسوئی کے لئے زور دینا ہوگا۔ ٹی آر ایس حکومت اور اپوزیشن عقل کی رسی جو تھام لیں گے تو مسائل کی یکسوئی میں آسانی ہوگی۔ اسمبلی کے اندر ہونے والی زور آزمائی اور عوام کے مسائل کی یکسوئی کے لئے اپوزیشن کی جدوجہد کو دیکھ کر عوام کا ہجوم پُرامید ہوگا۔ کانگریس، تلگودیشم اور دیگر پارٹیاں فرینڈلی اپوزیشن کا رول ادا کرکے کے سی آر کابینہ کو کام کرنے کا وسیع موقع دیتی ہیں تو حکومت کی پالیسیوں کو بھی روبہ عمل لانے میں وزراء کو حوصلہ ملے گا۔ لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرتا کہ حکمرانوں کے کان زیادہ تر خوشامد کا میوزک سننے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اپوزیشن کی تنقید کا میوزک ان کے کانوں پر گراں گزرتا ہے۔ چیف منسٹر آندھراپردیش چندرابابو نائیڈو ایک سخت جان اور پُرعزم لیڈر ہیں۔ تلنگانہ میں ان کی پارٹی کو کمزور کرنے کی کوشش کا وہ خاموش تماشائی بن کر نہیں دیکھیں گے۔ کے سی آر دیگر پارٹیوں کے ارکان کو ورغلانے کا ریکارڈ توڑ چکے ہیں تو شائد آئندہ انھیں اس کا جواب بھی مل جائے۔

سیاست میں اس طرح کی تبدیلیاں نئی بات نہیں ہوتیں۔ چندرابابو نائیڈو سیاسی کھلاڑی ہیں۔ وہ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس میں شامل ہونے کی آرزو رکھنے والے قائدین کو کھلی چھوٹ دیں گے لیکن وہ اس طرح لاپرواہی دکھاتے رہیں گے تو پارٹی کے دیگر قائدین کے اعصاب شل ہوجائیں گے۔ چندرابابو نائیڈو اور ان کے گرو سیاسی مشیروں کو تلنگانہ تلگودیشم کو مزید انتشار یا داخلی خلفشار سے بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ویسے آندھراپردیش میں حکومت بنانے کے بعد تلگودیشم کی مقبولیت میں مزید اضافہ بتایا گیا ہے۔ فیس بُک پر اس پارٹی کے پرستاروں کی تعداد 6 ماہ کے دوران دوگنی ہوگئی ہے۔ دنیا بھر میں مقیم آندھرائی تارکین وطن کی بڑی تعداد بھی تلگودیشم کو پسند کررہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں خاص کر حالیہ لوک سبھا انتخابات میں سائبر دنیا نے سیاسی پارٹیوں کی کامیابی و مقبولیت میں اہم رول ادا کیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اس سائبر دنیا سے فائدہ حاصل کیا ہے تو آندھراپردیش میں چندرابابو ائیڈو کو بھی سائبر دنیا یعنی فیس بُک اور دیگر نیٹ ورکس کے ذریعہ مزید مقبولیت ملے گی۔
kbaig92@gmail.com