سیاسی بلوغت اور قائدانہ ویژن کا مظاہرہ ضروری

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیراﷲ بیگ
چیف منسٹر تلنگانہ چندرشیکھر راؤ بعض حوالوں سے بالکل نہیں بدلے۔ جس طرح اُنھوں نے اپنی پوزیشن اور پارٹی کو مضبوط و مستحکم کرنے کیلئے وفاداریاں بدلنے والے اقتدار کے پجاری لوگوں کو گلے لگا لیا ہے۔ اسی طرح ٹی آر ایس کو کمزور کرنے والی حرکتوں کو درست و جائز بھی قرار دیا ہے۔ اسمبلی میں جاری بحث و مباحث کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومت کو اپنی بقاء کی فکر نہیں ہے بلکہ وہ بہت ہی مستحکم ہے۔ تلگودیشم ارکان کے احتجاج کی پرواہ کئے بغیر انھیں معطل بھی کردیا جارہا ہے۔ اس گمان کے ساتھ چیف منسٹر اپنی حکمرانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

تلنگانہ بنانے کی جدوجہد کرنے والے لیڈر اور آندھرائی قائدین کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ تلنگانہ کے دیگر پارٹی قائدین کے تعلق سے بھی چیف منسٹر کا خیال یکساں ہے۔ جو قائدین ایک پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر دوسری پارٹی میں شامل ہوں تو ان کے اس عمل کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ خاص کر تلگودیشم کے قائدین تلنگانہ میں رہنے کے لئے ٹی آر ایس میں شامل ہورہے ہیں۔ تلنگانہ میں رہنے والے کئی آندھرائی قائدین اس وقت امیر ترین سیاستداں متصور کئے جارہے ہیں۔ الزام ہے کہ ان لوگوں نے برسوں تک تلنگانہ کے وسائل کو لوٹا ہے۔ ان میں چیف منسٹر آندھراپردیش چندرابابو نائیڈو کے نام کو بھی گھسیٹا جارہا ہے۔ نیوز میگزین تہلکہ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ چندرابابو نائیڈو غیر محسوب اثاثہ جات کے مالک ہیں۔ ان کی دولت کا اندازہ کرلیا جائے تو وہ ہندوستان میں سب سے زیادہ امیر ترین سیاستداں ثابت ہوں گے۔ ان کے تعلق سے یہ رپورٹ بھی سامنے آئی ہے کہ انھوں نے پٹرول صنعت میں زبردست سرمایہ کاری کی ہے۔ سنگاپور اور ملایشیا میں ان کے کئی شاپنگ کامپلکس ہیں۔

نائیڈو کے حالیہ دورہ سنگاپور سے بھی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ وہ سنگاپور میں اپنے بزنس کو وسعت دینے کوشاں ہیں۔ اسمبلی میں بھی چندرابابو نائیڈو کی کمپنی ہیرٹیج، انفرا کو حاصل ہونے والے فوائد اور اس کے ناقص دودھ کے خلاف بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔ چندرابابو نائیڈو پر پے در پے الزامات عائد کئے جارہے ہیں کہ اُنھوں نے 2001 ء سے لے کر 2004 ء تک تلنگانہ خاص کر شہر حیدرآباد کی زمینات کو لوٹا ہے۔ حیدرآباد کی اہم اراضی 535 ایکر کو 28 لاکھ روپئے فی ایکر سے ایمار کمپنی کو فروخت کیا گیا جب ان کی اہلیہ نے اس اراضی کے قریب ہی واقع ایک اراضی کو 1998 ء میں فی ایکر ایک کروڑ میں فروخت کیا تھا۔ گچی باؤلی کی اراضیات کو بھی فی ایکر 50 ہزار روپئے میں فروخت کرنے کا الزام ہے اس طرح حیدرآباد کی قیمتی اراضیات کو کوڑیوں کے دام فروخت کیا گیا تھا۔ اب تلنگانہ کا یہ اثاثہ کسی دوسرے کی ملکیت بن گیا ہے۔ کوئی بھی حکومت ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش نہیں کرسکتی۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لینے کے فوری بعد شہر میں غیر مجاز تعمیرات کے لئے بڑے پیمانہ پر انہدامی کارروائی کرنے والے کے سی آر نے اپنا یہ عمل اچانک روک دیا یا پھر آندھرائی لابی نے انھیں چپ کرانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ فتح پائے تو دماغ خراب نہ ہوا اور شکست کھائے تو دل چھوٹا نہ ہوا۔

چھوٹے آدمی کی پہچان یہ ہے کہ اسے نہ فتح ہضم ہوتی ہے نہ وہ باوقار طریقہ سے شکست قبول کرتا ہے۔ کانگریس کے قائدین کو یہ بات ہنوز ہضم نہیں ہورہی ہے کہ ان کی پارٹی اور انھیں بدترین شکست ہوئی ہے تو ایوان اسمبلی میں چپ چاپ اپوزیشن کے فرائض انجام دینے ہیں۔ حکومت پر بعض حلقوں میں صحیح تنقید ہورہی ہے جس کا مقصد عوام کے مسائل اُجاگر کرتے رہنا اور اہل اقتدار کو اُن کی ذمہ داریاں یاد دلانا ہوتا ہے۔ مگر دُکھ اس بات کا ہے کہ محض شوق خود نمائی میں اہم قائدین بھی غیر ضروری مسائل پر آواز اُٹھاتے ہیں جبکہ ایوان اسمبلی میں اُٹھائے جانے والے مسائل اہم ہوں تو یہ عوامی فوائد کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ مگر تلنگانہ حکومت میں بھی اُردو اور مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ برقرار ہے تو اس کی جانب توجہ دلانا ایوان کے اندر منتخب ارکان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

اسمبلی میں ہونے والے بحث و مباحث کا اُردو ترجمہ کرنے والے مترجمین بھی نہیں ہیں۔ اسپیکر سے نمائندگی کرنے والے قائدین نے اُردو کے تعلق سے کوئی خاص پیروی نہیں کی اور زبان کی ترقی کے لئے کئی جلسوں اور ادبی اجلاسوں میں سرکاری تقاریب میں غور کیا جاتا ہے۔ اُردو کے کئی پہلوں پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ پرانا سوال بارہا اٹھایا جاتا کہ کیا اردو زبان مرر ہی ہے۔ کیا اب انگریزی کا بول بالا ہوگا۔ اُردو ذریعہ تعلیم سے فیضیاب ہونے والے کیا اچھی ملازمتوں اور بہتر اُجرتوں سے محروم رہیں گے اور کیا نئی نسل سے ہم اُردو میں سوال کریں گے اور انگریزی میں جواب پائیں گے۔ یہ خیال بھی پیدا ہوا کہ اردو صرف دینی مدرسوں کے طلباء تک ہی محدود ہورہی ہے۔ اُردو غریبوں کی زبان ہے اس لئے اُردو اخبارات پڑھنے والے بھی غریب لوگ ہی ہوتے ہیں۔ اب یہ سوال جھوٹ ثابت ہورہا ہے کیوں کہ اردو بھی غریب آبادیوں میں اضافہ کے ساتھ جیتی جاگتی اپنے وجود کا احساس دلارہی ہے۔ حکومت کی کوتاہ ذہنی کے باوجود اردو کو فروغ مل رہا ہے۔ اس طرح امریکی سفارت خانہ نے بھی حال ہی میں اپنی اردو ویب سائیٹ کا بھی آغاز کردیا ہے۔ اس ویب سائٹ کی مدد سے اردو داں طبقہ امریکہ سے متعلق معلومات حاصل کرسکے گا۔ حیدرآباد میں قائم امریکی قونصل خانہ میں بھی اردو زبان میں انٹرویو دینے کا نظم ہے۔ اردو داں افراد اپنے ویزا کے حصول کے لئے دی جانے والی درخواست میں انٹرویو کی زبان اردو کو منتخب کرسکتے ہیں۔ یہ تبدیلی اردو کی ترقی کی شاندار ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ سرکاری سطح پر اردو کو فروغ دینے میں کوتاہی نہ کرے۔

تلنگانہ کی جدوجہد سے لے کر جدوجہد آزادی ہند میں اردو اخبارات اور اردو زبان نے اہم رول ادا کیا ہے۔ تلنگانہ تحریک کے دوران اردو زبان نے علیحدہ ریاست تلنگانہ کی بھرپور حمایت کی تھی اس لئے کے سی آر کو اس زبان کو فروغ دینے میں لاپرواہی نہیں کرنی چاہئے۔ سرکاری دفاتر میں اردو داں افراد کے تقرر کے لئے احکام جاری کرکے اردو کی سرکاری پذیرائی کو یقینی بنائیں۔ حقائق کو تبدییل نہیں کیا جاسکتا۔ ٹی آر ایس حکومت بھی اردو کی حقیقت کو تبدیل نہ کرے اور اسے اردو کے معاملہ میں دھوکا دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ کامیاب حکمرانی نظم و نسق سے چلتی ہے اور ریاست تلنگانہ میں سرکاری نظام صرف نظر کا دھوکہ ثابت ہوجائے تو تلنگانہ کے قیام کے بعد خوشحالی اور ترقی کی اُمید رکھنے والوں کو صدمہ ہوگا۔ ان کے لئے ماضی کے تجربات بہت زیادہ ہوشمندی کا تقاضہ کرتے ہیں۔ گزشتہ 5 ماہ کے دوران حکومت تلنگانہ نے ایک درجن سے زائد وعدے و اعلانات کئے ہیں لیکن ابھی عمل آوری پر دھیان دینا باقی ہے۔ کے سی آر کو سیاسی بلوغت اور قائدانہ ویژن کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔
kbaig92@gmail.com