سیاسی احباب کی شان حریفانہ

تلنگانہ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں سیاست دانوں کی فراست اجتماعی کا اب امتحان شروع ہوچکا ہے۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو نے اپنے عوام کو نیا دارالحکومت دینے میں تاخیر سے کام لیکر اب اندازہ کے مطابق وجئے واڑہ کے ایک خطہ میں نیا صدر مقام بنانے کا اعلان کیا ہے۔ تلنگانہ کے صدر مقام حیدرآباد کو جھٹکا لگنے کی بات کرنے والوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری رُخ وجئے واڑہ کی طرف ہوجائے گا جبکہ وجئے واڑہ کا علاقہ ماحولیات کے اعتبار سے غیر معتدل رہا ہے۔ گرمی کی شدت اور رطوبت میں فرق کی وجہ سے بیرونی کمپنیوں کے عملے کو یہاں قیام کا مسئلہ درپیش ہوگا۔ چندرا بابو نائیڈو نے اپنی ریاست کے صدر مقام کیلئے زرعی اراضیات کی بڑے حصہ کو تباہ کردیں گے تو زرعی پیداوار کا سنگین مسئلہ پیدا ہوگا۔ آندھرا پردیش کے نئے صدر مقام کو وجئے واڑہ کو بنانے کا فیصلہ رائلسیما کے لوگوں کو ناقابل قبول ہوسکتا ہے۔ آگے چل کر رائلسیما کے لوگ بھی علحدگی کا اعلان کرکے تحریک شروع کریں گے۔ رائلسیما کے قائدین میں یہ احساس پیدا ہوچکا ہے کہ تلنگانہ کے قیام کے بعد مرکز نے رائلسیما کے خطہ کو نظرانداز کردیا۔

اب وجئے واڑہ کو آندھرا پردیش کا صدر مقام بنانے کے بعد رائلسیما کے لوگ یکا و تنہا ہوجائیں گے اور اس مسئلہ پر ایک نئی کہانی شروع ہوگی اور عوام کا سکھ چین اس تنازعہ پر محیط ہوگا۔ بہرحال تلنگانہ حاصل کرنے والوں کو اپنی ریاست کی ترقی و ترویج پر موثر طریقہ سے دھیان دینا ہے۔ حیدرآباد کے انفراسٹرکچر سہولتوں کے تناظر میں بیرونی سرمایہ کاروں کو زیادہ سے زیادہ راغب کروایا جانا چاہیئے۔ عوامی زندگی کے بہت عجیب و غریب تجربے ہوتے ہیں۔ تلنگانہ کے عوام نے بھی راشٹرا سمیتی کو ووٹ دے کر ایک تجربہ کیا تھا۔ اس تجربہ سے ملنے والے معلومات میں یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف شکایات کا دفتر کھلنے والا ہے۔ مرکز میں مودی حکومت آنے کے بعد مہنگائی پر کوئی آواز نہیں اُٹھائی جارہی ہے تو ریاستی سطح پر لوڈ شیڈنگ نے عوام کی بولتی بند کردی ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ جب سے سنگاپور کا دورہ کرکے آئے ہیں تلنگانہ نظم و نسق میں تبدیلی لانے کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود یہی احساس پایا جاتا ہے کہ اس نئی ریاست کی بہتری اور اس کی درست دیکھ بھال کونے کرے گا۔ روز ایک چیز، ایک مسئلہ اور ایک تنازعہ برقرار رہتا ہے۔ مرکزی حکومت نے اس نئی ریاست کو یکسر نظرانداز کردیا ہے۔ حکمراں تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو مرکز کے رویہ سے مایوسی ہورہی ہے۔ نئی ریاست کی تشکیل سے قبل یو پی اے حکومت نے جتنے تیقنات دیئے تھے ان میں سے ایک پر بھی اب تک عمل آوری نہیں ہوئی۔ لوک سبھا میں ٹی آر ایس کے ڈپٹی لیڈر بی ونود مرکز سے نمائندگی کرتے ہوئے تھک چکے ہیں۔ تلنگانہ مسئلہ سے متعلق مسائل پر مرکزکا رویہ مایوس کن ہے۔

اے پی ری آرگنائزیشن ایکٹ میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا گیا۔ ایسے میں ٹی آر ایس حکومت اپنے عوام سے ووٹ لینے کے وقت جو وعدے کئے تھے وہ پورے نہیں ہوں گے۔ شہر حیدرآباد کا مسئلہ بھی اس کی ترقی اور توسیع کے منصوبہ کا اعلان کرنا ایک پرانا حربہ ہے اور اسے عملی جامہ پہنانا اصل مسئلہ ہوگا۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ مرکز سے تعاون کے بغیر معاشی اور ریاستی مالیاتی مسائل کو کس طرح حل کریں گے۔ آنے والے دنوں میں اگر چندر شیکھر راؤ کو حکومت چھوڑ کر فرار ہونے کی نوبت آئے تو کیا ہوگا کیونکہ اندر ہی اندر حکومت میں خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔ میدک لوک سبھا حلقہ کے ضمنی انتخاب میں ٹی آر ایس کو دھکا پہنچتا ہے تو سمجھیئے کہ عوام نے اپنا فیصلہ سنادیا ہے اور اگر اسے کامیابی ملتی ہے تو عوام کو ہنوز اس پارٹی پر بھروسہ ہے۔ ویسے تلنگانہ میں دیگر پارٹیوںکے ارکان اسمبلی اور قائدین ٹی آر ایس میں شامل ہوکر کے سی آر کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں مگر ان کی یہ کوشش بھی مسائل کے سامنے کمزور پڑ جائے گی۔ مرکز نے نئی ریاست کی ضرورتوں کو پورا کرنے سے گریز اس لئے کیا ہے کیونکہ ٹی آر ایس نے بی جے پی سے اتحاد نہیں کیا اور حکومت بنانے کے بعد چندر شیکھر راؤ نے مرکز کی مودی حکومت پر اُنگلی اُٹھائی تھی۔ چندرا بابو نائیڈو نے مرکز سے دوستی استوار کرکے اپنی ریاست کیلئے پیاکیجس حاصل کرنے کا انتظام کرلیا ہے۔نئے دارالحکومت وجئے واڑہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ سارے علاقہ کو سٹیلائیٹ سٹی کے تصور سے آراستہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ جاپان کے شہروں کے خطوط پر اسمارٹ سٹی بنانے وزیر اعظم نریندر مودی کے عزم کے بعد چندرا بابو نائیڈو کیلئے کام آسان ہوگیا ہے اور وہ بھی اپنے ویژن کے مطابق سٹیلائیٹ سٹی کو فروغ دیں گے۔ تلنگانہ والوں کے حصہ میں صرف چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کے وعدے اور تیقنات ہی رہ جائیں گے۔ اس طرح نئی ریاست تلنگانہ میں اعصاب شکن سیاسی اور معاشرتی کیفیت فروغ پائے گی۔

جو قائدین دھڑا دھڑ اپنی پارٹیاں چھوڑ کر ٹی آر ایس میں شامل ہورہے ہیں انہیں وقتی طور پر فائدہ ضرور ہوگا مگر یہ لوگ اصل میں ٹی آر ایس کی کشتی میں چھید یا اس کی کار کو پنکچر کرنے کا کام کریں گے۔ چندر شیکھر راؤ نے اب تک یہی سیکھا ہے کہ دھرنے اور احتجاجوں کو کس طرح منظم کیا جاتا ہے۔ جب انہیں خود اپنی حکومت کے خلاف دھرنوں اور احتجاجوں کا سامنا کرنے پڑے گا تو اس وقت ان کی کیفیت مختلف ہوگی۔ ریاست بھر میں سروے کے نام پر حاصل کردہ عوام کے ڈاٹا کے ساتھ وہ کیا چھیڑ چھاڑ کرنے والے ہیں آئندہ دنوں میں واضح ہوگا۔ مگر اس وقت عہدیداروں نے سروے کا جھوٹا فیصد بتاکر چیف منسٹر کو گمراہ کیا ہے۔ ریاست کی اصل آبادی اور عوام الناس کے معاشی موقف کا درست پتہ نہیں چل سکے گا۔ ایسے میں فلاحی اسکیمات اور دیگر معاشی اقدامات کا سارا کھیل اسکام یا دھاندلیوں سے دوچار ہوکر مال غنیمت لیڈروں کی خاص تجوریوں میں چلا جائے گا۔ ریاست تلنگانہ کے عوام کو پہلا بھاری نقصان میٹرو ریل پراجکٹ اور اس کے روٹس میں تبدیلی کیلئے آنے والے زائد اخراجات سے ہورہا ہے۔ عوام کی محنت کی کمائی سے حاصل ٹیکس کو تلنگانہ حکومت من مانی طریقے پر خرچ کررہی ہے۔ ایک میٹرو ریل پراجکٹ کیلئے مزید 3000کروڑ روپئے ادا کرنے کا مطلب میٹرو ریل روٹس کی تبدیلی ہے۔ آثار قدیمہ عمارتوں کو بچانے کیلئے حکومت کے اس اقدام سے کام میں تاخیر کے ساتھ دیگر مسائل پیدا ہوں تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔ ویسے تو اس ریاست اور شہر کے عوام کو بھی اپنے روز مرہ کے کاموں سے فرصت نہیں ہے تو وہ حکومت کی کارکردگی پر کیسے نظر رکھ سکتے ہیں۔

عوام کو اپنے گھر سے ہٹ کر اڑوس پڑوس، محلے اور بستیوں میں ہونے والی خرابیوں و معاشرتی ابتری کا بھی خیال نہیں رہا ہے۔ خاص کر مسلم معاشرہ میں آئے دن چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل ہورہے ہیں۔ ایک معمولی قرض کی رقم کی عدم ادائیگی پر لوگ سر قلم کررہے ہیں تو یہ ذہنی و اخلاقی بگاڑ کا واضح ثبوت ہے۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ خود کو اعلیٰ اور سماج کا خوشحال، قابل، دانشور، عالم، فاضل، مذہب پسند، عبادت گذار بنالے مگر اس کے معاشرہ کے لوگ تباہی کی طرف جارہے ہوں تو ان کی تمام تر ترقی اور قابلیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ معاشرہ میں پائی جانے والی کسی بھی اچھی چیز کو بُری طرح استعمال کیا جائے تو گناہ جنم لیتا ہے اور مسلم معاشرہ میں اچھی چیز کا بُرا استعمال جیسے ٹی وی، سیل فون، کمپیوٹر اور سیاحتی مقامات ہیں۔ کمپیوٹرپر چیاٹنگ ہو یا سیل فون پر گیم سے لیکر ممنوعہ یا فحش ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرنے سے بالخصوص نوجوانوں میں طرح طرح کی رنگین خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔ یہاں تک کہ بچے رات بھر جاگنے اور دن بھر سونے لگے ہیں۔ گٹکھوں، پان کی دکانوں اور ہوٹلوں نے نئی نسل کے دل و دماغ کو مفلوج کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاق سے بھی دور کردیا ہے۔ قتل کرنے والوں کے دل میں اب قانون کا بھی ڈر نہیں رہا۔ معاشرہ کا خیال اور خاندان کی رسوائی کا بھی خوف نہ ہو تو ہر برائی جنم لیتی ہے۔
kbaig92@gmail.com