سیاستدانوں کے سپوتوں کی شادیوں پر اندھادھند خرچ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
شادیوں کے موسم میں لوگوں کو خاص کر امراء زمانہ پر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا خبط سوار ہوتا ہے۔ امیروں کی شادی غریبوں کے لئے نازک صورتحال سے دوچار کردیتی ہے۔ شادی پر خرچ کرنے والوں میں سب سے زیادہ آگے سیاستداں ہوتے ہیں۔ ان میں کانگریس کے لیڈروں کے نام سرفہرست ہیں۔ 2011ء میں کانگریس لیڈر کنور سنگھ تنور کے فرزند للت سنگھ کی شادی بوگیتا سے ہوئی تھی جس کیلئے 250 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے تھے۔ اس سے بڑھ کر سب سے زیادہ مہنگی شادی سہارا گروپ کے سربراہ سبرتا رائے کے فرزندوں سوشا سنتو کی رچا سے اور سیما سنتو کی چاندنی سے 2004ء میں ہوئی شادی پر 552 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے تھے۔ صنعتکار لکشمی متل کی بیٹی کی شادی کیلئے 2004 میں 220 کروڑ روپئے خرچ ہوئے اور یہ رقم صرف بالی ووڈ اداکاروں کے شادی میں گانا پارٹی پر خرچ کی گئی۔ فلمی شخصیتوں کے مظاہروں پر بے دریغ روپیہ بہایا گیا تھا۔ شاہ رخ خان، ایشوریا رائے، اکشے کمار، جوہی چاؤلہ، سیف علی خاں اور رانی مکرجی کو نئے دلہادلہن اور ان کے رشتہ داروں کے سامنے نچایا گیا تھا۔ حیدرآباد میں 100 کروڑ کی شادی ہوئی تھی جس میں جی وی کرشنا ریڈی کی پوتری ملیکہ کی شادی انڈو گروپ کے سدھارتھ سے ہوئی تھی۔ اس شادی میں اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ بھی شریک تھے اور اب کانگریس کے لیڈر ڈی ناگیندر کی دختر کی شادی کیلئے بھی بے دریغ روپیہ خرچ کیا گیاشادی کیلئے مقرر سنگیت فنکشن میں بالی ووڈ کے ٹاپ کے اداکاروں کو خصوصی خانگی طیارہ سے حیدرآباد لایا گیا تھا۔ پرینکا چوپڑہ، رنبیر کپور، رتیش دیشمکھ اور جکولین نے مہمانوں کو اپنے حسن و فن سے محظوظ کیا۔ ایک اور کانگریس ایم ایل اے دیواکر ریڈی کے بھتیجے کی شادی میں بھی بالی ووڈ اداکاروں کا مظاہرہ ہوا تھا۔ حیدرآبادی مسلم گھرانوں کی شادیوں میں بھی بے تحاشہ روپئے خرچ کرنے کا رجحان شروع سے ہے۔ پرانے شہر میں ایک خاندان نے صرف ظاہری انتظامات کیلئے 75 لاکھ روپئے خرچ کئے تھے۔ 2012ء میں ہوئی یہ شادی پرانے شہر کے غریب عوام کیلئے افسوسناک تھی کیونکہ ایک رقعہ پر 500 روپئے خرچ کئے گئے تھے تو دلہا گھوڑی پر سوار ہوکر 20 خانگی سیکوریٹی گارڈس، 6 ڈانسروں کے رقص و سرور کے ساتھ بارات نکالی تھی۔ بارات میں راجستھان کے رقاصاؤں کے علاوہ 6 ہائی بیانڈس، 21 کوالیس گاڑیاں، 6 بگیاں، 20 اونٹ، 30 گھوڑے اور آتشبازی پر بے تحاشہ روپیہ خرچ کیا گیا تھا۔ 2 لاکھ روپئے سے سجا اسٹیج اس شادی کی فضول خرچی کو واضح کررہا تھا۔ ایسی شادیوں کے خلاف سماجی و مذہبی سطح پر زبردست مہم چلاتے ہوئے کئی اداروں نے بیداری پیدا کرنے کی کوشش شروع کی۔ تاہم اس کے چند مثبت نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں مگر کچھ لوگ اور خاندانوں کیلئے بے تحاشہ روپیہ خرچ کرنا کوئی شرمندگی یا درس عبرت کا باعث نہیں بنتا۔

بالی ووڈ اداکار سلمان خان کی بہن کی شادی فلک نما پیالیس میں ہوئی، جس کے لئے روزانہ ایک کروڑ روپئے کرایہ ادا کیا گیا تھا۔ بہرحال ان دنوں ناگیندر کی دختر کی شادی کے چرچے سیاسی حلقوں میں ہورہے ہیں۔ پرینکا چوپڑہ سے لیکر بالی ووڈ کے اہم اداکار موجود تھے۔ سیاسی و سماجی زندگی سے وابستہ افراد کا اداکاروں سے رابطہ اور خواتین کو نچانے کا رجحان نیا نہیں ہے لیکن جس معاشرہ میں شعور فروغ پا رہاہے، وہیں بے حیائی اور عریانیت کو بھی بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ ٹی وی دیکھنا مزید تکلیف دہ بنتا جارہا ہے۔ دوکانوں میں، دفاتر میں، اسٹیشنس پر خواتین کو دیکھا جاتا ہے۔ ہوٹلوں کے کاونٹر سے لیکر دیگر اداروں کے کاونٹرس پر لڑکیاں ہی نموادر دیکھی جاتی ہیں۔ دواخانوں کے ریسپشنس پر بھی لڑکیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔

اشیاء کی فروخت کیلئے لڑکیوں کا استعمال، ان کی تیاری و مارکٹنگ کیلئے ماڈلس کا استعمال کا مقصد ہمارے مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو تار تار کرنا مقصد ہے تو پھر مسلم معاشرہ تو اس کی مخالفت کرے گا لیکن وہ لوگ سرے سے خاموش کیوں ہیں جو خود کو ہندوراشٹرا کے علمبردار سمجھتے ہیں۔ ہندوؤں میں خواتین کو ایک شئے کی طرح استعمال کرنا جائز سمجھا جارہا ہے تو آر ایس ایس، ہندوتوا نظریہ کی پیروی کرنے ولوں کو یہ ہوش کیوں نہیں آتا کہ ان کی نظروں کے سامنے موبائیل بیچنا ہو تو عورت کو نچایا جاتا ہے۔ چائے کی تشہیر ہو تو وہاں بھی مجرا دکھایا جاتا ہے۔ کپڑا بیچنا ہو تو اسے کم اور عورت کے جسم کو زیادہ دکھایا جاتا ہے۔ صابن و شیمپو کے اشتہار ہو تو اس بہانے عورت کا مزید استحصال کیا جاتا ہے، گویا اشیاء ضروری کو بیچنے کے بہانے عورت کو بیچا جارہا ہے۔ ایک طرح سے یہ فحاشی پھیلانے کا کاروبار ہورہا ہے۔ تشہیر کے نام پر جو کچھ دیکھا جارہا ہے یا ٹی وی کے ذریعہ گھروں کے اندر اس بے حیائی کو عام کیا جارہا ہے تو یہ ہندوتوا کی طاقتیں چپ کیوں ہیں۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہیکہ یہ ہندوتوا طاقتیں کارپوریٹ گھرانوں کے روٹی ٹکڑوں پر تو زندہ ہیں۔ اس لئے کارپوریٹ گھرانوں کو معاشرتی بگاڑ پیدا کرنے کیلئے کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ وقت کا سانحہ اور توجہ یہ ہیکہ ملک کو اس نہج پر ڈالنے میں ہندوتوا طاقتیں ہی آگے آگے ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کو اپنا غلام بنا کر کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔

تلنگانہ کے سیاسی پنڈتوں کو بھی ان دنوں ہندوتوا طاقتوں کے اطراف بھگتی پوجا کرتے دیکھا جارہا ہے۔ خاص کر حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کی ہندوتوا طاقتوں کے آگے پیچھے دوڑ لگائی قیادت کے منصوبے خطرناک دکھائی دے رہے ہیں۔ بظاہر ٹی آر ایس نے تلنگانہ عوام کے ووٹ سیکولر بنیادوں پر حاصل کئے ہیں مگر ایک سال کے اندر ہی اس نے اپنا ہندوتوا یا موافق ہندوتوا مزاج ظاہر کرنا شروع کردیا ہے۔ ٹی آر ایس کے حالیہ پلینری سیشن کی ناکامی کے بعد پارٹی قائدین کو اپنے آقا کی پھٹکار کا سامنا ہے۔ اگرچیکہ سکندرآباد پریڈ گراونڈ کے جلسہ کو کامیاب بنانے کیلئے بھی روپیہ بے دریغ خرچ کیا گیا تھا اس طرح کے مظاہرہ کی کیا ضرورت تھی، یہ پوچھنے سے عوام قاصر ہیں۔ ایک سال میں حکمرانی کا مظاہرہ نیک طریقہ سے کیا جاتا تو ٹی آر ایس کو اس طرح کی پشیمانی کا شکار نہیں ہونا پڑتا۔ اندر کی خبر لانے والوں نے یہ بھی کہہ دیا ہیکہ ٹی آر ایس میں بہت جلد رشتوں کی بنیاد پر پھوٹ پڑ جائے گی کیونکہ ہریش راؤ کو پلینری سیشن کے دوران اسٹیج کے بجائے حاضرین میں سب سے آخری کی کرسیوں پر بیٹھے دیکھا گیا تھا۔ ٹی آر ایس سربراہ اور چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ اپنے لیڈروں کی سیاسی کلاس لینا چاہتے ہیں ان کی یہ سیاسی کلاس ہوسکتا ہے کہ تلگودیشم کے تلنگانہ میں بڑھتے اثرات کو ناکام بنانے کیلئے تربیت دینے سے متعلق ہوگی۔
kbagy2@gmail