سیاستدانوں میں اچھائی تلاش کریں !

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کی حکمران پارٹی کے لیے جوں جوں اسمبلی انتخابات قریب آرہے ہیں چیف منسٹر کو تلنگانہ تحریک میں اپنی جان گنوا دینے والے نوجوانوں کی یاد میں یاد شہیداں تعمیر کرنے کی فکر ہورہی ہے ۔ گن پارک پر پہلے ہی سے ’ تلنگانہ یادگار شہیداں ‘ کے طور پر 24 فٹ کا مجسمہ آویزاں ہے جو 1971 کی علحدہ ریاست تلنگانہ تحریک سے تعلق رکھتا ہے ۔ لیکن اب ٹی آر ایس حکومت 2014کی تحریک میں شہید ہونے والوں کے اعزاز میں ایک یادگار بنانا چاہتی ہے ۔ حصول تلنگانہ کے لیے کئی نوجوانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی ہے ۔ اسی لیے ریاستی حکومت نے نئی یادگار تعمیر کرنے کا آئیڈیا تیار کیا ہے ۔ حسین ساگر کے کناروں پر 2.5 ایکڑ اراضی پر محیط علاقہ کو تلنگانہ یادگار شہیداں کے طور پر ترقی دی جائے گی ۔ لمبنی پارک سے متصل یہ علاقہ تحریک تلنگانہ میں شہید سینکڑوں نوجوانوں کا یادگار ہوگا ۔ چیف منسٹر کے سی آر نے اس پراجکٹ کے ڈیزائن کو منظوری دیدی ہے ۔ یہاں چار منزلہ ہمہ سطحی ہال تعمیر کیا جائے گا جو روایتی طور پر ایک ’’ دیپ ‘‘ کی شکل میں ہوگا ۔ اس عمارت میں میوزیم ، کانفرنس ہال ، ریسٹورنٹس اور دیگر سہولتیں ہوں گی ۔

دوسری جانب مستقل طور پر جلتی ہوئی روشنی والا ’دیا ‘ ہوگا ۔ اس یادگار کی تعمیر کے لیے 80 کروڑ روپئے خرچ کئے جائیں گے ۔ حیدرآباد میں یہ یادگار تعمیر ایک اور تاریخی نشانی بن جائے گی ۔ وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ نے اپنے ٹیویٹر اکاونٹ پر اس یادگار کے ڈیزائن کو اپ لوڈ کیا تو کئی نے تائید کی اور کئی نے تنقید کے ساتھ تبصرے بھی کئے ہیں ۔ ایک ٹویٹر قاری نے کے ٹی راما راؤ کے ٹوئیٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ منسٹر صاحب آپ اس یادگار کی تعمیر کے بجائے شہید ہونے والے خاندانوں کو روزگار اور ملازمتیں فراہم کریں تو بہتر ہوگا ۔ علحدہ ریاست تلنگانہ تحریک کی جڑیں 1969 سے جڑی ہوئی ہیں ۔ 2 جون 2014 کو قائم ہونے والی ریاست تلنگانہ نے ان چار سال میں کہاں کہاں ترقی کی ہے ۔ یہ نوٹ کرتے ہوئے عوام نے حکومت کی ناکامیوں کی جانب بھی توجہ دلائی ہے ۔ اپنی عوامی خدمات کے حوالے سے ٹی آر ایس نے آئندہ انتخابات کے لیے کافی توقعات بھی وابستہ کرلیئے ہیں ۔ اب عام انتخابات کے لیے بمشکل ایک سال باقی ہے ۔ ٹی آر ایس نے اپنی انتخابی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے ریاست تلنگانہ میں تمام 16 لوک سبھا حلقوں میں کامیابی کا اعتماد پیدا کرلیا ہے ۔ اس میں حیدرآباد کی لوک سبھا نشست بھی ٹی آر ایس کی حلیف پارٹی ایم آئی ایم کے حق میں رہے گی ۔ اسی طرح ٹی آر ایس نے تلنگانہ اسمبلی میں 119 حلقوں کے منجملہ 100 پر کامیاب ہونے کا نشانہ بنالی ہے ۔ ایم آئی ایم کو اس کے حسب سابق حلقوں میں کامیابی ملے گی ۔ ٹی آر ایس نے اپنی متواتر کامیابیوں کے زور پر یہ تک کہنا شروع کردیا ہے کہ ریاست میں زعفرانی طاقت کا صفایا ہوجائے گا لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ بی جے پی کو اس ریاست کے عوام نے کس حد تک موقع دیا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی عوامی فلاح و بہبود کی اسکیمات کی قومی سطح سے لے کر ملک بھر میں ستائش کی جارہی ہے ۔ تلنگانہ حکومت نے اب تک کئی منفرد اسکیمات کا آغاز کیا ہے ۔ اس لیے مرکزی حکومت کے چیف اکنامک اڈوائزر اروند سبرامنین نے ٹی آر ایس حکومت کی ستائش کی ہے ۔ اراضی ریکارڈ کو عصری پروگرام سے ہم آہنگ کرنے میں ریاستی حکومت نے شاندار کارنامہ انجام دیا ہے ۔ یہ اچھی حکمرانی کی نشانی ہے ۔اس سروے ریکارڈ کو ہارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کیس اسٹیڈی بنایا جائے گا ۔ کے سی آر کٹس پروگرام کو بھی ریاست بھر میں مقبولیت ملے گی ۔ اروند سبرامنین نے حال ہی میں حیدرآباد کا دورہ کرتے ہوئے چیف منسٹر کے سی آر سے ملاقات کی تھی ۔ اس ملاقات کے پس منظر میں تلنگانہ کے اضلاع اور مواضعات میں مقامی غریب عوام اور کسانوں کی کہانی مختلف ہے ۔

یہاں یہ لوگ چیف منسٹر کے سی آر سے ناراض ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے کے سی آر کے وعدوں کا اعتبار کر کے بھول کی تھی ۔ کونڈا پوچما موضع میں گذشتہ ایک ہفتہ سے اطراف واکناف کے مواضعات سے تعلق رکھنے والے افراد جمع ہو کر چیف منسٹر کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ۔ ضلع سدی پیٹ میں موضع بھیلم پور کے کسانوں نے بھی سابق میں احتجاج کیا تھا ۔ گجویل کے اطراف کے علاقوں کے مواضعات میں احتجاج کرنے والوں نے کونڈا پوچما ذخائر آب کی تعمیر کے لیے کسانوں نے حکومت کو اپنی زرعی اراضیات حوالے کی تھی لیکن حکومت نے ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا ہے ۔ جھوٹ کا زمانہ ہے خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو کہ ریٹنگ کے لیے مرے جارہے ہیں اور جو ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کررہے ہیں ۔ چیف منسٹر کی تعریف کرنے والوں کا ٹولہ ایک طرف ہے دوسری طرف ٹی آر ایس حکومت کی خرابیوں کی فہرست تیار کرنے والا گروپ کام کررہا ہے ۔ اس طرح کی رکاوٹوں کے باوجود ٹی آر ایس حکومت عوامی مقبولیت کے عروج پر ہے کیوں کہ اس حکمراں پارٹی کو حلیف کے طور پر شہر کی ایم آئی ایم کی تائید بھی حاصل ہے ۔ اگر اچھے برے میں ایک دوسرے کے سیاسی ساجھیدار بن کر ہر معاملہ کو ’ مینیخ ‘ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔ اپوزیشن کانگریس نے اس ساجھیداری پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنے سیاسی توازن کو بگڑنے نہ دیا ہے ۔ کیوں کہ کانگریس کو ایم آئی ایم سے بھی وقت آنے پر مدد مل سکتی ہے ۔ تھالی میں جس ترکاری کا نام لیا جاتا ہے وہ کام کرنے والی پارٹی سے کوئی خائف ہے تو یہ سیاسی مجبوریوں کی خراب مثال سمجھی جائے گی ۔ اس پارٹی کے حوالے سے اب افسوس اس بات کا بھی کیا جارہا ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے حیدرآباد کے حالیہ اجلاسوں میں مقامی جماعت کی زبان و اشاروں پر ہی عمل کیا ۔ کل ہند سطح پر مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے ادارہ مسلم پرسنل لا بورڈ کو سیاسی وفادار ہوتا دیکھ کر یہ گمان ہونے لگا کہ اب مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلے بھی سیاسی جماعت کے ساجھیدارانہ اور ’ مینیخ ‘ کرنے والے حربوں کا شکار ہوجائیں گے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے حالیہ اجلاس کے بعد بورڈ کی کارکردگی پر تنقید کرنے والوں نے کھل کر نہ سہی مگر اپنی باتوں سے یہ ٹھوس اشارے بھی دئیے ہیں کہ اس بورڈ کے ذریعہ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ جس سے ہندوستانی مسلمانوں کی صرف تباہی و بربادی ہی ہوگی اور اقلیت بیچاری مزید لاچار اور لاغر ہوجائے گی ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ان تمام اختیارات میں دوسری قوتوں کے علاوہ کچھ سیاسی کھلاڑی بھی کھل کر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ ان سیاسی کھلاڑیوں کی سوچ انتہائی محدود ہے کیوں کہ اگر بورڈ پر مزید زخم لگتے ہیں تو یہ بھی اتنے ہی زخمی ہوں گے ۔ ان میں فائدہ ان عناصر کو ہوگا جو مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہوئے حکومتوں سے سودے بازی کرتے ہیں ۔ آج ان لوگوں سے یہ اہم سوال ضرور بنتا ہے کہ آیا انہوں نے مسلم پرسنل لا بورڈ کو کمزور کرنے کے لیے ایسی چال کیوں چلی ۔ جماعت کے سیاستدانوں کے دبدبے نے بورڈ سے وابستہ ارکان کو دم بخود کردیا ہے تو یہ بھی ایک افسوسناک تبدیلی کہلائے گی ۔ بورڈ کے ایک رکن کے دینی مدرسہ میں درس دینے والے ایک مدرس نے طالب علم سے سوال کیا کہ کونسا پرندہ سب سے تیز اڑتا ہے ؟ طالب علم نے جواب دیا : ’ ہاتھی ‘ ۔ مدرس کو غصہ آیا اس نے طالب علم کو نالائق کہہ کر سوال کیا کہ تمہارے والد کیا کرتے ہیں ؟ طالب علم نے جواب دیا : ’ وہ ایم آئی ایم میں ہیں ‘ ۔ مدرس نے کہا : ’ میرا خیال ہے ہاتھی ہی سب سے تیز اڑتا ہے ‘ ۔۔