سیاحوں کی دلچسپی کا نیا مرکز سعودی عرب

عامر علی خان
سعودی عرب حالیہ دنوں میں کئی ایک موضوعات اور اہم خبروں کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہا ہے جس میں پڑوسی عرب ممالک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات کے علاوہ جنگی مسائل بھی شامل ہیں لیکن رواں ہفتہ سعودی عرب میں عالمی سطح پر ایک نئی شناخت حاصل کی ہے کیونکہ سعودی عرب کا رخ کرنے والے افراد کو ہم پہلے صرف دو ہی زمروں میں منقسم کرسکتے تھے، ایک وہ افراد جو اللہ کے مہمان ہوتے تھے جیسا کہ عمرہ اور حج کے لئے دنیا کے تقریباً سبھی خطوں سے لوگ مبارک سفر کے لئے سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں جبکہ دوسرا زمرہ وہ ہے جس میں دنیا بھر کے تاجر تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک کا رخ کرتے ہیں لیکن اس مرتبہ کئی مغربی سیاحوں نے سعودی عرب کا رخ کیا جن کا مقصد نہ ہی تجارت تھا اور نہ مبارک سفر کے لئے انہوں نے سعودی عرب کا سفر کیا تھا بلکہ ان سیاحوں میں زیادہ تر تعداد غیر مسلموں کی تھی جو یہاں پہلی مرتبہ پہنچے تھے۔ سعودی عرب میں گزشتہ ہفتہ 80 ممالک سے ایک ہزار سے زائد سیاحوں کی آمد ہوئی ہے اور یہ سیاح الیکٹرانک ویزا سسٹم کے تحت سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچے تھے جنہوں نے یہاں ریاض کے تاریخی مقام دریہ پہنچے تھے تاکہ سعودی عرب میں منعقد ہونے والے پہلے فارمولہ ای سعودی ریس سے لطف اندوز ہوسکیں۔ سعودی فارمولہ ای ایک ایسا اسپورٹس ایونٹ تھا جو سعودی عرب میں پہلی مرتبہ منعقد ہوا اور اس نے اس ملک کی دنیا میں ایک نئی شناخت بنائی ہے۔ ویسے تو ساری دنیا پر یہ عیاں ہے کہ برصغیر، انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں کرکٹ کو جس جنون کی حد تک پسند کیا جاتا ہے اس کے برعکس سعودی عرب کے علاوہ خلیجی ممالک میں فٹبال اور موٹر اسپورٹس کو اسی مقبولیت کے ساتھ پسند کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سعودی اسپورٹس حکام نے پہلی مرتبہ فارمولہ ای کا انعقاد کرتے ہوئے سعودی عرب کی روایت اور تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ اس ایونٹ میں شرکت کے دوران ہماری کئی بیرونی سیاحوں سے ملاقات ہوئی اور ان کے خیالات انہی کی زبانی جاننے کا موقع ملا۔

ایونٹ کے دوران امریکہ سے آئے جانسن جو کہ اپنی جرمن نژاد اہلیہ کے ساتھ یہاں ایک ہفتہ کا وقت گذارا، انہوں نے فارمولہ ای سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ سحراؤں میں بائیک رائڈنگ سے بھی لطف اندوز ہوئے ہیں۔ ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کا ان کا یہ سفر زندگی کا ایک یادگار سفر ہے اور کہا کہ دیانتداری سے کہا جائے تو وہ کبھی سعودی عرب کے سفر کا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ہمیشہ سے ہی اگر یوں کہا جائے تو کئی برسوں سے مسلسل سعودی عرب کے سفر کا منصوبہ بنا رہے تھے اور اس ایونٹ میں شرکت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے دیرینہ خواب کو مکمل کیا ہے۔ اسی دوران نیویارک سے دو دن کے لئے پہنچانے والے 40 سالہ سافٹ ویر انجینئر آرون سے بھی ملاقات ہوئی جو کہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ یہاں پہنچے ہیں اور یہ گروپ دنیا بھر کے کئی اہم ممالک میں سفر سے لطف اندوز ہونے کے لئے پہنچتا ہے۔ آرون نے کہا کہ سعودی عرب ہمیشہ سے ہی ان کے لئے دلچسپ مقام رہا ہے اور انہیں کبھی اس بات کی امید نہیں تھی کہ وہ سعودی عرب کا کبھی سفر کر پائیں گے کیونکہ ایک جانب انہیں موٹر اسپورٹس میں دلچسپی تھی تو دوسری جانب سعودی عرب کا ویزا ملنا مشکل ہوتا تھا لیکن فارمولہ ای کے لئے جو ویزا انتظام کیا گیا اس نے ہم جیسے کئی سیاحوں کے لئے نئی راہیں ہموار کی ہیں۔ 80 ممالک سے ایک ہزار سے زائد سیاحوں کو ’’شرک‘‘ ویزا فراہم کیا گیا جو دراصل سعودی عرب کی جانب سے سیاحوں کو فراہم کیا جانے والا اپنی نوعیت کا منفرد ویزا ہے۔ فارمولہ ای کے کامیاب انعقاد کے بعد جنرل اسپورٹس اتھاریٹی کے وائس چیرمین شاہ عبدالعزیز بن ترکی الفیصل نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ اس ایونٹ سے ہم نے ایک تجربہ حاصل کیا ہے اور مستقبل میں ہم اسے مزید بہتر بنائیں گے۔ لیکن انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ مستقبل میں یہ مزید کامیاب ایونٹ ہوگا کیونکہ دنیا بھر میں اس کی ڈیمانڈ ہے۔ ریاض کا تاریخی مقام دریہ کو السعود خاندان نے تین صدی قبل آباد کیا تھا اور اب یونیسکو نے اسے ورلڈ ہیرٹیج کا مقام بھی دیا ہے۔ قومی تاریخ اور روایت کو برقرار رکھنے کے لئے اس کی تزئین نو پر کئی ملین ڈالرس خرچ کئے گئے ہیں۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ولیعہد محمد بن سلمان کوشاں ہیں کہ یہاں عالمی سطح کی صنعتیں قائم کی جائیں اور خاص کر تیل کی درآمدات اور برآمادات کی صنعت کو مزید فروغ دیا جاسکے۔ علاوہ ازیں شعبہ سیاحت کے ذریعہ بھی اسے ترقی دینے کے لئے اولین ترجیح دی جارہی ہے۔ مقامی اور بیرونی افراد کی جانب سے اس کی ترقی میں ادا کئے جانے والے رول کا جب تذکرہ کریں تو 2015 میں یہاں 27.9 بلین کی سرمایہ کاری ہوئی تھی لیکن امید کی جارہی ہے کہ 2020 تک یہ سرمایہ کاری 46.6 بلین ڈالرس ہو جائے گی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ سعودی میں پہلی مرتبہ موٹر اسپورٹس کا انعقاد عمل میں آیا ہے اور اسے ’’سعودی فارمولہ ای دریہ ای پرکس‘‘ کا نام دیا ہے اور سعودی عرب میں اپنے پہلے ہی سیزن میں اس اسپورٹس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ سعودی فارمولہ ای کو کامیاب بنانے کے لئے گزشتہ کئی سال سے ہی اس پراجکٹ پر کام شروع کردیا گیا تھا۔ پہلی مرتبہ منعقد ہونے والے سعودی عرب کے اس موٹر اسپورٹس ایونٹ میں فارمولہ ای کی 11 ٹیموں نے شرکت کی جو اس ایونٹ کے کامیاب ہونے کی ایک دلیل ہے۔ اس کے علاوہ فین زونس انٹرٹینمنٹ اور کلچر پروگرامس بھی سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب رہی۔ فارمولہ ای ٹکٹ بھی کافی مقبول ثابت ہوئیں۔ تین روزہ اس سعودی موٹر اسپورٹس ایونٹ کامیابی کے ساتھ نہ صرف اختتام پذیر ہوا بلکہ اس نے عالمی سطح پر نہ صرف اسپورٹس کے شعبہ میں بلکہ سیاحوں کو سعودی عرب کی سمت گامزن کرنے میں بھی ایک نئے باب کا اضافہ کہا جائے گا۔