سُلیمان اریب

میرا کالم            مجتبیٰ حسین
پہلی قسط

یاد رفتگان

میں جب بھی معظم جاہی مارکٹ پر واقع مجروگاہ کے کمرہ نمبر 17 پر جاتا ، اور اریب کے ہمراہ کسی ایسے شخص کو دیکھتا جو میرے لئے اجنبی ہوتا تو میں فوراً وہاں سے بھاگ جانے کی کوشش شروع کردیتا کیونکہ ایک اجنبی کی موجودگی میں ارؔیب سے ملنا کم از کم میرے لئے بہت تکلیف دہ ہوا کرتا تھا ۔ ایسی صورتوں میں وہ میرے پہنچتے ہی کہا کرتے ’’اچھا ہوا تم آگئے۔ ان سے ملو ، یہ فلاں صاحب ہیں لکھنو سے آئے ہیں، تم انہیں ذرا وہ لطیفہ تو سنادو‘‘۔
میںانجان بن کر پوچھتا ’’کونسا لطیفہ‘‘ ؟
’’ارے وہی لطیفہ جو تم نے میرے بارے میں گڑھا ہے۔ وہی میستری والا ‘‘۔ میں شدید کرب میں مبتلا ہوجاتا ، کیونکہ اریب مجھے ہر بار مجبور کیا کرتے تھے کہ میںاس لطیفہ کو ہر نئے آنے والے شخص کے سامنے سنا ؤں ، میں اُن کی بات کو ٹال جانے کی کوشش کرتا مگر وہ مسلسل اصرار کرتے کہ ’’ارے بھئی ! سنادو ۔ یہ سننا چاہتے ہیں۔ ‘‘
میں رونی صورت بناکر لطیفہ سنانا شروع کردیتا ’’اچھا صاحب سنئے۔ لطیفہ صرف اتنا ہے کہ اریب اپنے مکان کی کمپاؤنڈ وال کو اونچا کرنا چاہتے تھے ۔ ایک بار انہوں نے اس کا ذ کر ایک میستری سے کردیا ۔ بدقسمتی سے میستری سخن فہم ہونے کے علاوہ اریب کا مداح بھی تھا ۔ گویا کربلا وہ بھی نیم چڑھا۔ اب وہ ہر روز اریب کے گھر پہنچتا اور پوچھتا کہ کمپاؤنڈ کی تعمیر کا کام کب سے شروع ہونے والا ہے؟
اریب کہتے ’’بھئی ابھی تو پیسوں کا بندوبست نہیں ہوا ہے ۔ پیسہ آئے گا تو میں دیوار کی تعمیر کیلئے درکار مال خریدوں گا اور تمہیں اطلاع دوں گا‘‘۔

اس کے با وجود میستری اریب کے مکان پر پہنچتا اور دیوار کی تعمیر کیلئے ان سے اصرار کرتا۔ اریب ہمیشہ یہی عذر پیش کر کے اسے ٹال دیتے کہ ابھی پیسہ کا بندوبست نہیں ہوا ہے مگر وہ میستری کب ہار ماننے والا تھا۔ ایک دن وہ اپنے ساتھ اینٹیں اور گارا لے کر اریب کے گھر پہنچ گیا اور کہنے لگا۔
’’اتفاق سے میرے پاس اینٹیں آگئی ہیں۔ آپ مجھے ان اینٹوں کی قیمت اس وقت ادا کیجئے جب آپ کے پاس پیسہ آئے۔ آپ کابڑا مسئلہ تو حل ہوگیا ہے ۔ اب آپ صرف مزدوروں کی اُجرت ادا کرنے کا انتظام کیجئے ۔ مال تو آگیا ہے‘‘۔
اس پر اریب نے کہا’’ بھائی سچ بات تو یہ ہے کہ میں مزدوروں کی اُجرت کا بندوبست بھی نہیں کرسکتا ۔ لہذا فی الحال اس مسئلہ کو ملتوی ہی رکھو‘‘۔
اس پر میستری نے قدرے جھلا کر کہا ’’آخر آپ پر ایسی کونسی آفت آن پڑی ہے کہ مزدوروں کی اجرت بھی ادا نہیں کرسکتے‘‘۔
اریب مسکراتے ہوئے بولے ’’بھائی اصل قصہ یہ ہے کہ ’صبا‘ ابھی تک پریس میں ہے۔ وہ چھپ جائے گا تو اشتہارات کی رقم ملے گی ۔ اس سے پہلے میں پیسہ کہاں سے لاؤں گا؟ ‘‘
تب میستری نے عاجز آ کر کہا ’’صاحب آپ سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ آپ آج ہی سے ’صبا‘ کو میرے حوالے کردیجئے ۔ میں آئندہ سے ’صبا‘ بھی نکالوں گا اور آپ کی کمپاؤنڈ وال بھی تعمیر کردو ںگا ‘‘۔
لطیفہ ختم ہوتا تو اریب زوردار قہقہہ لگاتے اور فرطِ مسرت میں اجنبی سے یوں مصافحہ کرتے جیسے لطیفہ میں نے نہیں خود اریب نے سنایا ہو۔
میں انہیں کہتا ’’ اریب صاحب ۔ لطیفہ تو آپ کو پسند آیا مگر اس نکتہ پر بھی غور کیجئے کہ لطیفہ کی رو سے ’’صبا‘‘ ایک ایسا رسالہ بن جاتا ہے جسے نکالنے کیلئے ایک عدد سلیمان اریب کی نہیں بلکہ ایک میستری کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ ‘‘ اس پر اریب پھر قہقہہ لگاکراجنبی سے مصافحہ کرتے ۔ ابھی پہلے لطیفہ کی ہنسی ختم بھی نہیں ہوتی کہ اریب کہتے ’’اچھا وہ لطیفہ تو سناؤ۔‘‘
میں پھر انجان بن کر پوچھتا ’’کون سا لطیفہ؟ ‘‘
’’ارے وہی جامیؔ صاحب والا۔‘‘
میں اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھ کر طوعاً و کرہاً لطیفہ سنانے لگتا ۔ لطیفہ یہ ہے کہ ایک بار کسی چھوٹی سے بات پر اریب صاحب اور جامی صاحب میں ان بن ہوگئی ۔ ایک دن جامی صاحب اورینٹ ہوٹل میں بیٹھے اریب کا مذاق اُڑا رہے تھے کہ میں نے پوچھا۔
’’جامی صاحب ! جب آپ اریب کو بڑا شاعر نہیں مانتے تو پھر آپ نے اپنے پہلے مجموعۂ کلام میں اریب کی رائے کیوں شائع کی ہے؟ ‘‘
اس پرجامی صاحب نے اپنے تاریخی جھٹکے کے ساتھ کہا ’’ہیں ! تب ہی تو اریب کی رائے میں نے گرد پوش پر چھاپی ہے۔ بھلا گرد پوش بھی کبھی کتاب کا حصہ بن سکتا ہے؟‘‘ اریب کی آنکھوں میں ایک چمک سی پیدا ہوجاتی اور وہ اپنے لمبے لمبے بال چہرے کے سامنے پھینک کرا یک زوردار قہقہہ لگاتے اور پھر ایک بار اجنبی سے مصافحہ کرنے کا عمل دہرایا جاتا۔
میں اپنی جان چھڑا کر وہاں سے بھاگ جانے کی کوشش کرتا مگر اسی اثناء میں اریب پھر فرمائش کرتے ’’اچھا اب وہ نوری والا لطیفہ تو سنادو۔‘‘
اب کی بار میرے چہرے پرایسے آثار نمودار ہوجاتے جیسے میں نے ارنڈی کا تیل پی لیا ہو ۔ مگر میں جانتا تھا کہ لطیفہ سنائے بغیر اریب مجھے جانے نہیں دیں گے۔
میں پھر لطیفہ سنانا شروع کردیتا اور اجنبی کی سہولت کیلئے کہنے لگتا ’’اس لطیفہ کو سمجھنے کے لئے آپ کا شاہ نوری سے واقف ہونا ضروری ہے۔ شاہ نوری اریب کے اسسٹنٹ کے طور پر ’’صبا‘‘ کا کام کرتے تھے ۔ ایک دن ایک صاحب اپنے چپراسی کے ذریعہ اریب کو ایک خط بھیجنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے چپراسی کو بلاکر کہا’’یہ خط لیکر کمرہ نمبر 17 پر جا ؤ اور وہاں سلیمان اریب کو دے آؤ‘‘۔ چپراسی نے اریب کو پہچاننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ’’اگر آپ اُن کا حلیہ بیان کردیں تو مجھے پہچاننے میں آسانی ہوگی‘‘۔ اُن صاحب نے کہا ۔’’ارے تم سلیمان اریب کو نہیں جانتے۔ لمبے لمبے بال رکھتے ہیں، اونچے پورے ہیں، گورا سا رنگ ہے۔‘‘ چپراسی نے پھر بھی انہیں پہچاننے سے انکار کردیا۔
تب ان صاحب نے کہا ۔’’ارے بھئی سلیمان اریب کو کون نہیں جانتا ، مشہور شاعر ہیں، چہرے پر چیچک کے داغ ہیں۔ کرتا اور پاجامہ پہنتے ہیں‘‘۔
اس پر چپراسی نے اچانک دماغ پر زور دیتے ہوئے پوچھا ’’صاحب آپ کا اشارہ کہیں اُن صاحب کی طرف تو نہیں ہے جو اکثر شاہ نوری کے ساتھ گھومتے رہتے ہیں‘‘؟

اس پر اریب پھر قہقہہ لگاکر کہتے ’’لیجئے صاحب! یہ حیثیت ہوگئی ہے ہماری کہ لوگ شاہ نوری کے توسط سے ہمیں پہچاننے لگے ہیں جیسے ہماری کوئی حیثیت ہی نہ ہوئی‘‘۔
میں یہ لطیفہ سناکر کافی مطمئن ہوجاتا کیونکہ اریب کے بارے میں میرے پاس صرف تین ہی لطیفے تھے ۔ اریب اکثر پوچھتے’’تم نے میرے بارے میں صرف تین ہی لطیفے کیوں بنائے ہیں؟‘‘
میں کہتا ، اریب صاحب ! سچ تو یہ ہے کہ میں آپ کے بارے میں سینکڑوں لطیفے بناسکتا ہوں، لیکن مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ میں ایک ہی لطیفہ کو سینکڑوں مرتبہ سناؤں۔ میں تو یہ تین لطیفے بناکر ہی پچھتا رہا ہوں۔ جب بھی باہر سے کوئی مہمان آتا ہے یا کوئی ادبی شخصیت آتی ہے تو آپ اکبر اعظم بن جاتے ہیں اور میں صرف ملا دوپیازہ بن کر رہ جاتا ہوں۔ آخر میری بھی تو کوئی حیثیت ہے، اریب اس بات پر بھی مسکراتے۔
میں نے بہت سی زندہ دل شخصیتیں ایسی دیکھی ہیں جو اپنے بارے میں لطیفے سن کر ناک بھوں چڑھانے لگتی ہیں مگر اس معاملہ میں اریب کا حال جداگانہ تھا ۔ وہ اپنے بارے میں ہونے والے مذاق کو عام کرنا چاہتے تھے بلکہ ایک نوبت تو وہ بھی آتی تھی جب لطیفہ گھڑنے والا خود ایک لطیفہ بن جایا کرتا تھا۔
ارؔیب کو سب سے پہلے میں نے 1952 ء میں گلبرگہ میں دیکھا تھا۔ ہم لوگوں نے گلبرگہ میں ایک کل ہند مشاعرہ کا اہتمام کیا تھا جس میں اریب شرکت کیلئے آئے تھے ۔ میں اس مشاعرہ کا معتمد تھا ۔ میری عمر یہی کوئی سترہ سال کی ہوگی ۔ گویا یہ وہی عمر تھی جہاں سے آدمی اپنی زندگی میں لغزشوں کا آغاز کرتا ہے ۔ اس عمر میں آدمی شعر کا مفہوم تو سمجھنے لگتا ہے لیکن شعر پر عمل کرنے کی ہمت اس میں نہیں ہوتی ۔ آدھی رات کا وقت تھا جب اریب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ٹرین سے گلبرگہ اسٹیشن پر اترے تھے ۔ اریب اپنے ساتھیوں سے باتیں کر رہے تھے اور بات بات پر قہقہہ لگا رہے تھے۔ یقین مانئے زندگی میں پہلی بار مجھے شاعروں کو دیکھنے کا موقع مل رہا تھا ، میں نے احتیاطاً ایک آٹو گراف بک بھی خریدلی تھی۔ میں چونکہ مشاعرہ کا معتمد تھا ، اسی لئے مجھے ڈر تھا کہ کہیں انتظامات کی گڑبڑ میں مجھے شاعروں کے آٹو گراف لینے کا موقع نہ مل سکے۔ اسی لئے اسٹیشن پر ہی میں نے اپنی آٹو گراف بک سب سے پہلے اریب کی جانب بڑھادی ۔انہوں نے گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے کہا :
’’رات کے دو بج رہے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی وقت ہے آٹو گراف لینے کا ؟‘‘

شاہد صدیقی نے جو برابر ہی کھڑے تھے اچانک کہا ’’اریب تم وقت نہ دیکھو بلکہ فوراًاپنے آٹوگراف دے دو ۔ یہ لوگ کل تمہاری شاعری سن لیں گے تو شاید تم سے آٹو گراف لینے نہ آئیں ۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ مشاعرہ سے پہلے ہی آٹو گراف دیدو ۔ تمہیں دوسروں کی غفلت سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے‘‘۔
اریب نے کہا ’’ایسی بات ہے تو پھر مجھے ابھی اپنے آٹو گراف دیدینا چاہئے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اریب نے فوراً قلم نکالا اور آٹو گراف بک پر دستخط کردیئے ۔ مشاعرہ میں اریب نے بڑی جاندار نظم سنائی ۔ مجھے اریب کی اس نظم کے کئی بند آج بھی یاد ہیں اور وہ آٹو گراف بک آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ پھر کئی برس بیت گئے ۔ میں گلبرگہ سے حیدرآباد آگیا اور ادبی محفلوں میں اریب سے لگاتار اور مسلسل ملاقاتیں ہونے لگیں اور مجھے انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
اریب ان لوگوں میں سے تھے جن سے آپ کا جی خواہ مخواہ ملنے کو چاہتا ہے۔ چنانچہ اریب کے اطراف بہت سے لوگ خواہ مخواہ جمع رہا کرتے تھے۔ میں نے جب بھی اریب کو دیکھا انہیں خواہ مخواہ لوگوں میں گھرا ہوا دیکھا ۔ وہ خواہ مخواہ گھنٹوں دوستوں کے ساتھ بیٹھا کرتے اور خواہ مخواہ اُن سے بحثیں کیا کرتے تھے ۔ کمرہ نمبر 17 ویسے تو ’’صبا‘‘ کا دفتر تھا مگر عملاً یہ اریب کے دوستوں کا اڈہ تھا ۔ وہ صبح میں اس ارادے کے ساتھ اپنے گھر سے نکلتے تھے کہ دفتر میں بیٹھ کر کام کریں گے لیکن ’’صبا‘‘ کے دفتر پر پہنچتے تو دوستوں کے نرغے میں پھنس جاتے ۔ دن بھر گپیں ہوتیں، چائے کے دور چلتے اور محفل کمرہ نمبر 17 سے اُٹھ کر سڑک پر جاری رہتی ۔ اریب ہر روز اپنے ساتھ بیگ لے کر آ تے لیکن کبھی اس بیگ کو کھولنے کی نوبت نہ آتی ۔ یہاں تک کہ ’’صبا‘‘ لیٹ ہوجاتا۔ خریداروں کے خطوط آنے لگتے اور وہ یاد دہانی کرانے لگتے لیکن اریب کی بے نیازی میں کوئی فرق نہ آتا ۔ میں اریب سے کہا کرتا ’’صبا‘‘ اردو کا واحد ماہنامہ ہے جو سال میں چار مرتبہ بڑی پابندی سے شائع ہوتا ہے‘‘۔

اریب کے اطراف بھانت بھانت کے لوگ جمع رہتے تھے۔ ایسے لوگ بھی رہتے تھے جن سے کوئی شاعر یا ادیب چند منٹ کیلئے بھی بات نہیں کرسکتا مگر اریب ان سے گھنٹوں باتیں کیا کرتے تھے۔ اریب کی ذ ات ایک ایسا گھاٹ تھی جس پر شیر اور بکری دونوں ایک ساتھ پانی پیا کرتے تھے ۔ حیدرآباد کا کوئی بھی مشاعرہ اریب کے بغیر نہ تو کامیاب ہوسکتا تھا اور نہ ہی فیل ہوسکتا تھا ۔ بہت کم شعراء ایسے ہوں گے جن میں بیک وقت مشاعرہ کو کامیاب بنانے اور اسے فیل کرنے کی اتنی بڑی صلاحیت موجود ہو۔ اریب چاہتے تو مشاعرہ کو بڑی بلندی تک لے جاتے اور کبھی بگڑجاتے تو مشاعرہ کو بچہ کے کھلونے کی طرح توڑ تاڑ کر پھینک دیتے اور بڑی معصومیت کے ساتھ ٹوٹے ہوئے مشاعرہ کی طرف دیکھتے ۔ میں تو کہتا ہوں کہ حیدرآباد کے مشاعروں کی آدھی فضاء اریب ہی بنایا کرتے تھے اور بقیہ آدھی دوسرے سارے شعراء مل کر بناتے تھے ۔ شعر سناکر سماں باندھنا تو سب کو آتا ہے لیکن اریب مشاعرہ میں صرف اپنی مخصوص آمد کے ذریعہ ہی سماں باندھ دیا کرتے تھے ۔ مشاعرہ گاہ میں جب اریب داخل ہوتے تو یوں معلوم ہوتا جیسے سچ مچ ایک شاعر چلا آرہا ہے۔ بہکتی ہوئی چال ، اطراف دوستوں کا ہجوم ۔ یوں لگتا جیسے اریب کو پا بہ زنجیر کر کے مشاعرہ میں لایا جارہا ہے ۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ رک جاتے ۔ سامعین پر پلٹ کر نگاہ ڈالتے ۔ کوئی شناسا نظر آتا تو لہراتا ہوا سلام کردیتے ۔ اگر بہت زیادہ موڈ میں ہوتے تو سامعین کی بھیڑ کو چیرتے ہوئے اپنے شناسا تک پہنچنے کی کوشش کرتے اور ان کے احباب انہیں زبردستی روکنے کی کوشش کرتے ۔ اریب اپنے ساتھیوں سے الجھتے ، اُن سے بحث کرتے بالآخر ڈائس پر پہنچ جایا کرتے تھے ۔ اریب اپنی مخصوص آمد کے ذ ریعہ ہی سامعین سے داد وصول کرلیا کرتے تھے ۔ شعر سناکر داد وصول کرنے کی نوبت بعد میں آتی ۔ اریب کے انتقال پر مجھے سب سے زیادہ دُکھ اس احساس سے ہوا کہ اب حیدرآباد میں کوئی ایسا شاعر باقی نہیں رہ گیا جو اریب کی سی شاعرانہ سج دھج کے ساتھ مشاعرہ گاہ میں داخل ہوسکے ۔ اِن دنوں شعراء مشاعرہ گاہ میں یوں پہنچتے  ہیں جیسے کلام سنانے نہ آئے ہوں بلکہ کسی گھر میں نقب لگانے آئے ہوں۔ اریب اس دھوم دھام اور سج دھج کے ساتھ مشاعرہ گاہ میں آتے کہ یوں محسوس ہوتا جیسے مشاعرہ سے پہلے ہی انہوں نے مشاعرہ لوٹ لیا ہو۔ پھر کلام یوں سناتے جیسے وہ ڈائس پر نہیں دیوان خانہ میں بیٹھے ہوں۔ سامعین سے بے تکلف گفتگو ہوتی تھی ۔ سامعین کے سوالات کے جوابات دیئے جاتے تھے ۔ آخری زمانے میں تو وہ کلام کم سناتے تھے اور سامعین سے گفتگو زیادہ کرتے تھے ۔ یوں تو اریب اپنی غزلیں اکثر ترنم سے سنایا کرتے تھے ۔ مگر میں ان سے کہا کرتا تھا کہ اریب صاحب آپ کا ترنم تو تحت اللفظ ترنم ہوا کرتا ہے ۔ اس پر وہ کہتے ’’بھئی شاعر اور قوال میں کچھ فرق تو ہونا ہی چاہئے‘‘۔
صفیہؔ (مسز اریب) اریب صاحب کی سب سے بڑی کمزوری اور سب سے بڑی طاقت تھیں۔ ہر بات میں صفیہ کا بے موقع ذ کر کیا کرتے تھے ۔ ایک دن فراق کی شاعری پر بحث ہورہی تھی ۔ کسی نے فراق کی شاعری کے بارے میں کہا کہ پروفیسر احتشام حسین کی یہ رائے ہے ۔
اس پراریب نے فوراً کہا ’’اور صفیہ کی بھی یہی رائے ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ یوں مطمئن ہوگئے جیسے صفیہ کی رائے کے بعد پروفیسر احتشام حسین کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ دنیا کا کوئی بھی مسئلہ پیش ہوتا تو اریب اس میں صفیہ کی رائے کو ضرور شامل کردیتے تھے ۔ ان کی بات چیت کا نمونہ کچھ اس طرح ہوتا تھا:
’’عرب اسرائیل جنگ کے بارے میں امریکہ نے جو رویہ اختیار کیا ہے اس سے صفیہ متفق نہیں ہے۔ ‘‘ ’’مسز اندرا گاندھی انقلابی اقدامات کے ذریعہ ملک میں سوشلزم لانا چاہتی ہیں اور صفیہ کی بھی یہی رائے ہے‘‘۔ ’’اردو بڑی شیریں زبان ہے کیونکہ صفیہ کی یہی رائے ہے‘‘۔
ایک دن انہوں نے دوست احباب کی ایک محفل میں کوئی پندرہ سولہ مرتبہ صفیہ کی رائے کا ذکر کیا۔ محفل برخواست ہونے لگی تو اریب کے ایک بے تکلف دوست نے کسی بات پر اریب سے کہا ’’اریب تم بڑے احمق اور بے وقوف آدمی ہو‘‘۔ اس پر میں نے فوراً لقمہ دیا اور صفیہ کی بھی یہی رائے ہے۔ اریب نے فوراً پلٹ کر مصافحہ کیا اور بڑی دیر تک ہنستے رہے۔ (دوسری قسط اگلے اتوار کو)  (1970)