سونے کی چڑیا سے سونے کی قمیص تک

میرا کالم سید امتیاز الدین
جہاں تک ہماری معلومات اور زبان دانی کا تعلق ہے ہمارا خیال ہے کہ بنجر زمین اُس زمین کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز اُگائی نہیں جاسکتی۔ ہمارا کاشت کاری سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا لیکن جب بھی ہم آپ کی ضیافت ِ طبع کے لئے یہ کالم لکھنے بیٹھتے ہیں تو ہم کو اپنا دماغ بنجر زمین معلوم ہونے لگتا ہے، جسے کوئی قابل ذکر بات سوجھتی ہی نہیں۔ کبھی قسمت یاوری کرتی ہے تو اُردو یا انگریزی اخبار میں ایسی خبر نظر سے گزرتی ہے جو دلچسپ معلوم ہوتی ہے تو ہم اُس کو اپنا موضوع سخن بنالیتے ہیں۔ آج یعنی 10 اگسٹ کے اخبار میں سیاست ڈاٹ کام کے ذریعہ سے ایک ایسی خبر شائع ہوئی ہے جس نے ہماری مراد پوری کردی۔ خبر یہ ہے کہ شردپوار صاحب کی زیرقیادت این سی پی کے میونسپل کونسلر پنچ پاریکھ صاحب نے اپنی 45 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک کروڑ چالیس لاکھ روپئے کا سونے کا شرٹ تیار کرایا ہے۔ سونے کا یہ شرٹ پہن کر اُنھوں نے اپنی سالگرہ منائی۔ موصوف بچپن سے سونے کی انگوٹھیاں اور زنجیریں پہنا کرتے ہیں۔ عام دنوں میں بھی وہ تقریباً دو کیلو وزنی سونے کے زیورات پہنا کرتے ہیں۔

اپنی سالگرہ کے موقع پر سونے کی جو قمیص اُنھوں نے پہنی اُسے تقریباً 19 کاریگروں نے دو مہینے میں تیار کیا ہے۔ اس طرح وہ ملک کے سب سے قیمتی شہری بن گئے ہیں۔ ہماری ناچیز رائے میں اُن کی قدر و قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں معلوم ہوتے۔ اُنھیں تو کسی قدِ آدم بینک لاکر میں قیام کرنا چاہئے۔ چونکہ ہم ایک قدامت پسند آدمی ہیں اور جدید طرز زندگی سے یکسر ناآشنا ہیں۔اس لئے ہم یہ سوچ کر فکر مند ہیں کہ موصوف نے سونے کی قمیص تو بنوالی لیکن اِس قمیص پر وہ پاجامہ کس چیز کا پہنیں گے۔ اگر پاجامہ کپڑے کا ہو تو وہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند معلوم ہوگا۔ اگر وہ ٹاٹ کے اِس پیوند کو پہننا پسند نہ فرمائیں تو اُن کی ستر پوشی خطرے میں پڑجائے گی۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ وہ اپنی اگلی سالگرہ تک سونے کا پاجامہ بھی بنوالیں اور ساتھ ہی ہیرے جواہرات کا جوتا اور اپنے شایانِ شان تاج بنوالیں۔ اس طرح وہ شان و شوکت کا ایک مکمل پیکر بن جائیں گے اور اُن کے مداحوں کو بے ساختہ کہنا پڑے گا :

زِفرق تا بہ قدم ہر کُجا کہ می نِگرم
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست
اِن حالات میں کون کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان ایک غریب ملک ہے۔ قدیم زمانے میں ہمارے ملک کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ اب سونے کی قمیص کا ملک بن گیا ہے۔ جب ایک میونسپل کونسلر ایک کروڑ چالیس لاکھ کا طلائی شرٹ زیب تن کرسکتا ہے تو اُس سے اعلیٰ منصب پر فائز حضرات کو تو اور بھی تزک و احتشام کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ جیسے سونے کے در و دیوار، پلاٹینم کے بستر، موتیوں کے تکیے، چاندی کے پلنگ وغیرہ۔ غالب نے نواب تجمل حسین خاں کی مدح میں کہا تھا :
دیا ہے خلق کو بھی تا اُسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے
زمانہ عہد میں اُس کے ہے محوِ آرایش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے

سونے سے ہمارا تعلق بالکل واجبی واجبی سا ہے۔ ہم نے اب تک یہ بھی معلوم نہیں کیاکہ ہماری بیوی کے پاس کتنے تولے سونا ہے۔ آج سے 13 سال پہلے جب ہم وظیفے پر سبکدوش ہوئے تو ہمارا ایک جونیر عہدہ دار لڑکی نے ہماری وداعی پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔ اُس نے ہمیں بتایا کہ یہ پارٹی فلاں ہوٹل میں ہوگی۔ ڈنر کے اخراجات کے علاوہ بجٹ میں دو ہزار روپے آپ کے لئے سونے کی ایک انگوٹھی کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ ہم نے سادگی سے کہا ’بی بی ہم سونا تو پہنتے ہی نہیں ہیں۔ آپ ناحق ہمارے لئے انگوٹھی کا انتظام کرنا چاہتی ہیں‘۔ اِس پر اُس دُھن کی پکّی خاتون نے اُسی رقم میں ایک قیمتی شال اور چارمینار کا ایک ماڈل ہمارے لئے خرید لیا۔ جب ہم نے اپنی بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ بہت خفا ہوئیں۔ اُنھوں نے کہا تم انگوٹھی تقریب میں قبول کرلیتے اور بعد میں مجھے دے دیتے۔ اِس طرح میری انگوٹھیوں میں ایک کا اضافہ ہوجاتا۔ شال تو تم اوڑھتے نہیں۔ جہاں تک چارمینار کے ماڈل کا تعلق ہے وہ عام طور سے باہر سے آنے والوں کو دیا جاتا ہے، تم تو یہیں رہتے ہو، جب چاہو اُسے دیکھ سکتے ہو۔

سچی بات یہ ہے کہ سونے چاندی کا موہ ہمیں کبھی نہیں رہا۔ اِسے آپ ہماری بے وقوفی سمجھیں یا نادانی، ہمیں افادیت کے اعتبار سے ایک کیلو چاول ایک کیلو سونے سے زیادہ قیمتی معلوم ہوتا ہے۔ چاول سے بھوکے کی بھوک مٹتی ہے لیکن سونا سوائے زیب و زینت کے اور کس کام آتا ہے۔ ہم نے بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ کسی شخص کو ایک ’وردان‘ ملا تھا کہ وہ جس چیز کو ہاتھ لگائے سونا بن جائے گی۔ یہ شخص جب کھانا کھانے کے لئے بیٹھا تو ہر نوالہ سونے کا بنتا چلا گیا اور اُسے بھوکا ہی اُٹھ جانا پڑا۔ اُس نے اپنی چہیتی بیٹی کو چھوا تو وہ سونے کی مورتی بن گئی۔ بالآخر اُس نے رو رو کر دعا مانگی کہ اُسے اِس لعنت سے چھٹکارا ملے۔
اِسی طرح ایک اور کہانی ہمیں یاد آرہی ہے۔ کسی بادشاہ کو اُس کے لالچی وزیر نے دھوکہ دیا تھا کہ اگر بادشاہ سلامت شاہی خزانے سے سونا مرحمت فرمائیں تو اُن کے لئے ایسا نادر و نایاب لباس تیار کیا جائے جو دنیا میں کسی اور کے پاس نہ ہو۔ وزیر اور اُس کے ساتھیوں نے سونا تو غائب کردیا اور ایک خالی صندوق لے کر شاہی محل پہنچ گئے۔ اُنھوں نے بادشاہ سے کہاکہ یہ بیش قیمت لبادہ خالص سونے کے تاروں سے بنا ہے لیکن یہ صرف عقلمندوں کو دکھائی دیتا ہے۔ بیوقوفوں کو یہ پوشاک دکھائی نہیں دیتی۔ اُنھوں نے بادشاہ کے کپڑے اُتروادیئے اور جھوٹ موٹ ہاتھوں کو ایسی حرکت دی جیسے بادشاہ کو سونے کے تاروں کا لباس پہنا رہے ہیں۔ بادشاہ کو خود اپنا لباس نظر نہیں آرہا تھا لیکن اگر وہ کہتا کہ میں خود کو ننگا محسوس کررہا ہوں تو بے وقوف کہلاتا۔ وزیر اور اُس کے ساتھی اُس سے پوچھنے لگے ’کیوں عالی جاہ! سونے کا یہ عمدہ لباس کیسا لگا؟‘ بادشاہ نے سوچا کہ اگر میں کہوں کہ مجھے یہ لباس دکھائی ہی نہیں دیتا تو بے وقوف کہلاؤں گا اور سلطنت ہاتھ سے جائے گی۔ اِس لئے اُس نے کہا ’ہاں ہاں بہت عمدہ ہے‘۔ وزیر اور اُس کے بددیانت ساتھیوں نے اُسے شہر میں جلوس کی شکل میں گشت کروایا۔ دیکھنے والے بادشاہ کو برہنہ دیکھ کر دم بخود تھے کہ ایک چھوٹا سا بچہ مجمع میں سے چیخ کر کہنے لگا ’بادشاہ ننگا ہے‘ بادشاہ ننگا ہے‘۔ تب جاکر سب لوگوں پر وزیر اور اُس کے سازشی ساتھیوں کی ناپاک سازش کا بھانڈا پھوٹا لیکن بادشاہ کو اپنی رعایا کے سامنے بے عزت ہونا تھا، ہوا۔

بعض لوگ بے حد دولت مند ہونے کے باوجود سادہ زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ ہنری فورڈ دنیا کا دولت مند ترین شخص تھا لیکن بہت سادہ زندگی گزارتا تھا۔ ایک بار اُس کا ایک قدیم ملاقاتی ڈٹرایٹ میں اُس کے موٹروں کے کارخانے میں اُس سے ملنے کے لئے آیا۔ اُس نے دیکھا کہ ہنری فورڈ ایک ایسا کوٹ پہنے ہوئے ہے جس میں بہت بڑا سوراخ ہے۔ ملاقاتی نے حیرت سے پوچھا ’مسٹر فورڈ آپ کے کوٹ میں اتنا بڑا سوراخ؟‘
فورڈ نے بے نیازی سے جواب دیا ’بھئی سب جانتے ہیں کہ میں اِس کارخانے کا مالک ہوں۔ میرے کپڑوں کو کوئی نہیں دیکھتا‘۔ چند سال بعد فورڈ اور اُس کے دوست کی ملاقات فرانس میں ہوئی۔ دوست نے دیکھا کہ فورڈ فرانس میں بھی وہی سوراخ دار کوٹ پہنے ہوئے گھوم رہا ہے۔ فورڈ کے دوست نے کہا ’مسٹر فورڈ! یہاں بھی وہی کوٹ‘ فورڈ نے جواب دیا ’یہاں پر مجھے کوئی نہیں جانتا۔ میرے کپڑوں کو کون دیکھے گا۔
دنیا میں امیر کبیر لوگ اپنی دولت مندی کا اظہار کرتے ہیں لیکن اِس میں بھی سلیقے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ کئی سال پہلے ہم ایک شادی میں شریک ہوئے تھے جس میں کھانے کے بعد مہمانوں کو پان پیش کئے گئے تھے جو چاندی کے ایک مخروطی وضع کے خول میں رکھے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ اِس طرح میزبان نے مہمانوں کا اکرام کیا تھا۔ جب ہندوستان پر چین کا حملہ ہوا تھا تو حضور نظام نے کئی ٹن سونا بطور عطیہ دیا تھا، جس سے اُن کی وطن دوستی کا اظہار ہوتا تھا۔ ڈائنامائٹ کا موجد الفریڈ نوبل کروڑوں کی دولت چھوڑ کر مرا۔ اُس نے اپنی دولت کو سائنس، طب، ادب اور امن کے قیام کے لئے کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کے لئے وقف کردیا جس سے ابھی تک ہر سال نوبل انعام دیئے جاتے ہیں۔ اگر حضور نظام اور الفریڈ نوبل جیسے ارب پتی لوگ طلائی لباس پہن کر اپنے عالی شان محلوں میں بیٹھے رہتے تو دنیا کو کیا فائدہ ہوتا۔ خود ہمارے شہر میں سالار جنگ میوزیم نواب سالار جنگ کی جیتی جاگتی یادگار موجود ہے جس کو دیکھ کر مولانا ابوالکلام آزادنے کہا تھا کہ وہ کام جو حکومتوں اور انجمنوں سے ممکن نہ تھا فردِ واحد کے سلیقے اور ذوقِ سلیم کی وجہ سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ ہمارے ملک کی ایک نہایت عمدہ لائبریری خدا بخش لائبریری پٹنہ ہے جس کی شہرت ساری دنیا میں ہے۔ خدا بخش صاحب کی ابتدائی زندگی کسمپرسی میں گزری۔ بعد میں وہ ایک کامیاب وکیل بنے۔ وکالت سے جو دولت اُنھوں نے کمائی اُس کو نادر اور قیمتی کتابوں اور مخطوطات خریدنے میں صرف کیا۔ آج اِس کتب خانے سے بے شمار لوگ فائدہ اُٹھا رہے ہیں گویا خدا نے اُن کو جو دولت بخشی تھی وہ آج خدا کے بندوں کے کام آرہی ہے۔

دنیا میں لوگ ظاہر کو سب کچھ سمجھتے ہیں، باطن کو کوئی نہیں دیکھتا۔ آپ نے ملاّ نصیرالدین کا نام سنا ہوگا۔ ایک دعوت میں وہ پھٹے پرانے کپڑے پہن کر چلے گئے۔ دربان نے اُنھیں جھڑک کر رخصت کردیا۔ وہ اپنے گھر گئے۔ اِنھی کپڑوں پر ایک بیش قیمت عبا پہنی اور دوبارہ دعوت میں آگئے۔ اب کے دربان نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور اُنھیں اندر جانے دیا۔ دعوت میں کھانا کھانے کی بجائے ملاّ نصیرالدین نے اپنی عبا کی آستینوں کو شوربے میں ڈبونا شروع کردیا اور کہنے لگا ’کھا! یہ تیرے لئے ہے‘ لوگوں نے ماجرا پوچھا تو ملاّ نے کہا ’میں بوسیدہ کپڑوں میں آیا تھا تو مجھے دُھتکار دیا گیا۔اب یہ قیمتی عبا پہنی ہے تو آؤ بھگت ہورہی ہے۔ یہ دعوت میری نہیں میری عبا کی ہے۔
بہرحال ہم میونسپل کونسلر صاحب کو سونے کی قمیص کے لئے مبارکباد دیتے ہیں اور اُن سے التماس ہے کہ وہ اپنی دولت کو نام و نمود کے لئے استعمال نہ کریں۔ پنچ پاریکھ صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ سونا کا لباس عیوب کو نہیں چھپاتا۔ اچھے کام آدمی کے نام کو باقی رکھتے ہیں :
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوب ِبرہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا