سوشیل میڈیا، بیداری ، بیزاری اور برائی کا ذریعہ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری      خیراللہ بیگ
سوشیل میڈیا کے استعمال پر میں نے گذشتہ کالم میں دونوں ریاستوں کے آندھراپردیش اور تلنگانہ کے چیف منسٹروں کے درمیان مسابقت کا ذکر کیا تھا۔ اس سوشیل میڈیا یعنی فیس بک، ٹوئیٹر، واٹس اپ نے حکمرانوں سے لیکر بیوریو کریٹس، عام آدمی بلکہ فقیروں اور بھکاریوں میں بھی مقبول ہورہا ہے۔ اس فیس بک پر ایک ویڈیو پوسٹ کیا گیا جس میں شہر کے ایک چوراہے پر غالباً جوبلی ہلز کے قریب کا منظر تھا، ایک فقیر کو موٹر کار کے مالک سے سگنل پر خیرات مانگتے ہوئے بتایا گیا جس میں موٹرکار چلانے والی لیڈی نے چلر نہ ہونے کا عذر پیش کرکے فقیر کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن فقیر بھی ضدی تھا نوٹ دینے پر چلر دینے کا وعدہ کیا۔ لیڈی نے چھٹکارا پانے کیلئے کرنسی ہی نہیں ہے کہا تو فقیر بھی ڈھٹ ہوکر سوال کیا کہ کریڈٹ کارڈ چلے گا اور اس نے اپنی جھولی میں سے کریڈٹ کارڈ سویپ کرنے کی مشین نکال کر بتائی۔ اس طرح کے واقعات سے بھرے پوسٹس کرنے والوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ٹریفک سگنل پر گاڑی رکی تو ایک گداگر نے کار کا شیشہ پر دستک دے کر پیسے مانگے۔ خاتون نے اسے غور سے دیکھا اور کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں نے تمہیں کہیں دیکھا ہے۔ اس گداگر نے اپنے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا کہ میم صاحب! آپ نے پہچانا نہیں میں فیس بک پر آپ کا فرینڈ ہوں۔ واٹس آپ نے تو ان دنوں سکریٹریٹ کے ملازمین سے لیکر بلدی عہدیداروں، صفائی کرمچاریوں اور گلیوں میں کچرا چننے والوں کے درمیان تک دھوم مچا دی ہے۔ راج ٹھاکرے کی بیوی کو کتے نے کاٹ لیا یہ خبر سارے ملک میں واٹس اپ کے ذریعہ یوں پھیل گئی کہ ہر مظلوم شوہر نے اس کتے کی تعریفیں کرکے اپنے گھروں میں بھی کتے پالنے کا فیصلہ کرلیا۔ ان دنوں یہ پوسٹ بھی دھوم مچا رہی ہے کہ وزیرخارجہ سشماسوراج کو وزیراعظم نریندر مودی کے بیرونی دوروں پر غصہ آرہا ہے۔ وزیرخارجہ ہونے کے باوجود وہ کہیں بھی دورہ نہیں کررہی ہیں بلکہ مودی نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ ایک لطیفہ بھی دھوم مچا رہا ہے کہ ایک صاحب کی بیوی بہت اچھا کھانا پکاتی تھی لیکن انہوں نے کھانے کی کبھی تعریف نہیں کی۔ بقرعید کے دن نماز پڑھنے گئے تو مولوی صاحب نے بتایا کہ بیوی کے کھانے کی تعریف کرنے سے محبت بڑھتی ہے۔ وہ گھر پہنچتے ہی دسترخوان پر بیٹھ گئے تو بیوی نے قورمہ پیش کیا۔ ہر لقمے پر سبحان اللہ، ماشاء اللہ اور کیا بات ہے کھانے کی کہنا شروع کیا۔

بیوی نے زور سے بیلن شوہر کی کمر پر مارا اور کہا ’’ذلیل انسان 20 سال سے میرے کھانے کی کبھی تعریف نہیں کی آج پڑوسن نے خورمہ بھیجا ہے تو اس کی تعریف میں زمین آسماں کے قلابے ملادیئے ہیں۔ فیس بک اور واٹس اپ نے پرانے شہر کے نوجوانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے بعض منچلے نوجوانوں کی پوسٹس اور واٹس اپ تبصرے دلچسپ ہورہے ہیں۔ ایک لڑکے نے باباجی سے پوچھا اگر بیوی خوبصورت ہو، گوری چٹی ہو، دراز قدہو، شوہر کی فرمانبردار اور شوہر کے سامنے کبھی زبان نہ چلائے، شوہر اگر کہے دن تو دن مانے اور رات تو یہ رات جانے اس پر باباجی نے کہا ’’بیٹا اسے وہم کہتے ہیں وہم‘‘۔ تلنگانہ کے وزراء کو انگریزی بہتر بنانے کا جب سے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے مشورہ دیا ہے ان وزراء نے بھی اپنی ٹوئیٹر اکاونٹس اور فیس بک اکاونٹس اور واٹس اپ پر انگریزی مشق شروع کردی ہے۔ کم از کم اس مشق کے ذریعہ انگریزی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی مگر ان وزراء کے چاہنے والے واٹس اپ یا فیس بک فرینڈس کی تعداد تلگو والوں کی ہے تو وہ انگریزی رسم الخط میں تلگو مکالمے ہی لکھتے ہیں تو بچارے وزراء کی انگریزی کس طرح بہتر ہوگی۔ ان وزراء کی سوشیل میڈیا پر پذیرائی بھی ہوتی ہے اور کردارکشی بھی ہوتی ہے۔ اپوزیشن کے لیڈروں نے تو اپنی ویب سائیٹ پوسٹس کا حریفانہ مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ سوشیل میڈیا پر بعض ایسے بھی لوگ حاوی ہیں جن کو سنسنی پیدا کرنے کا ہیضہ یا پڑھی لکھی جہالت کا ڈائریا ہوچکا ہوتا ہے۔

اسلام کے خلاف بھی گستاخانہ کلمات تحریر کرتے ہیں تو ملک کے حق معلومات قانون نے عام شہریوں کو ایک ایم پی کے مقابل برابر کا درجہ دیدیا ہے۔ اسی حق معلومات قانون نے اروند کجریوال کو دہلی کا چیف منسٹر بنادیا۔ RTI ایک ایسا قانون ہے جس کی مدد سے ہر شہری سرکاری دھاندلیوں اور کارکردگی کا پتہ چلا سکتا ہے۔ ہر شہری ایم پی اور ایم ایل اے کے برابر ہے۔ ہر شہری کو حکومت میں ہونے والی دھاندلیوں کا پتہ چلانے کا حق ہے۔ حکومت کو غلط کام سے روکنے کا بھی شہری کو حق ہے۔ سوشیل میڈیا نے تلنگانہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے خلاف تاریخی عمارتوں کے انہدام کے مسئلہ پر اتنا اچھالا ہے کہ اب چیف منسٹر تاریخی عثمانیہ دواخانہ کے انہدامی کارروائی کے فیصلہ پر غور کرنے کیلئے مجبور ہوسکتے ہیں لیکن جس ملک میں واٹر کولر پر رکھے گلاس کو زنجیر سے باندھنا پڑے اور لوگوں کو مسجدوں میں اپنی آخرت سے زیادہ اپنے جوتوں کی فکر ہو وہاں کے حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانے سے کیا فرق پڑے گا یا حق معلومات قانون کی مدد حاصل کرنے سے بھی ان حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تبدیلی لانے کیلئے ہر انسان کو اپنے اخلاق اور کردار بدلنا ہوگا۔ جس ریاست اور شہر میں خواتین کو راہ چلنا مشکل ہوجاتا ہے اور رہزنوں کی ٹولیاں سرگرم رہتی ہیں تو چین چھین لینے کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ شہر میں 30 منٹ کے اندر 3 چین چھین لینے کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ برائیوں میں اضافہ کو واٹس اپ کی لعنت بتایا جارہا ہے۔

نوجوانوں کے ہاتھوں میں جب سے آئی فون آیا ہے دنیا بھر کی برائی بھی ان کی مٹھی میں ہوگئی ہے۔ حال ہی میں بھوانی نگر کی 12 سالہ طالبہ کا اغواء اور پانی کے سمپ سے نعش کی برآمد کے بعد پولیس نے محلے کے ایک موز فروخت والے کو گرفتار کرلیا جو سی سی ٹی وی کیمرے میں اس لڑکی کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ سماج میں برائیاں پہلے سے ہی زیادہ تھی اب سوشیل میڈیا اور واٹس اپ نے ان برائیوں کو ہائی ٹیک بنادیا ہے۔ اس ہائی ٹیک نے امتحان ہال میں بھی دھاندلیاں شروع کررہی ہیں ایسے ہی واقعہ میں تلبیسی شخص کے ذریعہ اچھے مارکس لانے کی کوشش میں دو نوجوان جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے ہیں۔ منا بھائی ایم بی بی ایس کی طرح امتحان میں نقل کرنے کی سزاء ان طلباء کو تعلیمی مستقبل سے محروم کردے گا تو یہ بہت افسوسناک ہوگا۔ ایڈسیٹ میں دونوں طالب علم نے پہلا اور دوسرا رینک حاصل کیا تھا۔ اگرچیکہ امتحانات میں نقل نویسی کوئی نئی بات نہیں ہے مگر چور وہی جو پکڑا جائے کے مصداق ان دونوں طلباء نے حد سے زیادہ چالاکی دکھائی اور خود کو پریشانیوں کی نذر کردیا۔ نوجوانوں کیلئے حکومت تلنگانہ نے ایک خوشخبری دی ہے کہ تلنگانہ اسٹیٹ پبلک سرویس کمیشن کے تحت شعبہ سیول انجینئرنگ کیلئے 770 جائیدادوں پر بہت جلد تقررات عمل میں لائے جائیں گے۔ ریاست میں روزگار کی فراہمی کا پہلا قدم اٹھا ہے تو چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے انتخابی وعدوں کی تکمیل کی جانب پیشرفت کی توقع کی جاسکتی ہے مگر مسلمانوں کیلئے 12 فیصد تحفظات کا وعدہ غیریقینی ہوگیا ہے کیونکہ 12 فیصد تحفظات کو قبول کرنا نظم و نسق کیلئے مشکل ہے تو ہر سیاستدانوں کا وعدہ پھر ایک بار مسلمانوں کے حق میں فریب کاری کے سواء کچھ نہیں ہے۔
kbaig92@gmail.com