سورہ یسین کی تلاوت سے عذاب قبر میں تخفیف

سوال : لوگ ایصال ثواب کے لئے عموماً قرآن خوانی کا اہتمام کرتے ہیں۔ برسی ، چہلم کے موقعہ پر خصوصیت کے ساتھ ختم قرآن ہوتا ہے اور مرحوم کے لئے ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے ۔کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے کوئی روایت موجود ہے جس میں قرآن کو ایصال ثواب کا ذریعہ بنایا گیا ہے ۔
محمد وسیم، ورنگل
جواب : نورالاایضاح باب احکام الجنائز میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص قبرستان میں داخل ہوکر سورۃ یسین کی تلاوت کرے تو اللہ تعالیٰ اہل قبور کے عذاب میں اس دن تخفیف فرمالے گا اور تمام اہل قبور کی تعداد کے موافق پڑھنے والے کو نیکیاں ملیں گی۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے دفن کے بعد قبر پر سورۃ البقرۃ کی پہلی آیتیں ’’ الم ‘‘ سے ’ ’المفلحون‘‘ اور ’’ آمن الرسول ‘‘ سے ختم سورہ تک پڑھنا مستحب قرار دیا۔ (در مختار باب الجنائز مطلب فی دفن المیت )
مسلم شریف کی روایت میں ہے : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسی مسلمان کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے ۔ سوائے تین چیزوں سے ۔ ایسا علم جس سے نفع اٹھایا جائے۔ صدقہ جاریہ اور نیک اولاد جو اس کے لئے دعاء مغفرت کرتے رہے۔
اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو قرآن پڑھنا سکھائے تو جب وہ قرآن پڑھیگا اللہ تعالیٰ قرآن پڑھنے والے کے ساتھ قرآن سکھانے والے کو بھی اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔

بہو کا خسر سے بد کلامی کرنا
سوال : واقعہ یہ ہے کہ میرا بہو سے جھگڑا ہوگیا۔ اور یہ جھگڑا صرف معمولی بات پر تھا لیکن بہو بیگم نے مجھے خوب سنایا ، گالیاں بکیں جبکہ ہمارے فرزند اپنے آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے ہیں جبکہ میں اپنی جائیداد بھی بیٹے کو دے دیا ۔ میں صرف ایک کمرہ میں رہتا ہوں اور مجھے گھر سے چلے جانے کا حکم دے رہی ہے۔ کیا میری بہو کو میرے ساتھ بدتمیزی کرنے کی سزا اللہ تعالیٰ دے گا یا نہیں ؟
مجاہد حسین، ٹولی چوکی
جواب : اسلام پاکیزہ مذہب ہے جو اپنے متبعین کو حکم دیتاہے کہ وہ اپنے بڑوں کا احترام کریں اور چھوٹوں سے پیار و شفقت سے پیش آئیں۔ عمر میں ، رتبہ میں ، رشتہ میں بڑے ہر شخص کا احترام ضروری ہے ۔ خسر کا درجہ والد کے مانند ہے۔ بہو پر ان کی تعظیم کرنا ، ادب سے گفتگو کرنا ، حسن سلوک سے پیش آنا لازمی ہے ۔ اگر ان سے کچھ کوتاہی یا غلطی ہوجائے تو مؤدبانہ انداز میں ان کو سمجھاناچاہئے اور اگر کوئی بہو ناحق اپنے خسر سے بد کلامی کرے ، گالی گلوج کرے ، ان کی ایذا رسانی کرے تو شرعاً وہ تنبیہ و تعزیر کی مستحق ہے۔
در مختار برحاشیہ ردالمحتار ج : 3 ، ص : 187 میں ہے ۔ و عزر کل مرتکب منکر اوموذی مسلم بغیر حق بقول او فعل ولو بغمز العین۔
بیٹے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے والد کا پاس و لحاظ رکھے، ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرے، ایسی کوئی حرکت ہونے نہ دے جس سے والد کی دل شکنی ہوتی ہو اور ان کے دل کو ٹھیس پہنچتی ہو۔ اگر بہو اپنے خسر سے بدتمیزی سے پیش آتی ہے تو شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کو حد ادب میں رہنے کی تلقین کرے اور اگر وہ خاموش رہے اور اپنی اہلیہ کی بدسلوکی پر ناراضگی کا اظہار نہ کرے تو بیٹا اور بہو دونوں عنداللہ ماخوذ ہوں گے اور آخرت میں سخت عذات کے مستحق ہوںگے ۔ ترمذی شریف کی حدیث شریف میں ہے : رضا الرب فی رضاالوالد و سخط الرب فی سخط الوالد ۔
رب کی خوشنودی والد کی خوشنودی میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے ۔
مذکورہ در سوال صورت اگر آپ نے اپنے بیٹے کو اپنا مملوکہ مکان ہبہ کیا ہے تو ہبہ کے صحیح ہونے کے لئے قبضہ کامل شرط ہے۔ یعنی اگر آپ نے اپنے مکان سے نکل کر اس سے دستبردار ہوکر اس کا قبضہ اپنے بیٹے کو دیا ہے تو ہبہ مکمل ہے اور اگر آپ اس مکان میں رہتے ہوئے اس مکان کو بیٹے کے نام کئے ہیں اور آپ اس میں ابھی مقیم ہیں تو بیٹے کو قبضہ نہ دینے کی وجہ سے ہبہ نامہ نامکمل ہے ۔ آپ ہی اس مکان کے مالک اور قابض ہیں۔ در مختار ج : 4 کتاب الھبۃ میں ہے : (و) شرائط صحتھا (فی الموھوب أن یکون مقبوضا) غیر مشاع ممیزا غیر مشغول ۔ آپ کے بیٹے کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اگر والد مفلس و محتاج ہوجائے اور اس کو اپنی تنگدستی دور کرنے کے لئے بیٹے کو دیا ہوا مکان واپس لئے بغیر کوئی اور صورت نہیں ، ایسی صورت میں والد کو یہ اجازت ہے کہ وہ مکان اپنے بیٹے سے واپس لے لے۔ فتح القدیر ج : 7 ، ص : 501 میں ہے۔ قال فی البدائع : فانہ یحل لہ اخذہ من غیر رضا الولد ولا قضاء القاضی اذا احتاج الیہ للانفاق علی نفسہ ، و قال فی الکفایۃ من شروح ھذا الکتاب فانہ یستقل بالرجوع فیھا یھب لولدہ عند احتیاجہ الی ذلک للانفاق علی نفسہ۔

عورت کو طلاق کا حق کیوں نہیں
سوال : طلاق کا حق صرف مرد کو کیوں ہے ۔ مرد و عورت کو کیوں نہیں ؟جبکہ نکاح کے منعقد ہونے کے لئے عاقد اور عاقدہ کی رضامندی اور ان کا ایجاب و قبول لازم و ضروری ہے کیونکہ یہ ایک باہمی معاہدہ ہے جوطرفین کی جانب سے طے پاتا ہے تویہ کیسے ممکن ہے کہ یکطرفہ تعلق ختم کرلینے سے یہ رشتہ اورباہمی معاہدہ ختم ہوجائے۔ دوسرے کی رضامندی اور واقفیت کی مطلق ضرورت نہ ہو ؟
لبنیٰ فاطمہ ،بہادر پورہ
جواب : طلاق کا اختیار مرد کو دئے جانے میں کئی مصلحتیں پوشیدہ ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ساری زندگی کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی۔ عورت کو ہر قسم کی تکلیف اور ذمہ داری سے محفوظ رکھا گیا۔ اگر ایسے میں عورت کو طلاق کا حق دیا جائے تواس کی بنی بنائی زندگی آناً فاناً ختم ہوجائیگی اور کوئی عقلمند آدمی اپنی زندگی کو برباد کرنا نہیں چاہتا ۔ اس لئے مرد کے تفویض طلاق کا اختیار کیا جانا قرین مصلحت ہے۔ اگر کچھ لوگ نادانی سے اس کا غلط استعمال کرتے ہیں تو اس کی وجہ سے نفس قانون یا اس کی مصلحت پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔

ایک روایت کی تحقیق
سوال : اکثر صوفیاء کرام کی کتابوں میں یہ روایت موجود ہے۔مجھے نہ زمین سماسکی اور نہ آسمان سماسکے مجھے میرے مومن بندے کے دل نے سمایاہے ۔ کیا یہ حقیقت میں حدیث شریف ہے۔ اگر حدیث شریف ہے تو براہ کرم اس کا حوالہ ضرور دیں کیونکہ بعض حضرات اس حدیث کو غیر معتبر قرار دے رہے ہیں ؟
مخلص الرحمن، ملک پیٹ
جواب : سوال میں صراحت کردہ حدیث شریف ، مختلف معتبر کتابوں میںمتن کے اختلاف کے ساتھ مذکور ہے ۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ نے عوارف المعارف باب 29 ص : 133 میں اور حضرت شیخ یعقوب چرخیؒ نے رسالہ انسیہ ص : 28 میں اور حضرت قیوم زمانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے دفتر سوم مکتوب شریف 48 میں باین الفاظ نقل کیا ہے : لا یسعنی أرضی ولا سمائی ولکن یسعنی قلب عبدی المومن‘‘ حضرت شیخ محی الدین بن عربی نے فتوحات مکیہ جزء اول ص : 216 میں ’’ ماوسعنی أرضی ولا سمائی و وسعنی قلب عبدی المومن ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے ۔
علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے ’’ الدرالمنثور میں دیگر الفاظ سے اس روایت کونقل کرنے کے بعد فرمایا : ’’ لا اصل لہ ‘‘ اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔ تاہم ابو شجاع دیلمی نے ’’ فردوس الاخبار‘‘ میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے : قال اللہ عزو جل : لا یسعنی شئی و وسعنی قلب عبدی المومن ۔ (ترجمہ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : مجھے کوئی چیز نہیں سماتی اور مجھے میرے مومن بندے کا دل سماتا ہے ۔ (فردوس الاخبار ج : 3 ص : 213 )
کتب حدیث میں اس حدیث شریف کے معنی و مفہوم سے مطابقت رکھنے والی دیگر احادیث موجود ہیں۔ جس سے مذکورالسوال حدیث شریف کے مفہوم کی تقویت ہوتی ہے۔ نیز فتاوی حدیثیہ ص : 290 میں اس حدیث شریف کے معنی و مفہوم اس طرح بیان کئے گئے ہیں۔
صوفیہ کے نزدیک اس حدیث شریف کے معنی اس طرح ہے کہ مومن کا دل ، ایمان باللہ ، محبت و معرفت الہی سے اس طرح لبریز ہے جس سے کائنات کی دیگر اشیاء عاجر و بے بس ہیں۔ متذکرہ در سوال حدیث کا مفہوم سورۃ الاحزاب کی اس آیت شریفہ سے واضح ہے ’’ انا عرضنا الامانۃ علی السموات والارض والجبال فأبین ان یحملنھا و اشفقن منھا و حملھا الانسان۔ (ترجمہ) ہم نے امانت کو آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو وہ اس کو اٹھانے سے انکار کئے اور گھبرا گئے اور اس امانت کو انسان نے اٹھالیا۔

اولیاء کرام کیلئے ’’ رحمتہ اللہ علیہ‘‘ کا استعمال
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین متین اس مسئلہ میں کہ حضرت پیران پیر رحمتہ اللہ علیہ کے اسم مبارک کے ساتھ دعائیہ جملہ’’ رحمتہ اللہ علیہ‘‘ تحریر کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے ؟ اس سلسلہ میں شرعاً کوئی نکیر، امرِ مانع یا کوئی پہلو سوئے ادب کا ہو تو کاتب الحروف رجوع اور توبہ و استغفار کی طرف مبادرت کرے !
نام مخفی
جواب : فقہاء نے صحابہ کرام کے لئے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ تابعین کیلئے ’’ رحمتہ اللہ تعالیٰ ‘‘ اور مابعد تابعین کیلئے ’’ غفراللہ لھم و تجاوز عنھم ‘‘ کے دعائیہ کلمات کو اولیٰ قرار دیا۔ عالمگیری جلد 6 ص : 446 میں ہے ۔ ثم الأولیٰ أن یدعوللصحابۃ بالرضا فیقول رضی اللہ عنطم و للتا بعین بالرحمۃ و یقول رحمہ اللہ ولمن بعد ھم بالمغفرۃ والتجاوز فیقول غفراللہ لھم وتجاوز عنھم۔
متاخرین علماء نے صحابہ تابعین اور دیگر علماء و صالحین کیلئے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ اور رحمتہ اللہ ‘‘ کے کلمات کو مستحب قراردیا ہے ۔ نزھۃ الناظرین ص : 34 میں ہے : قال النووی رحمۃ اللہ یستحب الترضی والترحم علی الصحابۃ والتابعین و من بعد ھم من العلماء والعبادو سائرلاخیار۔
پس صورت مسئول عنہا میں اگر کوئی شخص حضرت غوث اعظم دستگیرؒ کے لئے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ ’’ رحمۃ اللہ ‘‘ اور ’’ علیہ الرحمتہ ‘‘ سے کونسی بھی دعائیہ کلمہ استعمال کرے تو شرعاً محمود و پسندیدہ ہے۔