سوامی اسیمانند کا بری ہوجانا۔ انصاف کہاں ہے؟

رام پنیانی
موجودہ طور پر ہندوستان کے نظامِ انصاف رسانی کے نہج کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ انصاف کا حصول، خاطی کو سزا دینا آسان نہیں ہے۔ فیصلے اُس ثبوت کے نتیجے کے طور پر سامنے آتے ہیں جو مجسٹریٹس کے روبرو عاملہ اور پولیس کی جانب سے پیش کئے جاتے ہیں۔ ایسے جرائم کے معاملوں میں برسراقتدار حکومت کا طرزعمل بہت اہمیت رکھتا ہے جن کا تعلق اُس نظریہ سے ہو جسے برسراقتدار پارٹی پیش کرتی ہے اور اس کی مدافعت بھی کرتی ہے۔ بعض اوقات نظریات کا اثر اور طاقت جو غالب ہیں مگر اقتدار میں نہیں ہے، وہ بھی انصاف رسانی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
اس تلخ حقیقت کا بارہا ہمیں سامنا ہوا ہے۔ 1992-93ء کے ممبئی تشدد میں تقریباً ایک ہزار افراد کی اموات ہوئیں، اس قتل عام کے دوران کئے گئے سفاکانہ جرائم کیلئے کچھ قابل لحاظ سزادہی نہیں ہوئی۔ اس قتل عام کے بعد بم دھماکے پیش آئے جو انڈرولڈ ڈان نے پاکستان کی آئی ایس آئی کے اشتراک سے کرائے۔ ان دھماکوں میں لگ بھگ دو سو افراد مارے گئے۔ ان مقدمات میں بعض کو اس جرم کیلئے پھانسی پر لٹکایا گیا، کئی ملزمین کو عمرقید کی سزا ہوئی اور کئی دیگر کو مختلف نوعیت کی دوسری سزائیں ہوئیں۔ جمہوریت میں ایسا ہی ہونا چاہئے۔ سب سے زیادہ تضاد تو یہ ہے کہ روبینہ میمن جو ممبئی دھماکوں میں استعمال کی گئی کار کی باقاعدہ مالکن ہونے کی بناء عمر بھر کیلئے جیل میں ہے، جبکہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر جس کی موٹر سائیکل مالیگاؤں دھماکہ میں استعمال کی گئی، اسے ضمانت مل گئی ہے۔
یہ سب باتیں ذہن میں دوبارہ تازہ ہوجاتی ہیں جب این آئی اے کورٹ نے سوامی اسیمانند کو سمجھوتہ اکسپریس دھماکہ کے کیس میں بری کردیا، جہاں 68 افراد بشمول 43 پاکستانی مارے گئے تھے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ سوامی کو قبل ازیں مکہ مسجد دھماکہ کیس میں ضمانت عطا کردی گئی اور انصاف رسانی پر اثرانداز ہونے والے عناصر واضح ہوگئے جب ایک اہم فائل جو اسیمانند کے انکشافات اور بیانات پر مشتمل کلیدی دستاویز ہے، وہ عدالت کی تحویل سے غائب ہوگئی۔ سوامی اسیمانند جو آر ایس ایس کا معاون ہے، اور جو ونواسی کلیان آشرم کے ساتھ ڈانگس میں کام کررہا تھا، وہاں شبری کمبھ کے اہتمام میں کلیدی شخص تھا۔ وہ کئی دھماکہ کیسوں میں بھی کلیدی ملزم کے طور پر ابھر آیا جیسے مالیگاؤں، مکہ مسجد، درگاہ اجمیر اور سمجھوتہ اکسپریس۔ یہ تمام دھماکے 2006-08ء میں پیش آئے۔
یہ سارا سلسلہ موقوف ہوگیا جب سربراہ مہاراشٹرا اے ٹی ایس ہیمنت کرکرے کو ان کیسوں کی تحقیقات کرتے ہوئے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ مالیگاؤں دھماکہ کیس میں استعمال کی گئی موٹر سائیکل سابقہ اے بی وی پی ورکر سادھوی پرگیہ ٹھاکر کی تھی۔ تحقیقات کو آگے بڑھانے پر معلوم ہوا کہ ہندوتوا نظریہ کو ماننے والے، اس سے متاثرہ یا آر ایس ایس سے ملحق تنظیموں سے قربت رکھنے والے کئی لوگوں کا ان دھماکوں میں رول رہا ہے۔ جب یہ حقائق سامنے آنے لگے تو کرکرے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ہندو قوم پرستوں نے ان پر حملہ کیا۔ شیوسینا کے ترجمان ’سامنا‘ نے لکھا کہ ہم کرکرے کے منہ پر تھوکتے ہیں، جبکہ اُس وقت کے چیف منسٹر گجرات نریندر مودی نے انھیں دیش دروہی (قوم دشمن) قرار دے دیا۔ اگرچہ کرکرے، مکمل پیشہ ورانہ دیانت داری کے ساتھ تحقیقات کررہے تھے، لیکن سیاسی گوشوں سے اس طرح کی تنقیدوں نے انھیں متزلزل کیا اور انھوں نے اپنے اضطراب کا اپنے سینئر اور ٹھیک اپنے سے متعلقہ افسر بالا پولیس آفیسر جولیو ربیرو سے تذکرہ کیا۔ بعد میں این آئی اے نے کرکرے کو زک پہنچانا شروع کیا، تب ربیرو نے کرکرے کا بھرپور ساتھ دیا اور اُن کی پیشہ وارانہ دیانت داری کا مضبوط ثبوت دیا۔
پرگیہ ٹھاکر، اسیمانند اور دیگر جیسے عناصر کا رول بہت بڑا انکشاف رہا اور یو پی اے حکومت سے بعض نے ان کیسوں کیلئے اصطلاح ’ہندو دہشت گردی‘ یا ’زعفرانی دہشت گردی‘ کا استعمال کیا۔ یہ بہرحال غلط الفاظ تھے۔ یہ موجودہ طور پر جاری اصطلاح ’اسلامی دہشت گردی‘ کے خطوط پر سامنے آئی، جو کافی عرصہ تک استعمال کیا جاتا رہا۔ ہیمنت کرکرے کو ممبئی میں 26 نومبر 2008ء کے دہشت گردانہ حملے میں ہلاک کیا گیا۔ کئی لوگ جو انھیں قوم دشمن قرار دیتے تھے، اب انھیں شہید مانتے ہیں! بعدازاں راجستھان اے ٹی ایس نے مزید تحقیقات کی اور آر ایس ایس سے ملحق عناصر میں سے کئی دہشت گردانہ حرکتوں میں معاون پائے گئے۔ سبھاش گٹاڈے کی کتاب ’گوڈسے کی اولاد‘ میں اس کی اچھی تشریح کی گئی ہے۔

مرکز میں 2014ء میں این ڈی اے برسراقتدار آنے کے بعد تحقیقات کی راہ بدل گئی۔ ممبئی کی پبلک پراسکیوٹر روہنی سالیان جو ان کیسوں سے نمٹ رہی تھیں، انھیں ان معاملوں میں نرم رویہ اختیار کرنے کیلئے کہا گیا۔ اب ایک دہا گزر جانے کے بعد ہیمنت کرکرے کی تحقیقات کو بالکلیہ نظرانداز کردیا گیا ہے۔ کرکرکے کے خلاف جوابی الزامات سنائی دینے لگے ہیں۔ ساتھ ہی لیگل سسٹم اور خاطیوں کو سزا دینے میں اس کے رول کے تعلق سے شبہات پھر ایک بار اُبھر آرہے ہیں۔ سوامی اسیمانند کے کیس میں اپنی گرفتاری کے بعد اُس نے مجسٹریٹ کے روبرو اقبالیہ بیان دیا تھا۔ اس اقبالیہ بیان کو پولیس تحویل میں نہیں رکھا گیا جبکہ دو دن کی عدالتی تحویل رہی۔ اپنے اقبالیہ بیان میں جو قانونی طور پر قبول ہے، اُس نے 2007-08ء کے دوران پیش آئے دھماکوں کی منصوبہ بندی میں اپنے مرکزی کردار کی تفصیلات پیش ۔ اُس نے یہ اشارہ بھی دیا کہ اعلیٰ سطح کی آر ایس ایس قیادت بھی اس سے واقف تھی جو کچھ کیا جارہا تھا۔

ایک طویل انٹرویو میں جو کاروان میگزین کی جرنلسٹ لینا رگھوناتھ کو دیا گیا، اسیمانند نے اسی طرح کی باتیں کہیں جو اُس نے مجسٹریٹ کو بتائی تھیں۔ بعد میں وہ مجسٹریٹ کو دیئے گئے بیان سے یہ کہتے ہوئے دستبرادر ہوگیا کہ اقبالیہ بیان دباؤ ڈال کر حاصل کیا گیا۔ اس ضمانت کے بعد پھر ایک بار یہ واضح ہوگیا ہے کہ انصاف رسانی کا نظام عاملہ اور کیس کا جائزہ لینے والے مجسٹریٹ کو پولیس کی جانب سے کیس کی پیشکشی پر پوری طرح منحصر ہے۔ اس ضمانت کے بعد سمجھوتہ دھماکہ کی تحقیقات کرنے والی ایس آئی ٹی کے سربراہ وکاش نرائن رائے نے این آئی اے کی جانب سے کیس سے نمٹنے پر سوال اٹھائے۔ ’’یہ جواب دینا این آئی اے کا کام ہے کہ اس کیس میں گواہان کیوں منحرف ہوگئے‘‘ ۔ چونکہ وہ لوگ ضابطہ فوجداری کے دفعہ 164 کے تحت بیانات دینے کے باوجود عدالت میں منحرف ہوگئے، اس لئے تحقیقاتی ایجنسی کو اُن پر دروغ حلفی کے الزامات عائد کرنے پر زور دینا چاہئے۔ عام خیال یہی ہے کہ این آئی اے نے اس کیس میں نرم رویہ اختیار کرلیا۔ جیسے ہی مکمل فیصلہ سامنے آجائے، مزید تشریح اور تبصرہ کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمانت کے ساتھ بڑا سوال اُبھرتا ہے کہ اُن 68 افراد کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ معمول کی طرح ایسا لگتا ہے کہ کسی نے بھی وہ دھماکہ نہیں کیا جو سمجھوتہ اکسپریس سانحہ کا موجب بنا! ہمیں جو دیکھنے میں آرہا ہے کہ وہ فرقہ واری قوم پرستی کو آگے بڑھانے کی چکر میں انصاف کے عمل کو ماند کرنے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں۔
ram.puniyani@gmail.com