سوادھین کی سُگندھ بھری شاعری

ڈاکٹر رؤف خیر
حیدرآباد میں ہندی شعر و ادب کا جائزہ سوادھین کے بغیر ادھورا سمجھا جائے گا ۔ سوادھین کی خوبی یہ ہے کہ ہندی کے ادیبوں اور شاعروں کی وہ قدر کرتے ہیں ، نتیجتاً تمام ہندی والے سوادھین کو چاہتے ہیں ۔ اور یہ چاہت محض ان کے حسن سلوک (سبھاؤ) کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کا کلام انھیں منواتا ہے ۔ وہ اپنی نظموں اور غزلوں پر ہر صاحب ذوق سے داد پاتے ہیں وہیں ہر اچھے لکھنے والے کی تخلیقات پر وہ کھل کر داد بھی دیتے ہیں ۔ داد دینے میں سوادھین کبھی کنجوسی سے کام نہیں لیتے ۔ وہ تو علی الدین نوید ، غیاث متین ، ندافاضلی ، نصرت وغیرہ کے ساتھ ساتھ خود راقم السطور کے اشعار بھی یاد رکھتے ہیں ۔ یہ فراخ دلی انھیں مقبول بناتی ہے ۔ انھوں نے اپنی ہندی نظموں میں اردو کی مترنم بحریں بڑے سلیقے سے برتی ہیں ۔ اردو کی غنائیت سے سوادھین بہت فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ان کی ایک نظم ’’ایک کوی‘‘ ملاحظہ کیجئے اور خوش آہنگی کی داد دیجئے۔
وہ خواہشوں کی رہگزر
سوال تھے جواب تھے ، تمام رات آگ تھی
شرارے وہ کہاں گئے
ڈھونڈتے ہوئے ہمیں ، زمیں زمیں فلک فلک
ستارے وہ کہاں گئے
وہ چاہتیں تھیں وصل کی
وہ کروٹیں تھیں پھول کی
وہ چاندنی میں وہ دھلا ہوا کسا ہوا تیرا بدن
لمس لمس روشنی
جو کھڑکیوں میں تھا ابھی
نہ جانے وہ کہاں کھوگیا
خود کو مجھ میں بوگیا …
(ایک کوی)
یہ نظم ہندی کی نہیں بلکہ اردو کی لگتی ہے ، کیونکہ سوادھین کو ہندی پر جتنی دسترس ہے وہ اردو میں بھی اتنا ہی کمال رکھتے ہیں وہ گنگا جمنی تہذیب کے نمائندہ شاعر ہیں ۔ یہی حال ایک اور مترنم نظم کا ہے جس کے شعری بہاؤ اور فنی رچاؤ پر سوادھین کے دستخط (ہستاکھشر) ہیں ۔ یہ فلم ان کی پہچان کہی جاسکتی ہے ۔ نظم ہے ’’پچھلے دنوں کی یاد‘‘
نہیں دل کی زمیں کوئی
نہیں تھاآسماں اپنا
ٹھکانا تھا ویرانوں میں
کہاں کوئی مکاں اپنا
ہزاروں آفتیں آتیں تو دل پر وار کرتی تھیں
رگوں میں دوڑتی تھیں الجھنیں … تکرار کرتی تھیں
محبت تھی مگر تم سے
سوالوں میں گھری بیٹھی
ہزاروں رنگوں میں ڈوبی … گلوں کو خار کرتی تھیں
شجر خوابوں کے زندہ تھے
مصیبت کے دنوں لیکن
ستارے شام ہی سے پاس
سمندر کو بلاتے تھے
یہ بچے جھاڑیوں کو توڑ کر جگنو اڑاتے تھے
سفینے چاہتوں کی رات میں نغمے سناتے تھے
وہ دن بھی کیا تھے
دکھ کے موسموں کے بیچ بھی ہم مسکراتے تھے
کیسی دل لبھانے والی منظر کشی ہے اور کیسی خوش آہنگ روانی ہے ۔
سوادھین کی ہمدردی دیکھئے کہ وہ خون کو ضائع ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ
’’سرخ لہو کا خواب‘‘
خون اتنا سستا بھی کہ بہایا جارہا ہے
ملک کی سڑکوں پر
اور اتنا بیش قیمت بھی کہ اسپتالوں میں مانگے سے نہیں مل رہا ہے
گروپوں میں بٹی بوتلوں کے باوجود ۔ رکاوٹیں ہیں بہت
ترس رہے ہیں ہزاروں جیون چند قطروں کے لئے
(سرخ لہو کا خواب)
معاف کرنا ہندی میں شاعر عموماً آخری لفظ پر لفظ بٹھا کر لائن مکمل کرتے ہیں ۔ مصرعے کا تصور کم کم ہی پایا جاتا ہے ۔ مگر سوادھین نے ماشاء اللہ اچھی غزلیں بھی کہی ہیں جو نک سک سے درست بھی ہیں ۔ وزن و بحر کے تقاضے بھی پورا کرتی ہیں ۔ دشینت کمار نے بڑی اچھی غزلیں کہی تھیں تلک تاج پارس بھی اچھی غزلیں کہہ رہے ہیں جو بالکل عام فہم ہوتی ہیں اور جدید محاورے میں زندگی کی ترجمانی کرتی ہیں ۔ سوادھین نے بھی غزلوں میں اپنی پہچان بنانے کی کوشش کی ہے ۔ ان کے بعض بعض اشعار دل کو چھوتے ہیں جیسے
لکھتی ہیں تیرا چہرہ میری غزل میں راتیں
لگتا ہے صحن بھر میں پھر چاندنی ہے باقی
رستوں کی بھیڑ بھاڑ میں منزل کے آس پاس
ہر شخص اپنے آپ سے الجھا ہوا ملا
اب کے بھی اس شکار کی باری نکل گئی ۔ دنیا ہمارے ہاتھ سے نکل گئی اور یہ غزل تو سوادھین کو مقبول خاص و عام بنا کے رکھ دے گی ۔ چند شعر سنئے
سورج کی یاد ٹوٹ کے دل میں بکھر نہ جائے
یہ بوند بوند رات نسوں میں اتر نہ جائے
تصویر دہر ہوں ، مری تصویر یوں بنا
چہرے کا رنگ ہے جو رہے وہ اتر نہ جائے
وعدہ کیا تھا ساتھ نبھانے کا صبح کو
اب شام ہونے آئی کہیں وہ مکر نہ جائے
اور یہ شعر تو سوادھین کے دوستوں اور دشمنوں سب کو یاد ہوجانا چاہئے
وہ آئینوں کا شہر تھا بس اتنا جانتا ہوں میں
پتا نہیں پھر اس کے ساتھ پتھروں نے کیا کیا
میں یاروں کے یار سوادھین کو ان کے شعری مجموعے ’’سرخ لہو کے خواب‘‘ کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مجھے امید ہے یہ مجموعہ ان کی شہرت اور مقبولیت میں اضافے کا سبب بنے گا ۔