سوئز بینک میں کھاتہ ہمارا

میرا کالم مجتبیٰ حسین
حضرات! میں کسی مجبوری اور دباؤ کے بغیر پورے ہوش و حواس کے ساتھ یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ سوئزرلینڈ کے ایک بینک میں میرا اکاونٹ موجود ہے ۔ آپ اس بات کو نہیں مانتے نہ مانئے۔ میری بیوی بھی پہلے اس بات کو نہیں مانتی تھی ۔ اب نہ صرف اس بات کو مان رہی ہے بلکہ مجھے بھی ماننے لگی ہے ۔ آپ یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ جب سارے لوگ اپنے کھاتوں کو پوشیدہ رکھنے کے سو سوجتن کررہے ہیں تو ایسے میں مجھے اپنے آپ ہی اپنے کھاتے کی موجودگی کا اعلان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ۔ اس کے لئے میں بات کو ذرا شروع سے شروع کرنا چاہتا ہوں ۔ تین مہینے پہلے کی بات ہے ۔ ایک دن میں دفتر سے بے حد تھکا ماندہ گھر پہنچا تو بیوی نے کہا ’’آپ جو اتنا تھک جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دفتر میں کام بھی کرتے ہیں‘‘ ۔ میں نے کہا ’’بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔ آدمی محنت کرنے سے ہی تو تھکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک میں نے کسی سیاستداں اور مولوی کو تھکا ماندہ نہیں پایا‘‘۔بولی ’’آدمی محنت کرتا ہے تو پھر اسے اس کا صلہ بھی ملتا ہے ۔ تم جو اتنی محنت کرتے ہو تو تمہیں کیا مل رہا ہے ؟‘‘

ظاہر ہے کہ اس مشکل سوال کا آسان جواب ملک کے ماہرین معاشیات کے پاس بھی نہیں ہے تو میں کیا خاک جواب دیتا ۔ سو میں خاموش ہوگیا ۔ میں نے سوچا کہ پچپن برس کی رفاقت میں ، مَیں نے اپنی بیوی کو روز کی خوشیاں اُسی روز دینے کے سوائے اور کیا کیا ہے ۔ اس کی جھولی میں ایک ایک دن اور ایک ایک پل کے حساب سے جمع کیا ہوا پچپن برسوں کے عرصہ پر پھیلا ہوا ماضی تو ہے لیکن آنے والے کل کا کوئی ایسا لمحہ نہیں ہے جسے عام زبان میں خوش آیند مستقل کہتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ چلو آج اسے تھوڑا سا مستقبل بھی دے دیتے ہیں ۔ لہذا میں نے کہا ’’یہ تم کیا محنت اور اس کے صلہ کے پیچھے حیران ہورہی ہو ۔ آج میں تمہیں ایک خوش خبری سنانا چاہتا ہوں کہ سوئزرلینڈ کے ایک بینک میں میرا اکاونٹ موجود ہے‘‘ ۔ یہ سنتے ہی میری بیوی کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا ۔ بڑی دیر بعد جب وہ بند ہوا تو اس نے اچانک گھر کے دروازے اور کھڑکیاں بند کرنا شروع کردیں ۔ میں نے کہا ’’یہ کیا کررہی ہو؟‘‘
بولی ’’سوئزرلینڈ کے بینک کے کھاتے کی بات کوئی یوں کھلم کھلا کرتا ہے ۔ اگر بفرض محال سوئزرلینڈ کے کسی بینک میں تمہارا کھاتہ ہے بھی تو تمہیں اس کا اعلان کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ اگر مجھے اس کھاتے کا سراغ لگانا ہو تو میں کسی خفیہ ایجنسی کے ذریعہ اس کا پتہ لگاسکتی ہوں یا پھر ایک دن ملک کے کسی اخبار میں خود بخود اس کی خبر چھپ جائے گی ۔ مگر پہلے یہ بتاؤ کیا سچ مچ سوئزرلینڈ کے بینک میں تمہارا کھاتہ موجود ہے؟‘‘ ۔
میں نے کہا ’’سچ بتاؤ آج تک میں نے کبھی تم سے جھوٹ کہا ہے‘‘
بولی ’’سو تو ہے ۔ مگر یہ کھاتہ تم نے کھولا کب؟‘‘
میں نے کہا ’’تیس سال پہلے جب میں یوروپ گیا تھا‘‘
میرے اس جواب نے میری بیوی کو اور بھی حیرت میں ڈال دیا کیوں کہ اسے پتہ تھا کہ جب میں یوروپ کے لئے روانہ ہوا تھا تو میری جیب میں صرف بیس ڈالر تھے ۔ اگرچہ حکومت نے مجھے اجازت دی تھی کہ اگر میں بیرونی زرمبارلہ حاصل کرنا چاہوں تو پانچ سو ڈالر تک خرید سکتا ہوں ۔ لیکن بیرونی کرنسی خریدنے کے لئے پہلے مجھے ہندوستانی کرنسی کی ضرورت تھی ۔ بیرونی کرنسی تو مجھے مل رہی تھی لیکن اصل سوال ہندوستانی کرنسی کا تھا ۔ یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں رہ کر ہندوستانی کرنسی کو حاصل کرنا کتنا مشکل کام ہے ۔ اتنے میں میری بیوی دنیا کانقشہ اٹھا کر لے آئی اور بولی ’’ذرا دکھاؤ تو سہی ۔ یہ موا سوئزرلینڈ ہے کہاں؟ اور اس میں ہمارا اکاونٹ کہاں رکھا ہوا ہے؟‘‘ ۔ میں نے دنیا کے نقشہ میں اسے سوئزرلینڈ کودکھانے کی کوشش شروع کردی ۔ لیکن کمبخت سوئزرلینڈ اتنا چھوٹا نکلا کہ اس پر جب جب انگلی رکھتا تھا تو پورے کا پورا سوئزرلینڈ غائب ہوجاتا تھا ۔ بالآخر قلم کی نوک سے سوئزرلینڈ کے حدود و اربعہ اس پر واضح کئے تو بولی ’’یہ تو اتنا چھوٹا ہے کہ اس میں کسی بینک کی عمارت شاید ہی سماسکے ۔ ہمارے بینک اکاونٹ کے سمانے کا نمبر تو بعد میں آئے گا‘‘ ۔ میں نے کہا ’’تم ٹھیک کہتی ہو ۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنے دوست کے ساتھ جنوبی فرانس کے راستہ سے بذریعہ موٹر سوئزرلینڈ میں داخل ہوا تھا ۔ اس ملک کا اتنا ذکر سنا تھا کہ سوچا کہ ذرا اس ملک کے اندر پہنچ کر اس کا دیدار کرلیتے ہیں ۔ میرا دوست موٹر بہت تیز چلاتا ہے ۔تھوڑی دیر بعد سڑک پر کچھ سپاہیوں نے ہمیں روک لیا اور پوچھا ’’کہاں کا ارادہ ہے‘‘ ۔

عرض کیا ’’اک ذرا سوئزرلینڈ تک جانے کا ارادہ ہے‘‘۔ سپاہیوں نے کہا ’’قبلہ ! آپ جہاں جانا چاہتے ہیں وہاں سے آپ واپس جارہے ہیں‘‘ ۔ چار و ناچار ہمیں پھر سوئزرلینڈ میں واپس ہونا پڑا اور موٹر کی رفتار دھیمی کرنی پڑی کہ کہیں ہم تیز رفتاری میں کسی اور ملک میں نہ نکل جائیں ۔ بیوی نے کہا ’’مگر تم تو سوئزرلینڈ سیر سپاٹے کے لئے گئے تھے ۔ وہا ںکے پہاڑ اور قدرتی مناظر دیکھنے گئے تھے ۔ یہ اکاونٹ کھولنے والا معاملہ کب ظہور میں آیا؟‘‘
میں نے کہا ’’بیگم ! کان کھول کر سن لو ۔ یہ پہاڑ اور قدرتی مناظر سب بہانے بنانے کی باتیں ہیں ۔ آج تک کوئی سوئزرلینڈ صرف پہاڑ دیکھنے کے لئے نہیں گیا ۔ پہاڑ کی آڑ میں وہ کچھ اور کرنے جاتا ہے ۔ سوئزرلینڈ کے پہاڑ اس لئے اچھے لگتے ہیں کہ ان کے دامن میں سوئزرلینڈ کے وہ مشہور و معروف بینک ہیں جن میں اپنا پیسہ جمع کرانے والے کی بیوی تک کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس میں اس کے شوہر کا پیسہ جمع ہے۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ بعض صورتوں میں تو خود بینک کے انتظامیہ کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ اس کے بینک میں کس کا کتنا پیسہ جمع ہے۔ ان بینکوں کو وہاں سے ہٹالو تو سوئزرلینڈ کے قدرتی مناظر اور پہاڑیوں کی ساری خوبصورتی دھری کی دھری رہ جائے ۔ سچ تو یہ ہے کہ جس نے پہلگام اور گل مرگ اور پیرپنجال میں ہمالیہ کے پہاڑ دیکھے ہیں اسے سوئزرلینڈ کے پہاڑ کیا پسند آئیں گے ۔ رہی برف کی بات تو اسے تو ہم ہر روز اپنے ریفریجریٹر میں دیکھتے ہی ہیں ۔ اب بتاؤ سوئزرلینڈ میں کیا رہ جاتا ہے ‘‘۔ بیوی نے کہا ’’تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم سوئزرلینڈ صرف اپنا کھاتہ کھلوانے گئے تھے‘‘ ۔

میں نے کہا ’’اور کیا؟ پہاڑ دیکھنے تھوڑی گیا تھا‘‘ ۔
بولی ’’جب کھاتہ کھلوانا ہی تھا تو ہندوستان کے کسی بینک میں رقم جمع کراتے‘‘ ۔ میں نے کہا ’’کیا تم نہیں جانتیں کہ ہمارے بینکوں کی کیا حالت ہے۔ آئے دن تو ڈاکے پڑتے رہتے ہیں ۔ لوگ بینکوں کے کھلنے کا اتنا انتظار نہیں کرتے جتنا کہ ڈاکو ان بینکوں کے بند ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ پھر سوئزرلینڈ میں بینک کا کھاتہ کھولنے کا لطف ہی کچھ اور ہے ‘‘۔
اور یوں میں نے ایک خوش آئند مستقبل کے کچھ لمحے اپنی بیوی کو سونپ دئے ۔ اس بات کو ہوئے تین مہینے بیت گئے ۔ نہ تو اس نے مجھ سے اکاونٹ نمبر پوچھا ۔ نہ اکاونٹ کا خفیہ نام اور ہی یہ پوچھا کہ اس اکاونٹ میں کتنی رقم جمع ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں سے وہ بہت خوش ہے ۔ اس کی زندگی میں ایک ایسا خوشگوار اعتماد پیدا ہوچکا ہے جس کی نظیر پچھلے پچپن برسوں میں مجھے کبھی نظر نہ آئی ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس اعتراف کے بعد میں اپنے آپ میں اعتماد کی کمی محسوس کررہا ہوں ۔

حضرات! یہ تو آپ بخوبی جانتے ہیں کہ بینکوں سے میرا کتنا تعلق ہوسکتا ہے ۔ ایک محفل میں ایک مشہور و معروف ادیب سے ایک مشہور و معروف بینکر کا تعارف کرایا گیا تو بینکر نے ادیب سے کہا ’’آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ میں نے آج تک آپ کی کوئی کتاب نہیں پڑھی‘‘ ۔اس پر ادیب نے کہا ’’مجھے بھی آپ سے مل کربڑی خوشی ہوئی لیکن میری بدقسمتی یہ ہے کہ آج تک میں کسی بینک میں داخل نہیں ہوا‘‘
اس صورت حال کے باوجود سوئزرلینڈ کے ایک بینک میں میرا کھاتہ موجود ہے اور اس معاملہ کو آپ سب کے سامنے رکھنے کی وجہ صرف اتنی ہے کہ پچھلے چند مہینوں سے میں عجیب و غریب کیفیت سے گذر رہا ہوں ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں نے پوری رازداری اور ایمانداری کے ساتھ اپنے کھاتہ کی اطلاع اپنی بیوی کو دی تھی ۔ مجھے یقین تھا کہ وہ خاندان کے اس راز کو اپنے سینے میں چھپائے رکھے گی مگر رفتہ رفتہ مجھے احساس ہونے لگا کہ اس راز کی روشنی میرے گھر کے اطراف دھیرے دھیرے پھیلنے لگی ہے ۔ ایک مہینے پہلے کی بات ہے ۔ میں محلہ کی ایک دکان سے موزے خریدنے گیا تھا ۔ مجھے موزوں کی ایک جوڑی پسند تو آئی لیکن دکاندار نے اس کی جو قیمت بتائی وہ ہندوستان میں میرے موجودہ بینک بینلس کی بساط سے باہر تھی ۔ دکاندار نے مجھے آنکھ مار کر کہا ’’صاحب آپ یہ موزے لے لیجئے ۔ بیس پچیس روپے کے فرق پر نہ جایئے ۔ باقی پیسے بعد میں دیجئے جب سوئزرلینڈ سے آپ کا پیسہ آجائے گا‘‘ ۔ تھوڑی دیر کے لئے میں چونک سا گیا لیکن سوچا کہ ان دنوں چونکہ سوئزرلینڈ کے بینکوں کا بہت چرچا ہے اس لئے دکاندار نے مذاق میں یہ بات کہی ہوگی ۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ محلہ کے وہ لوگ جو مجھ سے منہ چھپاتے تھے یا مجھ سے کتراتے تھے ، نہ صرف اپنا منہ دکھانے لگے ہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ سلام بھی کرنے لگے ہیں ۔ پڑوسیوں کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں کہ یہ صرف آپ کی خوشیوںمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ اور اگر آپ کی زندگی میں دکھ نہ ہو تو انہیں پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ یہ پڑوسی اب مجھے عجیب و غریب نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ میرے ایک پڑوسی کپڑوں کا کاروبار کرتے ہیں لیکن کاروبار کرنے کا ڈھنگ کچھ ایسا ہے جیسے سارے ملک کو ننگا کرکے چھوڑیں گے ۔ پیسے کی وہ ریل پیل ہے کہ نہ جانے اتنا پیسہ کہاں رکھتے ہیں ۔ بیس برس کے پڑوسی ہیں لیکن ان سے تعلقات صرف پچھلے دو مہینوں میں ہی قائم ہوئے ۔ ان کی بیوی ان دنوں میری بیوی کی سب سے اچھی اورچہیتی سہیلی بنی ہوئی ہے ۔ دو تین مرتبہ مجھے بھی اپنے گھر بلاچکے ہیں ۔ جب بھی بلاتے ہیں میرے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو اہل غرض بے ایمان وزیروں کے ساتھ روا رکھتے ہیں ۔ پچھلے ہفتہ میری بیوی نے بتایا کہ میرے پڑوسی کی بیوی اس سے یہ جاننا چاہتی ہے کہ سوئزرلینڈ کے بینک میں کھاتہ کھولنے کا کیا طریقہ ہے ۔

میں نے کہا ’’انہیں کیسے معلوم ہوا کہ میرا کھاتہ سوئزرلینڈ کے بینک میں موجود ہے‘‘ ۔ بیوی نے کہا ’’تم بھی کیسی باتیں کرتے ہو ۔ انہیں کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ سوئزرلینڈ کے بینک میں تمہارا کھاتہ ہے ۔تم چونکہ پڑھے لکھے آدمی ہو اسی لئے تم سے کھاتہ کھولنے کا طریقہ جاننا چاہتے ہوں گے ۔ بتانے میں کیا حرج ہے ۔ آخر کو پڑوسی ہیں‘‘ ۔ میں نے کہا ’’پڑوسی تو بیس برس سے ہیں ۔ لیکن پڑوسیوں کا سا سلوک صرف پچھلے دو مہینوں سے کیوں کررہے ہیں؟‘‘ پھر بھی میں نے کھاتہ کھولنے کا طریقہ انہیں بتادیا ۔ یہاں تک تو خیر ٹھیک تھا ۔ پرسوں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا ۔ میں صبح ڈرائنگ روم میں بیٹھا داڑھی بنارہا تھا کہ ایک بھکاری حسب معمول میرے گھر پر آواز لگانے لگا ۔ دوسری بھکاری نے جو میرے پڑوسی کے گھر پر کھڑا تھا میرے گھر کے سامنے کھڑے ہوئے بھکاری سے کہا ’’میاں ! اس گھر پرآواز لگا کر کیوں اپنا وقت اور گلا ضائع کرتے ہو ۔ ان کا تو سارا پیسہ سوئزرلینڈ میں ہے ۔ ناحق کیوں انہیں تنگ کرتے ہو‘‘ ۔ پانی اب میرے سر سے اونچا ہوچکا تھا ۔ میں نے فوراً اپنی بیوی کو طلب کیا اور کہا ’’تمہیں یاد ہوگا کہ تین مہینے پہلے میں نے تمہیں اس راز سے واقف کرایا تھا کہ سوئزرلینڈ کے ایک بینک میں میرا اکاونٹ موجود ہے‘‘ ۔ بیوی نے کہا ’’یاد رکھنے کی بات کرتے ہو۔ میں تو دن کے چوبیسوں گھنٹے اس بات کو یاد رکھتی ہوں ۔ تمہیں اب اچانک اس اکاونٹ کی کیوں یاد آگئی ۔ تم نے پہلی بار اپنے اکاونٹ کا جو اعتراف کیا تھا کیا وہ غلط تھا؟‘‘

میں نے کہا ’’غلط تو نہیں تھا مگر میرا اعتراف ادھورا تھا ۔ میں نے تمہیں اپنے کھاتے کا نمبر ، کھاتے کا خفیہ نام اور کھاتے میں جمع رقم کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا‘‘ ۔ بیوی نے کہا ’’میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ تمہارے کھاتے کا نمبر چار سو بیس ہے ، کھاتہ کا خفیہ نام ’’گوبھی کا پھول‘‘ ہے اور یہ کہ اس کھاتے میں سوئزرلینڈ کے صرف دس مارک جمع ہیں‘‘ ۔ میں نے حیرت سے پوچھا ’’تمہیں کس نے بتایا؟‘‘ ۔ بولی ’’میں نے اس سلسلہ میں ایک خفیہ ایجنسی کی خدمات حاصل کی تھیں ۔ ’فیرسیکس‘ نام ہے اس کا ۔ سوئزرلینڈ کے کھاتوں کا سراغ اسی طرح لگایا جاتا ہے‘‘ ۔ میں نے کہا ’’بات دراصل یہ تھی کہ سوئزرلینڈ میں جب مجھے دیکھنے کو کچھ بھی نہیں ملا اور وہاں سے واپس چلتے وقت میری جیب میں دس سوئس مارک بچ رہے تھے تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس رقم کو سوئزرلینڈ کے کسی بینک میں جمع کرادوں ۔ ہندوستان میں یہ سہولت ہے کہ کسی تاریخی مقام کو دیکھنے جاتے ہیں تو اس مقام پر اپنا نام بھی لکھ کر آسکتے ہیں تاکہ نہ صرف سند رہے بلکہ اپنی نشانی بھی موجود رہے ۔ سوئزرلینڈ میں مجھے یہ سہولت میسر نہیں تھی لہذا میں نے نشانی کے طور پر اپنا اکاونٹ کھول دیا ۔ یہ کوئی اہمیت کی بات نہیں ہے اور تمہیں بھی اسے اہمیت نہیں دینا چاہئے ۔ اب تو میں اس اکاونٹ کو بند کرنے کی سوچ رہا ہوں‘‘۔

بیوی نے کہا ’’خبردار ! جو اس اکاونٹ کو بند کیا تو ۔ آج سے اسے بھی جوائنٹ اکاونٹ ہی سمجھو ۔ ان دنوں سماج میں عزت اسی کی ہے جس کا سوئزرلینڈ کے بینکوں میں اکاونٹ ہو ۔ تیس برس پہلے جب تم سوئزرلینڈ گئے تھے تو ہندوستان میں سوئزرلینڈ کے بینکوں کا اتنا کریز نہیں تھا ۔ تم نے تو جذباتی ہو کر غفلت میں اس اکاونٹ کو کھولا تھا ۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ کبھی تمہاری غفلت سے فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے ۔ تم یقین کرو سوئزرلینڈ کے بینک میں جمع کئے ہوئے تمہارے دس سوئز مارک ، ہندوستان میں دس کروڑ کے برابر ہیں ۔ دیکھتے نہیں سماج میں تمہاری کتنی عزت ہورہی ہے ۔ کتنی تو دعوتیں کھاچکے ہو ،۔ دکاندار ادھار تک دینے لگے ہیں ۔ جو لوگ برابری کے ساتھ ملتے تھے وہ اب جُھک جُھک کر ملنے لگے ہیں ۔ اور تو اور محلہ کے لیڈیز کلب کی چیئرپرسن کے طور پر آج میرا بلامقابلہ انتخاب ہونے والا ہے ۔ یہ سب کس کی بدولت ہے ۔ ذرا سوچو تو ملک کے سارے شرفا اپنے اکاونٹ سوئزرلینڈ کے بینکوں میں کھولنے لگے ہیں اور تم اپنا کھاتہ بند کرنے چلے ہو ۔ خدا کا شکر ادا کرو کہ ایک اتفاقی غلطی سے تمہارا شمار بھی شرفا میں ہونے لگا ہے ۔ ورنہ زندگی بھر یونہی جوتیاں چٹخاتے پھرتے ۔ یہ میری گزارش نہیں حکم ہے کہ اکاونٹ اب بند نہیں ہوگا‘‘ ۔
یہ کہہ کر میری بیوی لیڈیز کلب کی چیئرپرسن کے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے چلی گئی اور میں دنیا کے نقشہ میں پھر سے سوئزرلینڈ کو تلاش کرنے لگا ۔