سمینار بعنوان انسانی تمدن پر نہج البلاغہ کے اثرات

تقی عسکری ولا
حضرت علیؓ کے صحیفہ خزینہ حکمت و بلاغت ’’نہج البلاغہ‘‘ کے موضوع پر شہر میں پہلی مرتبہ ’’انسانی تمدن پر نہج البلاغہ کے اثرات‘‘ کے زیر عنوان نواب زاہد علی خان کی زیر سرپرستی ایک کلیدی سمینار آراستہ کیا گیا ۔ کل ہند نہج البلاغہ سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر شوکت علی مرزا کے خلوص و نیت کے سبب 13 دسمبر کو صبح 10 بجے دن بلا لحاظ مذہب و ملت ہر مکتب فکر و نظر کے تشنگان علوم و معارف کے اژدھام کو سالار جنگ میوزیم کے ویسٹرن بلاک آڈیٹوریم کا رخ کرتے دیکھا گیا جنہوں نے یہ ثابت کردیا کہ جاریہ صدی میں بھی حکمت آگیں ذوق فصاحت و بلاغت کے پرستاروں کی قلت نہیں ہے ۔ وقت سے پہلے ہی ویسٹرن بلاک آڈیٹوریم ارباب فکر و دانش سے چھلک رہا تھا اور تنگ دامنی کا شکوہ کررہا تھا جو اس بات کی غمازی ہے شائستہ تمدن کے شیدائی معلم اسلام حضرت علیؓ کے خطبات و فرمودات کے آئینہ میں شہرہ آفاق دانشوروں کے افکار و خیالات سے مستفیض ہونے تڑپ رہے تھے ۔
راقم الحروف نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے اردو میں منظوم سورہ حمد سے سمینار کا آغاز کیا اور پہلے پہل مہمان خصوصی آیت اللہ حضرت مہدی مہدوی پور کو شہ نشین پر جلوہ آفریں ہونے کی دعوت دی ۔ اس کے بعد خطیب عالم اسلام ڈاکٹر شوکت علی مرزا کو صدارت کرنے کے لئے شہ نشین پر رونق افروز ہونے کے لئے مدعو کیا ۔ پھر معزز مہمانان قونصل جنرل اسلامی جمہوریہ ایران متعینہ حیدرآباد ، عزت مآب آقا حسن نوریان ، پروفیسر جامعہ المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی ایران ، ڈاکٹر سید محمد رضا مرتبار کے بعد مولانا مولوی آغا مجاہد حسین ، پروفیسر سلیمان صدیقی ، ڈاکٹر آنند راج ورما اور ڈاکٹر فاطمہ بیگم پروین کو شہ نشین کی زینت بننے آواز دی گئی ۔ چند ثانیوں میں شہ نشیں دانشوروں سے آراستہ ہوگیا ۔
وقت کسی کے لئے ٹھہرتا ہے اور نہ انتظار کرتا ہے چنانچہ ابتداء میں مولانا محمد شعیب رضا خان سے تلاوت کلام پاک کی خواہش کی گئی ۔ محفل میں قرآن پاک کی تلاوت کی گونج کے بعد میجر جنرل سید علی اختر زیدی نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا

خوشگوار سمینار کی خوشگوار شروعات کرنے ڈاکٹر فاطمہ پروین کو دعوت خطابت دی گئی ۔ ڈاکٹر فاطمہ پروین نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا کا بہترین ادب وہ ہے جس میں ایسی بلاغت پائی جائے جو نہ صرف ہر دور پر محیط ہوسکے بلکہ انسانیت کے لئے سرچشمہ وجدان بھی ہو۔ انھوں نے کہا کہ نہج البلاغہ کے اسرار و رموز کی وجہ سے ہر دور میں آگہی کے باب روشن ہوئے ۔ ڈاکٹر فاطمہ پروین نے کہا کہ حضرت علیؓ نے معرفت کردگار سے لے کر ٹڈی ، چیونٹی اور تخم ثمر تک اس طرح وضاحت فرمائی کہ آج تک ماہرین علم الابدان حیران ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ارشاد یا تو وہ کرسکتا ہے جس نے خود اس کی تخلیق کی ہو یا تخلیق ہوتے ہوئے دیکھا ہو ۔ انھوں نے کہا کہ امیر المومنین نے انسانی تمدن کے لئے اپنے ارشادات سے معاشرے کی راہوں کو منور کیا ہے ۔ ڈاکٹر آنند راج ورما نے کہا کہ کسی بھی ذی شعور اور ذی عقل کے لئے منبع علم حضرت علیؓ سے رجوع ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہ جاتا ۔ انھوں نے نہج البلاغہ کی شرح آفرینی کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس صحیفہ میں موجود سحر انگیز اور پراعجاز نصائح نے بے حد متاثر کیا ہے ۔  نہج البلاغہ سوسائٹی نے انسانی تمدن پر نہج البلاغہ کے اثرات کا عنوان دے کر بلا لحاظ مذہب و ملت نہج البلاغہ کی وسیع تر افادیت کو ہمہ گیر کردیا ہے ۔ پروفیسر سلیمان صدیقی کو خطابت کے لئے مدعو کیا گیا تو انھوں نے بڑے طمطراق سے کہا کہ انسانی تلاش و تحقیق کی جتنی جہات ہیں اور جتنے علمی شعبے ہیں حضرت علیؓ نے تمام کا احاطہ کیا ہے ۔ انسانیت جب بھی مسائل سے دوچار ہوئی اور جس مسئلہ کو ینحل سمجھا گیا وہ حضرت علیؓ کے ارشادات میں پایا جاتا ہے  ۔ پروفیسر سلیمان صدیقی نے واضح کیا کہ علم ودانش کی اعلی ترین ترسیم حضرت علیؓ پر منتہی ہوتی ہے ۔ مولانا آغا مجاہد حسین قبلہ نے اپنی بصیرت افروز خطابت میں فرمایا کہ حضرت علیؓ کا کلام بلاغت نظام جو کلام الامام اور امام الکلام بھی ہے اس کا ادراک انسانی تمدن کے لئے حسب ظرف ہے ۔ اگر انسان حضرت علیؓ کے ارشادات اور تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگی کا شعار اختیار کرے تو یقیناً تمام کی بھوک کی عفریت سے نجات مل جائے ۔ کیوں کہ سارے عالم میں کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جس نے رزق کی مساویانہ تقسیم کو روبہ عمل لایا ہو ۔ ان کے فرمودات کائنات کے آخری لمحہ تک زندہ و تابندہ رہیں گے ۔ انھوں نے کہا کہ نہج البلاغہ میں جو وسیع تر پیغام ہے اس کو قابل فہم بنانے کے لئے جٹ جانا چاہئے اور معجز نما خطبات کو علوم جدیدہ سے آراستہ کرنا چاہئے ۔ مولانا آغا مجاہد حسین کو ان کی بلیغ خطابت پر بے پناہ دادو تحسین سے نوازا گیا ۔ پروفیسر جامعتہ المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی ایران ڈاکٹر سید رضا مرتبار نے کہا کہ قرآن کریم کے بعد نہج البلاغہ بنی نوع انسانوں کے لئے ایک فیض رساں مبسوط صحیفہ ہے جو دنیا کے تمام مسائل اور موضوعات پر محیط ہے ۔

اس لئے دنیا بھر میں نہج البلاغہ پر تحقیق کا امر جاری و ساری ہے ۔ صدر کل ہند نہج البلاغہ سوسائٹی ڈاکٹر شوکت علی مرزا نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ حضرت علیؓ کے نہج اسرار و بلاغت ، اسلامی تمدن کی تعلیمات اور حکمت و فصاحت کے سرچشمے اور انسانی تہذیب کے جواہر آبدار اور خوش آب لعل و گہر دنیا کے آخری غروب آفتاب تک انسانی تمدن کو تابندہ کرتے رہیں گے ۔ انھوں نے کہا کہ کل ہند نہج البلاغہ سوسائٹی حضرت علیؓ کے حکیمانہ خطبات و فرمودات کی عوام الناس تک ترسیل وابلاغ کے لئے سرگرم رہے گی ۔ کیوں کہ اس کی ہمہ گیر افادیت اور فیضان مسلم ہے ۔ ڈاکٹر شوکت علی مرزا نے نہج البلاغہ سوسائٹی کے آئندہ کے لائحہ عمل سے روشناس کراتے ہوئے کہا کہ ہندوستان بھر میں کل ہند نہج البلاغہ سوسائٹی کی شاخیں قائم کی جائیں گی ۔ انھوں نے کہا کہ آیت اللہ حضرت مہدی مہدوی پور (نمائندہ آیت اللہ خامنہ ای درہند) کے مشورے کی بنا پر نہج البلاغہ کو ملک کی مختلف یونیورسٹیز میں ریسرچ کے لئے متعارف کیا جائے گا ۔ عثمانیہ یونیورسٹی اور کشمیر یونیورسٹی میں کل ہند نہج البلاغہ سوسائٹی پہلے ہی مالیہ فراہم کرچکی ہے ۔ ڈاکٹر شوکت علی مرزا نے سوسائٹی کے دفتر کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر شمشاد حسین کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ سوسائٹی کا دفتر قائم کرنے کے لئے ڈاکٹر شمشاد حسین نے ماہانہ صرف ایک روپیہ کرائے پر قلب شہر میں سوسائٹی کی کارکردگی کے لئے تمام بنیادی سہولتوں سے آراستہ بہترین جگہ مرحمت فرمائی ہے ۔ ڈاکٹر شوکت علی مرزا نے کہا کہ اس سمینار کی بے پناہ کامیابی ایڈیٹر روزنامہ سیاست نواب زاہد علی خان کی مرہون منت ہے جنھوں نے ابتدائی مراحل سے آخر تک اپنا دست تعاون دراز رکھا ۔ ڈاکٹر شوکت علی مرزا نے نواب زاہد علی خان کو اپنے احساسات ممنونیت پیش کئے ۔ اس سمینار میں نواب زاہد علی خان نے تین گھنٹے تک سامعین کی صف میں تشریف فرما ہو کر سارے شہر کو حیرت زدہ کردیا ۔ ڈاکٹر شوکت علی مرزا نے فیض عام ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری محترم افتخار حسین سے اظہار ممنونیت کرتے ہوئے کہا کہ نہج البلاغہ سوسائٹی کی کارکردگی اور اس سمینار کے انعقاد میں پس پردہ ان کا نمایاں حصہ ہے ۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ بھی سوسائٹی کو محترم افتخار حسین کی سرپرستی حاصل رہے گی ۔ اس سمینار کی غیر روایتی خصوصیت یہ تھی کہ یہ سمینار ٹھیک وقت پر شروع ہوا اور ٹھیک وقت پر اختتام پذیر ہوا ۔ آخر میں ڈاکٹر شوکت علی مرزا نے تمام مہمانوں اور خواتین و حضرات کو ہدیہ تشکر پیش کیا ۔ بہر نوع تمام مرد و خواتین سامعین کے لبوں پر یہی تاثر تھا کہ
ایسی محفل میں بلایا جو بھلائی نہیں جاتی