سلیمان خطیب ایک سنجیدہ شاعر

یونس فہمی
سلیمان خطیب مرحوم جدید دکنی زبان کے ایک کامیاب شاعر کی حیثیت سے بے حد مقبول ہیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں مشاعروں کے پلیٹ فارم سے قہقہوں کے کھنکتے سکے عوام میں تقسیم کئے ہیں اور آج بھی ان کا کلام ان کی باغ و بہار شخصیت کا ضامن ہے اور اپنے قاری کو ان کی قادر الکلامی کا قائل کرتا ہے ۔ ان کی شعری تخلیقات اور صلاحیتوں پرکئی ناقدین نے بڑے مدلل انداز میں تبصرے کئے ہیں ۔ خطیب قہقہوں کا شہنشاہ ہے ، خطیب اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کے باعث ایک انفرادی خصوصیت کا حامل ہے ۔ وہ ابتداً قہقہوں کی کڑکتی ہوئی بجلیوں سے کام لیتا ہے اور پھر زندگی کی گھنگھور اور تاریک فضا کی سیر کراتا ہے ۔ وہ ان رستے ہوئے ناسوروں کی نشاندہی کرتا ہے جو معاشرے کو کمزور اور نحیف بناتے جارہے ہیں ۔ وہ یہ سب کچھ خطیبانہ انداز میں نہیں کرتا بلکہ لطیف مزاح کا سہارا بھی لیتا ہے ۔

مزاح چونکہ آلام و افکار اور پریشانی و تردد کے زمانے میں انسان کا بہترین رفیق ہے ۔ یہ وہ ساتھی ہے جو متمدن معاشرہ کو مصائب سے نبرد آزما ہونے کا گر سکھاتا ہے ۔ مزاح جس کی پسلی سے قہقہے جنم لیتے ہیں ، غم و اندوہ کے لئے تریاق کا کام کرتا ہے ۔ یہ فنکار کے لئے ایک ایسا آلہ ہے جو بیک وقت اس کے خیالات ، مشاہدات ، تجربات ، تصورات اور نظریات کے اظہار میں معاون و مددگار ہے ۔ یہی نہیں بلکہ مزاح ذہنی کاوشوں کو رواں کرتا ہے ۔ اس میں ایک ایسی صلاحیت موجود ہے جو قلب میں گرمی اور توانائی پیدا کرتی ہے ۔وہ مزاح جس میں قہقہے اور ہنسی کے عناصر کی بہتات ہو انسان کو حقیقی لطف فراہم کرتا ہے ۔
خطیب کے مجموعہ کلام ’’کیوڑے کا بن‘‘ کی سیر کیجئے تو محسوس ہوگا کہ واقعی خطیب کی شاعری میں مزاح ، مقصدیت ، افادیت ، معنویت اور مقاصد کی کارفرمائی کثرت سے پائی جاتی ہے اور یہی دراصل حقیقی مزاح ہے ۔ کیوں کہ مقصدیت کی نشتر زنی ، افراد معاشرہ کے خیالات و رجحانات کو نفاست بخشتی ہے ۔ طبائع انسانی کو پژمردگی سے نجات دلاتی ہے اور جینے کا سلیقہ بھی سکھاتی ہے ۔ گویا مزاح سماج کے عمومی مسائل کی تطہیر کرتا ہے ۔ شائستگی و شرافت کے انعامات سے نوازتا ہے ۔ مزاح دراصل مہذب اور متمدن معاشرے میں قدر دوام کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مزاح نگار اعتدال پسند ہوتاہے اور اس کی مقصدیت میں تفریح و تفنن کے بجائے کمزوریوں وکوتاہیوں کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ وہ نقاب پوش نہیں ہوتا پہرہ دار ہوتا ہے ۔ اس تناظر میں خطیب کی شاعری کو دیکھیں تو کہنا پڑتا ہے کہ خطیب نے صرف تبسم ہی کی نہیں غور و فکر کی بھی دعوت دی ہے ۔ وہ مسلمات یا مفروضہ مسلمات پر نظر ثانی کی دعوت دیتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ خطیب ہجویاتی انداز بیان اختیار نہیں کرتا اور نہ ہی عضویات انسان کی غیر معمولی اشکال کو نشانہ بناتا ہے ۔ لیکن جزوی طور پر کہیں کہیں خطیب آپے سے باہر بھی دکھائی دیتا ہے اور انسان کے اعضائے بدن کی قدرتی یا حادثاتی عیوب کو ظاہر کرکے ہجو گوئی کے زمرے میں آجاتا ہے ۔ اس کی نظم ’’کانا دجال‘‘ اس کی بہترین مثال ہے ۔

خطیب جدید دکنی اردو کا بے بدل شاعر ہے اور یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ اس نے قلی قطب شاہ ، ملا وجہی ، نصرتی ، ملک خونشود اور ابن نشاطی وغیرہ کی زبان کو اپنا میڈیم بنایا اور نذیر دہقانی ، علی صائب میاں اور سرور ڈنڈا کی اتباع میں اپنی قہقہہ بردوش شاعری کو زندہ کردیا ۔ دکنی زبان کی تشبیہات ، استعارات اور علامتوں کو نہایت خوبصورتی سے اپنی شاعری میں استعمال کیا ، جس کی وجہ سے خطیب کی شاعری نے دکن کی سرحدوں کو پھلانگ کر ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں بھی اپنا لوہا منوالیا ۔
آیئے اب میں آپ کو بتاؤں کہ خطیب کی شہرت کاراز کیا ہے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ خطیب نے قدیم دکنی محاورات ، تشبیہات اور استعاروں کو نہایت چابکدستی سے استعمال کیا ۔ سامعین کو اتنا ہنسایا کہ مشاعرہ گاہوں کی بنیادیں ہلنے لگیں اور جب اس کا وار کارگر ہوگیا تو پھر اس نے برائیوں اور ناعاقبت اندیشیوں کی نشاندہی شروع کردی جو اصلاح معاشرہ کے لئے ضروری تھا لیکن ذرا غور فرمایئے کہ خطیب نے نشتر زنی کا یہ کام ہنسی سے لیا یا سنجیدگی سے ! سچ یہی ہے کہ یہ کام اس نے صرف سنجیدگی اور گمبھیرتا سے لیا ۔ مشاعروں میں جن حضرات نے خطیب کو سنا وہ یقیناً اس بات کی تائید کریں گے کہ خطیب کی معرکتہ الآرا نظم ’’ساس بہو‘‘ جب بھی خطیب نے سنائی اور دیہاتی ساس کے ڈائیلاگ سنائے تو سامعین لوٹ پوٹ ہوگئے ۔ لیکن جب اسی نظم کے آخری بند کو شاعر بہو کی زبان میں پیش کرتا ہے تو محفل کا رنگ یکسر بدل جاتا ہے ۔

ہم گھرانے کی شان رکھتے ہیں
بند مٹھی کی آن رکھتے ہیں
گھر کی عزت کا پاس ہے ورنہ
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
بیٹی مریم ہے ، بیٹی زہرہ ہے
بیٹی رحمت ہے ، بیٹی زہرہ ہے
بیٹی سیتا ہے اور ساوتری
بینی عنوان درس عبرت ہے
یہی دراصل خطیب کی جدت بھی ہے اور ندرت بھی ۔ ابتداً وہ عوام کو ہنسا ہنسا کے بے دم کردیتا ہے اس کے فوراً بعد غور و فکر پر مجبور بھی کردیتا ہے ۔ اب یہاں بلا جھجک یہ کہا جاسکتا ہے کہ مزاحیہ شاعری صرف ہنسنے ہنسانے کے لئے نہیں ہوتی ہے بلکہ تنقید حیات بھی ہے اور خود احتسابی کی دعوت بھی دیتی ہے ۔ بالفرض خطیب کی شاعری سے اگر سنجیدہ کلام کو الگ کردیاجائے تو اس کی شاعری کی دلکشی میں بڑی حد تک کمی واقع ہوجائے گی ۔ یہ اور بات ہے کہ مزاحیہ شاعر کے لئے اپنی بات اسی پیرائے میں کہنا ضروری ہے جس کا تعلق طنز و مزاح سے ہو ۔ لیکن خطیب کا یہ کمال ہے کہ اس نے اس سقم کو ہنر بنادیا ۔میری ناقص رائے میں خطیب اگر مزاح کاسہارا نہ بھی لیتے تو اسکا مابقی مال مارکٹ میں خوب چلتا ۔ کیوں کہ اس کا جو مشن ہے اس کی مکمل نشاندہی اس کے سنجیدہ کلام ہی میںملتی ہے ۔ ان کی بیشتر نظمیں خالص سنجیدہ ہیں ۔ نظم ’’درخواجہ پہ چلو‘‘ ’’بارگاہ بندہ نواز‘‘ میں ایک پیام ہے ۔ مندرجہ بالا دلیل کے ثبوت میں یہ نظمیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔ ان نظموں کے علاوہ اور بھی کچھ نظمیں ایسی ہیں جن میں نہ تو مزاح کی چنگاریاں ہیں نہ طنز کے تیر ۔ مذکورہ دونوں نظموں میں طنز و مزاح کی گنجائش ہی نہیں تھی ۔ خطیب کی چند ایسی بھی نظمیں ہیں جن کے ابتدائی اشعار میں سنجیدگی اور متانت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ ان کی نظم ’’پہلی جمعگی‘‘ کے ابتدائی اشعار سنجیدگی سے عبارت ہیں ۔ اس نظم میں شاعر نے لالچی ساس کی نفسیات کی بھرپور عکاسی کی ہے ۔

کیا دیا تھا نبیﷺ نے بیٹی کو
کچھ تو ہوگا بتول سے رشتہ
ایک چکی تھی اور مشکیزہ
صرف لفظِ قبول سے رشتہ
گھر نبیؐ کا نبیؐ کی بیٹی ہے
اور علیؓ کا رسولؐ سے رشتہ
اسی نقش قدم پہ چلنا ہے
تا ابد ہے رسول سے رشتہ
خطیب کی ایک نظم ’’بشکولا‘‘ ہے جو خالص طنزیہ نظموں میں شمار کی جاسکتی ہے ۔ ان کی نظم ’’تنگ پتلون‘‘ کے مزاحیہ اشعار ملاحظہ فرمایئے۔
ایک صاحب نماز میں یارو ، تنگ پتلون چڑھا کر آئے تھے
اُنّوں کھڑکو تھے بس اقامت میں ، لوگاں سجدہ میں سرجھکائے تھے
نظم ’’کابلی والا‘‘ کے آخری دو بند یہ ہیں:
کون پڑھنے پڑھانے آیا تھا
اَم تو کپڑے دکھانے آیا تھا
ام تو ملنے ملانے آیا تھا
گَوں کی چکّر لگانے آیا تھا
وہ حسینی تھے بھوکے پیاسے تھے
جن پہ حملے شدید ہوتے تھے
ایک ویسے بھی وہ نمازی تھے
ایک ایسے بھی یہ نمازی تھے
ان کی نظمیں ’’پہلی جمعگی‘‘ ’’ہراج کا پلنگ‘‘ اور ’’پہلی تاریخ‘‘ شاہکار نظمیں ہیں ۔ نظم ’’سانپ‘‘ میں بھی خطیب نے وہی تکنیک استعمال کی ہے جس کا رشتہ سنجیدگی سے جڑجاتا ہے ابتداء میں خطیب نے لڑکے کے تعارف میں ایسے لفظیات کا استعمال کیا ہے کہ سننے والے کے سامنے معاشرہ کی مکروہ تصویریں رقص کرتی نظر آتی ہیں ۔ لیکن خطیب کا بھرپور وار نظم کے آخری حصہ ہی میں ظاہر ہوتا ہے ۔ دیکھئے کیا کہہ رہا ہے شاعر

خوب سونچو سمجھ کے بیٹی دو
کاٹ کھانے کو سانپ آتے ہیں
روپ بھر کر کبھی فرشتوں کا
گھر بسانے کو سانپ آتے ہیں
ہم نے منبر پہ سانپ دیکھے ہیں
ہم نے مندر کے سانپ دیکھے ہیں
کیا بتائیں کہ اونچی کرسی پر
کتنے زہریلے سانپ دیکھے ہیں
رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوتا
خوب سونچو سمجھ کے بیٹی دو
نظم ’روٹی‘ میں خدا کا مکالمہ اور ’راستے‘ کے آخری اشعار خطیب کو ایک سنجیدہ شاعر سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ’’دو شاعر ایک رقاصہ‘‘ اور ’’پیارا وطن ہمارا‘‘ پر مکمل طور پر سنجیدگی کی چھاپ ہے ۔ نظم ’’چینی کی گڑیا‘‘ میں محض جذبات کی کارفرمائی ہے ۔ ان کی ان گنت نظمیں ایسی ہیں جن کا مطالعہ یہ محسوس کراتا ہے کہ شاعر کے دل میں قوم و ملت کا درد موجود ہے ۔ اس کے سینے میں ایک دردمند دل دھڑکتا ہے ۔ ایک ایک لفظ سے دل کی آواز سنائی دیتی ہے جو پتھر دل کو موم بناسکتی ہے ۔ خطیب نے معاشرتی بگاڑ کو نہایت دلپذیر انداز میں پیش کیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ معاشرتی سدھار کا مشن لے کر اٹھے اور تنہا اس پر کام کرتے رہے ۔ ان میں فنکارانہ صلاحیتیں بہت زیادہ تھیں اور یہ سب کچھ رب العزت کا گراں بہا عطیہ تھا ۔