سلیمان خطیبؔ

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
سلیمان خطیب جب تک زندہ رہے بہت سیدھے سادے آدمی دکھائی دیتے تھے ۔ مگر جب مرگئے تو احساس ہوا کہ بہت پیچیدہ آدمی تھے ۔ وہ شعلہ بھی تھے اور شبنم بھی ۔ وہ میرے بزرگ بھی تھے اور مجھ سے چھوٹے بھی ۔ وہ سخت بھی تھے اورملائم بھی ۔ وہ لوگ کو ہنستاتے بھی تھے اور رُلاتے بھی ۔ جس آدمی کی ذات میں اتنے رنگ ہوں اس کے بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل ہے ۔
انہیں میں نے آج سے بتیس برس پہلے اس وقت دیکھا تھا جب میں گلبرگہ کے آصف گنج مڈل اسکول کا طالب علم تھا ۔ ایک دن ہماری جماعت کے طلباء سے کہا گیا کہ انہیں پینے کے پانی کی سربراہی کے نظام سے واقف کرانے کیلئے فلٹر بیڈس لے جایا جائے گا ۔ وہیں پر میںنے فلٹر  بیڈس اورسلیمان خطیب دونوں کو پہلی بار دیکھا ۔ وہیں یہ بھی پتہ چلا کہ سلیمان خطیبؔ ہی گلبرگہ کے بچہ سقّہ ہیں۔ سلیمان خطیبؔ زندگی بھر گلبرگہ کے لوگوں کی پیاس بجھاتے رہے ۔ انہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پا نی پیا لیکن اپنی شاعری میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرتے رہے۔
اس کے بعد انہیں گلبرگہ میں جگہ جگہ دیکھا ۔ اُن دنوں وہ بہت خوش پوشاک ہوا کرتے تھے ۔ اپنے لباس کو دیکھ کر وہ بھلے ہی خوش نہ ہوتے ہوں مگر لوگ ضرور خوش ہوا کرتے تھے ۔ اہتمام کے ساتھ سوٹ پہنتے تھے ۔ بوشرٹ اور پتلونیں بھی پہنتے تھے اور سر پر ہمیشہ فیلٹ ہیٹ لگی رہتی تھی ۔ فیلٹ ہیٹ پہننے کا مقصد اپنے سر کو موسمی اثرات سے بچانا نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ اپنے سر کو ایک راز کی طرح ساری دنیا سے پوشیدہ رکھتے تھے ۔ خیر سے اس وقت بھی اُن کے سرپر بالوں کی یہ حالت تھی کہ حجام فیلٹ ہیٹ سر سے اُتارے بناہی ان کی حجامت بنادیتا تھا۔ وہ دن بھر گلبرگہ کی سڑکوں پر نظر آتے تھے ۔ کام بھی کیا تھا ۔ صبح نل کی ٹونٹی کھولی اور شام میں بند کردی ۔

اُن سے میری باضابطہ ملاقات 1953 ء میں ہوئی ۔ اُن دنوں میں گلبرگہ انٹرمیڈیٹ کالج کا طالب علم تھا اور عمر کے تقاضے سے مجبورہوکر ڈراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا ۔ کالج میں کئی ڈرامے کھیلے اورا پنی ادا کاری کا وہ منوایا جسے لوہا کہتے ہیں۔ جب ہم لوگوں نے گلبرگہ کالج میں خواجہ احمد عباس کا ڈرامہ ’’یہ امرت ہے‘‘ اسٹیج کرنے کا فیصلہ کیا توپتہ چلا کہ اس ڈرامے کے ہدایت کار سلیمان خطیب ہوں گے ۔ وہ میرے بڑے بھائیوں محبوب حسین جگراور ابراہیم جلیس کے ملنے والوں میں سے تھے ۔ اس لئے یہ خوف دامن گیر ہوا کہ وہ جو ہدایت دیں گے اس پر صدق دل سے عمل بھی کرنا ہوگا ۔ سخت مایوسی ہوئی ۔ سلیمان خطیبؔ نے جب ڈرامے کی ہدایت کاری شروع کی تو پتہ چلا کہ موصوف اپنے سینگ کٹواکر بچھڑوں میں شامل ہونے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس ڈرامے کی ریہرسلوں کے دوران اُن سے وہ بے تکلفی ہوئی جو زندگی بھر قائم رہی ۔ ہم اُن سے دنیا بھر کا بے تکا مذاق کرتے اور وہ سب کچھ برداشت کرلیتے ۔ ڈرامے کی ریہرسل گلبرگہ کالج کے ہوسٹل میں ہوتی تھی ۔ وہاں کبھی سلیمان خطیب ہمیں ڈائرکٹ کرتے تھے اور کبھی ہم سلیمان خطیب کو ۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے ڈرامے ذرا مختلف ہوا کرتے تھے۔
گلبرگہ کالج کے ہاسٹل کے برابر میں ایک مالدار شخص کی کوٹھی تھی جس میں وہ اپنی اولاد کے علاوہ مرغیوں کو بھی پالتے تھے ۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اولاد کے مقابلے میں اُن کی مرغیاں زیادہ اچھی نسل کی تھیں۔اس لئے ہم ان کی اولاد سے کہیں زیادہ ان کی مرغیوں میں دلچسپی لیا کرتے تھے ۔ چنانچہ موقع ملتے ہی ہم اُن کی مرغیوں کو پکڑ کر کھاجاتے تھے اور ماشاء اللہ ہاسٹل کا کھانا کھانے کے باوجود ہماری صحت بہت اچھی رہتی تھی ۔ مگر یہ کم بخت مرغیاں اتنی چالاک تھیں کہ بڑی مشکل سے ہاتھ آتی تھیں۔ چار چار پانچ پانچ دن کے انتظار کے بعد کہیں جاکر ایک مرغی پکڑی جاتی تھی۔ ایک دن سلیمان خطیبؔ حسب معمول ڈرامے کو ڈائرکٹ کر رہے تھے کہ ایک مرغی خود بخود ہمارے ڈرامے میں شامل ہوگئی ۔ ہم ریہرسل کو چھوڑکر مرغی کے پیچھے بھاگے ۔ سلیمان خطیب نے ہدایت دی کہ ہم مرغی کا پیچھا چھوڑیں اور خواجہ احمد عباس کے ڈرامے سے مطلب رکھیں لیکن کچھ دیر بعد ہم نے سلیمان خطیب کو ہدایت دی اور انہیں مجبور کیا کہ وہ بھی مرغی کو پکڑنے میں ہماری مدد کریں۔  بادل ناخواستہ وہ مرغی پکڑنے کے ڈرامے میں ایک اداکار بننے پر راضی ہوگئے لیکن تھوڑی ہی دیر بعد انہوں نے اپنی اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ مرغی انہیں کے مبارک ہاتھوں سے پکڑی گئی ۔ مرغی پکائی گئی اور خوب مزے لے لے کر کھائی گئی ۔ جب مرغی کا ڈرامہ ختم ہوگیا تو میں نے کہا ’’خطیب بھائی خیال رہے مرغی آپ نے پکڑی ہے۔ شام کو جب پکڑ دھکڑ شروع ہوگی اور خدانخواستہ معاملہ پیچیدہ ہوجائے تو ہم لوگ آپ کا نام بتادیں گے۔ ‘‘بہت سٹپٹائے اور گھبرا گئے ۔ ان کا سٹپٹانا واجبی تھا۔ اس لئے کہ غالباً انہوں نے پہلی بار مرغی پکڑی تھی ۔ آدمی جب پہلی بار مرغی پکڑتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔ یہ سنتے ہی اچانک بپھرگئے اور بولے’’تم لونڈوں کو منہ لگانا بیکار ہے۔ تم لوگوں کی صحبت میں رہنا ہی غلط ہے اور پھر تیرے کو اتنا خیال نہیں آتا کہ میں تیرے بڑے بھائیوں کا ملنے والا ہوں‘‘۔ اس پر میں نے کہا ’’یہ ٹھیک ہے کہ آپ میرے بڑے بھائیوں کے ملنے والے ہیں لیکن اس کے باو جود یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ نے مرغی پکڑی ہے ۔ بڑے بھائیوں سے ملنا اور مرغی پکڑنا دو الگ الگ چیزیں ہیں‘‘۔
خیر جب ڈرامہ’’یہ امرت ہے‘‘ اسٹیج کیا گیا تو  میں نے اس میں ایک مزدور کا کردار ادا کیا جو ڈرامے کا سب سے اہم اور کلیدی کردار تھا۔ اب اپنے منہ سے اپنی تعریف کیا کروں۔ یہ کردار میں نے ایسی خوبی سے ادا کیا کہ سارا اپنڈال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ (یہ تالیاں مجھے اب بھی کبھی تنہائی میں صاف سنائی دیتی ہیں) اس وقت کی محبوب شاہی ملز کے مالک نے میری اداکاری سے متاثر ہو کریا پھر میرے کردار سے گھبراکر ایک سو روپیہ نقد انعام دینے کا اعلان کیا تھا ۔ ڈرامہ ختم ہو تو سلیمان خطیب نے مجھ سے کہا ’’پاشا ! اس میں سے آدھی رقم میرے کو دینا کیونکہ میں اس ڈرامے کا ہدایت کار تھا‘‘ ۔ میں نے کہا ’’اور وہ جو آپ نے مرغیاں کھائی تھیں تو وہ کس کھاتے میں جائیں گی‘‘۔

سلیمان خطیب سے میرے مراسم کی پہلی اینٹ اسی ڈرامے پر رکھی گئی تھی ۔ وہ ہمارے ڈرامے کے ڈائرکٹر تھے اور میں اس ڈرامے کا ایک کردار تھا ۔ اس کے بعد میں گلبرگہ سے حیدرآباد چلا آیا۔ میں انہیں برسوں ڈرامے کا ہدایت کار ہی سمجھتا رہا ۔ پھر 1960 ء کے آس پاس سلیمان خطیب ایک دکنی شاعر کی حیثیت سے ایسے مشہور ہوئے کہ مشاعروں میں تہلکہ مچادیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ’’سلیمان خطب وانٹیڈ‘‘ نہ صرف مشاعروں کا بلکہ دیگر سماجی محفلوں کا محبوب نعرہ بن گیا ۔ سلیمان خطیب کسی شادی میں شرکت کیلئے پہنچتے اور لوگ ادھر پکارنا شروع کردیتے ۔ ’’سلیمان خطیب وانٹیڈ‘‘ اور بیچارہ قاضی پریشان ہوجاتا۔
یہ لطیفہ نہیں ، حقیقت ہے کہ ایک بار سلیمان خطیبؔ ایک فلم دیکھنے گئے۔ انٹرویل ہوا تو وہاں کے تماشائیوں نے سلیمان خطیبؔ کو دیکھ لیا ۔ انٹرویل کے بعد فلم کچھ ایسی غیر دلچسپ ہوگئی کہ تماشائی جمائیاں لینے لگے ۔ ایسے میں کسی نے سامنے والی نشستوں سے نعرہ لگایا ’’سلیمان خطیب وانٹیڈ‘‘۔اس نعرے کے بعد وہ سچ مچ اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے اور اسٹیج کی طرف بڑھنا ہی چاہتے تھے لیکن انہیں سمجھا کے بلکہ اُن کی شیروانی کا دامن کھینچ کے انہیں پھر سے اپنی نشست پر بٹھا دیا گیا ۔ ورنہ وہ تو فلم کا حصہ بننے چلے تھے ۔1962 ء کے آس پاس میں نے بھی مزاح نگاری شروع کی ۔ سلیمان خطیب خوش ہوئے اور اس کے بعد ہم دونوں کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ ہوا جسے فارسی میں ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو ‘‘ والا معاہدہ کہتے ہیں۔ اگرچہ میں اس معاہدے پر کبھی سختی سے کاربند نہیں رہا لیکن سلیمان خطیب بڑی ایمانداری کے ساتھ معاہدے کے پہلے نصف حصہ یعنی ’’من ترا حاجی بگویم‘‘ پر قائم رہے۔ مزاح نگاری کے سلسلے میں مجھے اورسلیمان خطیب کو حیدرآباد ، بمبئی، دہلی اور پٹنہ اور ملک کے دیگر شہروں کی کئی ادبی محفلوںمیں کئی بار ایک ساتھ پیش ہونے کا موقع ملا۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ جہاں میں نثر کے حصے میں واجبی سی داد وصول کرلیتا تھا، وہیں شعر کی محفل میں سلیمان خطیب داد وصول کرتے کرتے تھک جاتے تھے ۔  جیسے ہی محفل ختم ہوتی تو سیدھے اُٹھ کر میرے پاس آتے اور کانا پھوسی کے انداز میں کہتے۔ ’’کیوں پاشا کیساچت کردیا بیٹوں کو ، ارے ہم دونوں کے سامنے کون ٹک سکتا ہے ، تو مزاحیہ نثر کا بادشاہ ! میں مزاحیہ شاعری کا بادشاہ ، کوئی سالا ہم سے آنکھ ملا کر بات نہیں کرسکتا ‘‘۔ یہ جملہ کہہ کر بچوں کی طرح خوش ہوتے ۔ انہیں یہ خوش فہمی تھی کہ ہم لوگ اچھے مزاح نگار بھی صرف اس لئے ہیں کہ ہمارا تعلق گلبرگہ سے ہے ۔ ان کے کلیے کے مطابق اگر کوئی آدمی اچھا مزاح نگار بننا چاہتا ہے تو اسے باہر سے آکر گلبرگہ میں پیدا ہونا چاہئے ۔ وہ اپنے اس کلیے کی اتنی تشہیر کرتے کہ کبھی کبھی تو مجھے بھی ان کا کلیہ درست معلوم ہونے لگتا۔

1972 ء میں جب میں دہلی میں رہنے لگا تو مجھے خیال آیا کہ سلیمان خطیب کو دہلی سے اور دہلی کو سلیمان خطیب سے روشناس کرانا چاہئے ۔ چنانچہ دہلی پہنچنے کے تین مہینے بعد ہی میں نے مسز سبھدرا جوشی کے رسالے ’’سیکولر ڈیموکریسی ‘‘ کے کارکنوں کو ورغلایا کہ وہ ہولی کے موقع پر ایک کل ہند مزاحیہ مشاعرہ منعقد کریں۔ میری بات مان لی گئی اور حیدرآباد سے کئی زندہ دل اور گلبرگہ سے سلیمان خطیب دہلی پہنچے۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں سلیمان خطیب کی دکنی شاعری دہلی والوںکے لئے بھاری نہ پڑجائے ۔ اس لئے میں نے مشاعرے میں ان کیلئے ماحول کو سازگار بنانے کی خاطر ایک لمبا چوڑا تعارف لکھ دیا ۔ لال قلعے کے سامنے یہ مشاعرہ تھا ، ہزاروں سامعین موجود تھے ، جن میں مرکزی حکومت کے کئی وزراء بھی شامل تھے ۔دہلی میں یہ ا پنی نوعیت کا پہلا مشاعرہ تھا۔ میں دل ہی دل میں سلیمان خطیب کے تعلق سے خوفزدہ تھا ۔ لمبے چوڑے تعارف کے بعد جب سلیمان خطیبؔ مائک پر آئے تو میں نے دم سادھ لیا ۔ میں یہ کہتا چلوں کہ سلیمان خطیب بہت اچھے اداکار بھی تھے ۔ جہاں شاعری سے کام چلنے کا امکان کم ہوتا وہاں شاعری سے پہلے ڈرامائی ماحول ضرور تیار کرتے۔ سلیمان خطیبؔ نے اس رات ڈرامہ اور شاعری دونوں کی صلاحیتوں کو کچھ اس طرح ہم آہنگ کیا کہ سارا پنڈال تالیوں اور قہقہوں سے گونجنے لگا۔ وہ بے پناہ داد وصول کر کے مائیک سے واپس آئے تو حسب معمول میرے پاس آئے اور بولے’’کیوں پاشاہ ! اب بول کیا بولتا ہے۔ لال قلعے پو گلبرگہ کا جھنڈا گاڑ دیانا‘‘۔ لال قلعے پر گلبرگہ کا جھنڈا گاڑنے والی بات انہوں نے یوں کہی جیسے کہنا چاہتے ہوں کہ ماضی میں ہمیشہ شمال والوں نے دکن پر حملہ کیا تھا اب کئی صدیاں گزرنے کے بعد لال قلعے پر دکن کا کامیاب حملہ ہوا ہے ۔ اس جملے کے ساتھ ہی مجھے ابوالحسن تانا شاہ، عبدالرزاق لاری اورحسن گنگو بہمنی اور نہ جانے کن کن کی یاد آگئی ۔
سلیمان خطیب کے اندر جہاں ایک بڑا شاعر بیٹھا ہوا تھا ، وہیں اس کے برابر ایک معصوم سا بچہ بھی بیٹھا ہوا تھا جو اُن سے بچوں کی طرح حرکتیں کرواتا تھا ۔ چھوٹی سی چھوٹی بات پرجذباتی ہوجاتے۔ ضد کرنے لگتے تو ضد ہی کرتے رہ جاتے ۔ انہیں اپنی شہرت کا نہ صرف احساس بلکہ ضرورت سے زیادہ احساس تھا۔ یہ سڑک پر جارہے ہوں اور راہ چلتی لڑکیوں میں سے کوئی لڑکی اپنی سہیلیوں سے کہہ دیتی کہ ’’یہ سلیمان خطیب ہیں‘‘ تو فوراً انہیں ’بریک‘ سی لگ جاتی ۔ گردن اکڑ جاتی ، ٹوپی کو اور ذرا ٹیڑھی کرلیتے لیکن اتنی زیادہ ٹیڑھی نہ کرتے کہ ان کے سرکا راز فاش ہوجائے۔ ان کی ایک عادت یہ تھی کہ ان کے پیٹ میں کوئی بات نہیں رہتی تھی ۔ کوئی بات انہیں معلوم ہوجائے تو وہ سارے شہر کو سنانے کیلئے نکل کھڑے ہوتے تھے ۔
کچھ سال پہلے ان کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ ڈاکٹروں نے شبہ کیا کہ شاید قلب پرحملہ ہوا ہے ۔ اس شبہ کا اظہار ہونا تھا کہ انہوں نے طبی معائنوں کا انتظار کئے بغیر سارے احباب کو خوشی خوشی مطلع کردیا کہ ’’مجھے ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے ‘‘۔ اخباروں میں یہ خبر بھی چھپ گئی ۔ بعد میں جب ڈاکٹروں نے تفصیلی طبی معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ ہارٹ اٹیک نہیں ہے ۔ بہت سٹپٹائے ۔ ڈاکٹروں کی منت سماجت کرتے رہے کہ خدا کیلئے اس راز کو فاش نہ کیجئے۔ ’ہارٹ اٹیک‘ کے عنوان سے کئی احباب میری مزاج پرسی کرچکے ہیں۔ اخباروں میں بھی یہ خبر چھپ گئی ہے ۔ اب اس مرحلے پر بیماری کی تبدیلی مناسب نہیں ہے ۔ ’ہارٹ اٹیک‘ ہی اچھی بیماری ہے اور اس میں لوگ بڑی بھرپور مزاج پرسی کرتے ہیں۔ بھلا کون آدمی ہوگا جو اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات کا اتنا پاس و لحاظ رکھتا ہو۔

سلیمان خطیبؔ عملی آدمی بالکل نہیں تھے ۔ دنیا اور دنیا داری کے تقاضوں سے بالکل بے نیاز ، مشاعروں میں شرکت کیلئے جاتے تو بڑی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے تھے ۔ ایک بار سری نگر کے مشاعرے میں شرکت کیلئے جاتے ہوئے دہلی میں مجھے پہلے سے اطلاع دے دی تھی کہ میں انہیں لینے اسٹیشن آجا ؤں ۔ دہلی کے اسٹیشن پر علی الصبح میں نے انہیں ریسیو کیا ۔ انہیں شام کی گاڑی سے جموں جانا تھا ۔ دوپہر تک آرام کیا۔ پھر اچانک انہیں ایک بات یاد آگئی ۔ بولے ’’پاشاہ ! ایک غلطی ہو گئی ۔ ارے میرا ٹکٹ جموں تک کا تھا ۔ مگر صبح میں نے دہلی کے اسٹیشن سے نکلتے ہوئے یہ ٹکٹ گیٹ کیپر کو دے دیا ۔ بھئی اب کیا کرنا بول ؟ ‘‘ میں بھاگا بھاگا اسٹیشن گیا ۔ تین گھنٹوں تک صبح میں جمع کئے گئے ٹکٹوں کی چھان بین کی گئی مگر اُن کا ٹکٹ نہ ملا۔ چارونا چار دوسرا ٹکٹ خریدا گیا اور وہ شام کی گاڑی سے جموں چلے گئے ۔ پورے ایک ہفتہ بعد سری نگر پر گلبرگہ کا جھنڈا لہرا کر واپس ہوئے تو دیکھا کہ اس بار مال غنیمت کے طور پر اپنے ساتھ کشمیری پھلوں کے پندرہ بیس ڈبے لے آئے ہیں ۔ میں نے کہا ’’اتنے سارے پھل کیوں لے آئے ۔ کیا پھلوں کی دکان کھولنے کا ارادہ ہے‘‘ بولے ’’ارے دوستاں اور بچے کھالیں گے رے ، رہنے دے ‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا سارے ڈبوں میں سیب ہیں؟ ‘‘ بولے ’’نہیں سات ڈبے چیریز کے ہیں‘‘۔ میں نے ماتھا پیٹ کر کہا ’’خطیب بھائی ! آپ کو شاید یہ پتہ نہیں ہے کہ چیریز ایسا پھل ہے جو ڈبے میں دو دن سے زیادہ محفوظ نہیں رہ سکتا۔‘‘ بولے ’’ میرے کو کیا معلوم رے ۔ میں تو تین دن پہلے ہی ان کی پیکنگ کرالیا تھا ‘‘۔ میں نے ایک ڈبہ کھولا تو دیکھا کہ چیریز گل کر پانی بن رہی ہیں، پھلوں کا یہ حشر دیکھ کر اداس ہوگئے ۔ سا رے ڈبے لے کر دہلی کی جامع مسجد کے سامنے پہنچے اور انہیں غریبوں میں بانٹنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ رات کاو وقت تھا ۔ اس وقت غریب بھی بڑی مشکل سے مل سکتے تھے ۔ ایک ایک کو نیند سے جگا جگا کر چیریز دیں۔ پھر بولے ’’چل پاشاہ ! پھل کام تو آگئے ۔ بیچارے غریباں کو دعا دیں گے ‘‘۔

وہ زندگی بھر بیل گنوا کے رسی لاتے رہے ۔ یہ ان کی نیک نیتی ہی تھی جس کے باعث وہ ایک وضع دار اور باوقار زندگی گزار سکے ورنہ وہ کاروباری آدمی بالکل نہیں تھے ۔ دوستوں کی مدد کرنے کا انہیں جنون تھا ۔
وہ خود تو مزاح نگار تھے ہی مگر قدرت بھی ان کے ساتھ ہمیشہ مذاق کرتی رہتی تھی۔ حمایت اللہ اس واقعہ کے راوی ہیں کہ زندہ دلان کے ایک مشاعرہ میں شرکت سے وہ محض اس لئے معذور تھے کہ ان کا عہدیدار انہیں حیدرآباد جانے کیلئے رخصت منظور کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے مشاعرے میںشرکت کی ایک ترکیب نکالی ، حمایت اللہ کو مشورہ دیا کہ وہ حیدرآباد سے کچھ ایسا ٹیلی گرام کریں کہ ان کا عہدیدار انہیں چھٹی دینے پر مجبور ہوجائے ۔ حمایت اللہ نے  اپنے قد کے حساب سے سوچا کہ خطیبؔ بھائی کی ساس صاحبہ غالباً اس دنیا سے گزرچکی ہیں۔ لہذا ان کی علالت کا تار کیوں نہ دیا جائے ۔ سو سلیمان خطیب کو تار بھی گیا اور وہ آ بھی گئے۔
اس ٹیلی گرام کے ملنے کے بعد سارے گھر میں کہرام مچ گیا ۔ سلیمان خطیبؔ کو یہ ثابت کرنے کیلئے کافی جستجو کرنی  پڑی کہ ٹیلی گرام اور ٹیلی گرام کی ساس دونوں مختلف اور فرضی ہیں ۔ رخصت تو خیر منظور ہوئی مگر حمایت اللہ سے کئی دنوں تک ناراض رہے کہ میری ساس کی جان کے پیچھے کیوں پڑا ہے۔ وہ اپنے سسرالی رشتے داروں کی بڑی عزت کرتے تھے ۔
اُن سے میری آخری ملاقات جنوری 1978 ء میں پٹنہ میں ہوئی ۔ صحت ان کی ٹھیک نہیں تھی ۔ عجیب عجیب سے دکھائی دیئے ۔ اکثر آنکھیں بند کئے بیٹھے رہتے۔ میرا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا ۔ میں نے کہا ’’خطیبؔ بھائی ! اب مشاعرے برخاست کیجئے ۔ اتنے لمبے سفر اب آپ کو نہیں کرنے چاہئیں۔ گلبرگہ کا جھنڈا بہت لہرا چکے‘‘۔
میری بات کے جواب میں انہوں نے کچھ نہ کہا ۔ صرف آنکھیں بند کر کے خاموش ہوگئے۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ وہ کچا پکا وعدہ اور مٹتی مٹتی آس بنتے جارہے ہیں۔ پھر رخصت ہوتے وقت کہا ’’پاشا گلبرگہ کب آئیں گا۔ اب کے حیدرآباد آیا تو گلبرگہ ضرور آنا‘‘۔
پچھلے دنوں ایک دن ’سیاست‘ کے ذریعہ یہ اطلاع ملی کہ سلیمان خطیبؔ بیمار ہیں۔ میں نے دہلی سے ٹرنک کال کر کے اپنے ایک دوست سے ان کی خیریت پوچھی ۔ پتہ چلا کہ اب طبیعت سنبھل رہی ہے لیکن اس کے دو دن بعد میں نے دوست کو پھر ٹرنک کال کیا ۔ دوست نے کہا ’’آپ نے ٹرنک کال کرنے میں بہت دیر کردی ۔ خطیبؔ بھائی کو دوسری دنیا کی طرف گئے، پورے 32 گھنٹے بیت گئے‘‘۔
اس اطلاع کو سننے کے بعد نہ دل پر بجلی گری ، نہ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا۔ بس اتنا ہوا کہ کیوڑے کا کانٹا کلیجے کے پاس چبھ گیا۔
مشاعروں میں سلیمان خطیب کی عادت یہ تھی کہ ایک نظم سنانے کے بعد فوراً مائیک سے پلٹ جاتے اور ایک دو قدم بڑھ کر سامعین کی طرف پیٹھ کر کے ایک لمحہ کیلئے رک جاتے تھے ۔ یہ اشارہ ہوتا تھا اس بات کا کہ صاحبو پھر سے مجھے بلاؤ ، مجھ سے پھرایک نظم سنو ۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے کسی مشاعرے میں یہ پوز دیا ہو اور لوگوں نے ’’ونس مور‘‘ کا شور بلند نہ کیا ہو۔
مجھے یقین ہے کہ زندگی کی محفل سے جانے سے پہلے سلیمان خطیب نے ضرور یہ ’’پوز‘‘ دیا ہوگا ۔ مگر یارو تم سے یہ غلطی کیسے ہوگئی کہ سلیمان خطیب کو واپس نہیں بلایا۔ سارا قصور تمہارا ہے ۔ تمہاری ذرا سی غفلت کے باعث دکنی زبان کا یہ البیلا اور خوددار شاعر اپنے ساتھ قہقہوں کی گٹھری باندھ کر اجنبی دیس کی دھرتیوں میں اتر گیا ہے ۔ اب تم اس کی آواز کیلئے ترستے رہ جاؤ گے ۔ اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔
(جنوری 1982 ء)