سقوط حیدرآباد کو مخالف مسلم ووٹ بنانے کی کوشش

 

تلنگانہ / اے پی ڈایری خیراللہ بیگ
سقوط حیدرآباد کو مخالف مسلم ووٹ بینک بنانے میں کوشاں بی جے پی نے تلنگانہ حکمراں پارٹی کے کندھوں پر بندوق رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے 17 ستمبر کو یوم آزادی تلنگانہ کو سرکاری طور پر منانے کے لئے دباؤ ڈالا تھا مگر ٹی آر ایس کے سربراہ اور چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے سیاسی دور اندیشی یا سیاسی مطلب براری سے کام لیا ہے۔ اقتدار پر آنے سے قبل کے چندرشیکھر راؤ بھی 17 ستمبر کو یوم آزادی تلنگانہ منانے کے حامی تھے لیکن اقتدار کی ذمہ داری سب کو ساتھ لے کر چلنے کا درس دیتی ہے اس لئے ان کی حکومت نے 3 سال پورے کرلئے اس کے بعد بھی انھوں نے 17 ستمبر کو یوم آزادی تلنگانہ سرکاری طور پر منانے سے گریز کیا۔ بی جے پی کو اس بہانے مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی کا موقع ملا ہے۔ زعفرانی پارٹی کے لئے آج کا دن ووٹ بینک کی سیاست کا اہم دن ہے۔ بعض مہینے اور تاریخیں کسی پارٹی کی ترقی میں خاص اہمیت اختیار کرجاتی ہیں جن کا بار بار تذکرہ ہوتا رہتا ہے اور حوالہ دیا جاتا ہے۔ دکن کی تاریخ میں 17 ستمبر فرقہ پرستوں کے لئے عروج و زوال کا حصہ بن گئی ہے۔ حیدرآباد دکن کے مسلمانوں نے اس تاریخ کو بہت کچھ کھویا ہے۔ عجب رنگ ڈھنگ ہیں زمانے کے ایک سیاسی بحران میں نئی نئی سازشیں رچائی گئی تھیں۔ عجیب طرح کی انہونیاں بھی وجود میں آئی تھیں اور ہمارے آینی و سرکاری اداروں نے مسلمانوں کو مشکل دور سے گزارا ہے۔ ایک طویل آزمائشی دور سے گزرنے کے بعد بھی مسلمانوں کو ہر وقت نئی آفت و سازشوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ اب نئی سازش اور آفت بی جے پی کی شکل میں اُبھر چکی ہے۔ ٹی آر ایس نے اس خصوص میں جو میدان تیار کیا تھا اس کا فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ تلنگانہ مسلح جدوجہد میں حصہ نہ لے کر بھی بی جے پی آج خود کو یوم آزادی تلنگانہ کی علمبردار بتانے کی کوشش کررہی ہے۔ تلنگانہ میں اپنے وجود کو مضبوط بنانے اور 2019 ء کے عام انتخابات سے قبل تلنگانہ کے سیاسی محاذ پر زعفرانی پرچم لہرانے کوشاں بی جے پی قیادت نے شمالی تلنگانہ میں خود کو بڑے پیمانے پر مصروف رکھا ہے۔ 17 ستمبر کو نظام آباد میں تلنگانہ ویموچنا و پولیس سنکلپ سبھا کے موقع پر مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔ بی جے پی نے ستمبر کے پہلے ہفتہ سے ہی تلنگانہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کی مہم شروع کی تھی کہ 17 ستمبر کو یوم آزادی تلنگانہ کو سرکاری طور پر منانے کا اعلان کرے اور اس دن نظام آباد میں ایک بڑا جلسہ منعقد کرکے بی جے پی کے خوابوں کو پورا کرنے میں سرکاری طور پر کھلی اعانت کرے۔ اس جلسہ عام سے راجناتھ سنگھ کے علاوہ دیگر بی جے پی قائدین خطاب کریں گے۔ اپنی تقریروں میں زیادہ سے زیادہ مخالف مسلم زہرافشانی کریں گے۔ اس جلسہ میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو لایا جارہا ہے جو بلاشبہ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کے لئے ایک بڑا جھٹکہ ہوگا۔ گزشتہ 3 سال سے مخالف عوام پالیسیوں پر عمل کرنے والی ٹی آر ایس حکومت کو آئندہ اقتدار سے محروم رکھنے کے لئے بی جے پی کوئی کسر باقی نہیں رکھے گی۔ بی جے پی نے اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط بنانے کے لئے تلنگانہ کے اہم مرکز نظام آباد کو حکمت عملی والا علاقہ تسلیم کیا ہے اور شمالی تلنگانہ میں جیسے نظام آباد، کریم نگر، ورنگل اور عادل آباد میں بی جے پی کو عوام سے قریب کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے۔ بی جے پی کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ نظام آباد میں اس کا ایک مضبوط کیڈر کام کررہا ہے۔ سیکولر پارٹیوں کے لئے بی جے پی کا یہ دعویٰ گمبھیر بحرانی کیفیت کا اشارہ دیتا ہے۔ ٹی آر ایس پارٹی نے عوام کے ووٹوں کی بے حرمتی کرتے ہوئے گزشتہ اسمبلی سے جس طرح کی حکمرانی کی ہے ایسے میں دوسری پارٹیوں کو اپنا مقام بنانے کا موقع مل گیا ہے۔ اپنی ناقص کارکردگی کے بعد عوام سے ووٹ لینے کے لئے دوبارہ عوام کے سامنے پہونچے گی تو ٹی آر ایس کو کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوام کے ووٹ کے تقدس کو اس کو احساس ہوگا۔ مسلمانوں کی ہمدردی سے محروم ہونے کا بھی اس کو ڈر لاحق ہوگا۔ یہ عوام کی ہی بدبختی ہے کہ انھیں آگے چل کر فرقہ پرستوں کے ہاتھ مضبوط کرنے والے حالات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کو 70 سال بعد بھی قومی زندگی میں اپنی شناخت کے لئے فرقہ پرستوں سے خطرات لاحق ہیں تو یہ سیکولر پارٹیوں پر بھروسہ کرنے کا نتیجہ ہی ہوسکتا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران کانگریس نے مسلمانوں کو اس معاشی، تعلیمی اور سماجی دنیا میں محض سوالی یا بھکاری بناکر رکھا اور مسلمان بھی اپجنا مستقبل سیاسی قرضوں کے عوض گروی رکھ چکے ہیں۔ بات سمجھنے کی فقط اتنی سی ہے کہ تلنگانہ کے مسلمانوں کو 17 ستمبر 1948 ء کے بعد سے سچی قیادت نصیب نہیں ہوئی۔ ان پر ہر دور میں ہر سیاسی قیادت نے اپنے مطلب کا لیبل لگاکر استعمال کیا ہے۔ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد بھی ٹی آر ایس حکومت نے مسلمانوں پر 12 فیصد تحفظات کا لیبل لگاکر اقتدار حاصل کیا اور اس لیبل کے بہانے بی جے پی نے اپنا کارڈ استعمال کیا۔ آج وہ اقتدار کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرنے والوں نے سیاسی طاقت کے ذریعہ دولت سازی، اقربا پروری، خوشامد نوازی، اصول کی نفی، عیش و عشرت کی سیاست کا ایسا ہنگامہ برپا کیا ہے کہ جو ساری اخلاقی، معاشرتی اور مسلم قدروں کو پامال کردیا ہے۔ مسلمانوں کے حصہ میں کچھ نہیں آیا۔ تلنگانہ بنانے میں اہم رول ادا کرنے کے باوجود مسلمان پیچھے ہی رہ گئے اور چیف منسٹر کی حیثیت سے کے چندرشیکھر راؤ نے مسلمانوں کو اپنے ایجنڈے کے لئے استعمال کیا۔ مسلمانوں کے بارے میں ان کی پالیسی سے ہٹ کر حکمرانی سطح پر اب تک انھوں نے جو بھی اسکیمات کو روبہ عمل لایا ہے اس میں کامیابی کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ وہ اپنی پالیسیوں میں اس طرح کا نفاذ پیدا کرتے جارہے ہیں کہ لوگوں کو گھن سی ہونے لگی ہے۔ تازہ پالیسی ہی دیکھ لیجئے۔ انھوں نے ریاست کے تمام اسکولی نصاب میں تلگو کو لازمی مضمون قرار دیا ان کا یہ فیصلہ بہترین اور قابل ستائش ہے اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک اور اہم فیصلہ کیا ہے جو اس ریاست کے عوام کے بڑے طبقہ کو تباہ کرسکتا ہے۔ انھوں نے تلگو کو اسکولی نصاب میں لازمی مضمون قرار دیا تو دوسری طرف شراب کی فروخت کے اوقات میں 11 بجے شب تک کا اضافہ کیا ہے۔ شراب فروخت کرنے کے اوقات میں اضافہ کا اطلاق یکم اکٹوبر سے کیا جائے گا۔ جی ایچ ایم سی کے تمام حدود میں یہ نافذ ہوگا۔ کے سی آر کی نئی اکسائز پالیسی سے شراب کو 11 بجے شب تک فروخت کرنے کی اجازت ملے گی۔ ریاست کے این جی اوز ریاست بھر میں شراب بندی کے لئے جدوجہد کررہی ہیں لیکن حکومت کی صحت ، دولت، معیشت کے برعکس فیصلے کررہی ہے۔