سفارت خانۂ ہند کا مشاعرہ

کے این واصف
ریاض کے شائقین شعر و ادب میں پچھلے چھ سال سے ایک خلش تھی کہ ریاض میں سالانہ مشاعرے کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے ۔ انڈین قونصلٹ جدہ اور سفارت خانہ ہند ریاض میں اس سالانہ کل ہند مشاعرے کے سلسلے کو شروع ہوئے دو دہائی سے زائد کا عرصہ ہوگیا ۔ انڈین قونصلٹ جدہ نے اس سلسلے کو کبھی ٹوٹنے نہیں دیا ۔ مگر سفارت خانہ ہند ریاض اس سلسلے کو برقرار نہ رکھ سکا ۔ اس کی وجہ نہ اردو دشمنی ہے نہ اہل ذوق حضرات کے ساتھ ناانصافی کا معاملہ بلکہ اردو کو جب جب نقصان پہنچا بدنصیبی سے خود اردو والوں کی وجہ سے پہنچا ۔ اردو والوں کی اپنی زبان کے تئیں عدم دلچسپی ، اپنی زبان کی بقا کی فکر سے لاتعلقی ، زبان کے باقی رہنے کی اہمیت اور اس کے معدوم ہوجانے کے نقصانات سے بے فکری وغیرہ وغیرہ اس کی اہم وجوہات ہیں ۔ ایمبسی کے مشاعرے کا سلسلہ منقطع ہونے میں اس قسم کے مزاج رکھنے والے اہل اردو عہدیداران سفارت خانہ ہند کا ہاتھ ہے ۔ قونصلٹ اور ایمبسی کے زیر اہتمام سالانہ کل ہند مشاعرے کی ابتداء ایک محب اردو اور شعر و ادب کا اعلی ذوق رکھنے والے سفارت کار ذکر الرحمان (موجودہ ڈائرکٹر انڈوعرب کلچرل سنٹر نئی دہلی) کے یہاں برسرکار رہتے ہوئے ہوا تھا ۔ اور اس سلسلے کو 2004 سے آج تک جاری رکھنے کا سہرا سفارت خانہ ہند کے سکریٹری ڈاکٹر حفظ الرحمان کے سر جاتا ہے ۔ سچ کہتے ہیں انسان اگر کچھ کرنے کی ٹھان لے تو راستے خود بخود کھلتے ہیں ۔ اور کاہل اور نا اہل لوگ جو ذمہ داریوں سے دامن چراتے ہیں ان کیلئے ہزار حیلے بہانے ہوتے ہیں ۔ انڈین کمیونٹی کے مقبول ترین سفارت کار ڈاکٹر حفظ الرحمان ایک مشین کی طرح مسلسل کام کرتے ہیں  ۔ اپنی دفتری ذمہ داریوں کے علاوہ کمیونٹی تقاریب میں کثرت سے شرکت کرتے ہیں ۔ سفارت خانے کی جانب سے انڈین کمیونٹی کی تفریح طبع کیلئے منعقد کئے جانے والے تہذیبی ، ادبی و ثقافتی پروگرامس میں بھی وہ ہمیشہ پیش پیش نظر آتے ہیں ۔ نیز ادھر وزیراعظم اور وزیر خارجہ ہند جب جب کسی عرب ملک کے دورے پر جاتے ہیں وہاں ڈاکٹر حفظ الرحمان ان کے مترجم کے طور پر موجود رہتے ہیں ۔

ریاض میں سالانہ مشاعرے کے سلسلے کے منقطع ہونے کی وجہ ڈاکٹر حفظ الرحمان کی ریاض میں غیر موجودگی تھی ۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ سرکاری عہدہ دار پر تین سال بعد تبادلے کی راہ پر نکل جاتے ہیں ۔ حفظ الرحمان نے اب تک سعودی عرب میں دو طویل میعادیں گزاری ہیں اور وہ تیسری میعاد کیلئے پھر سے ریاض میں متعین کئے گئے ہیں ۔ اب ان کی آمد کے ساتھ ہی شائقین شعر و ادب کو یقین ہوگیا تھا کہ بس اب مشاعرے کا سلسلہ پھر سے شروع ہوجائے گا ۔ اور پھر ہوا بھی ایسا ہی کہ سفارت خانہ ہند ریاض نے پچھلی جمعرات کی شب کل ہند مشاعرے کا انعقاد عمل میں لایا ۔ اس بار ڈاکٹر حفظ الرحمان نے ایک نیا تجربہ کیا جو بے حد کامیاب رہا ۔ ہندوستان میں چند شعراء مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت مانے جاتے ہیں لیکن اس سال کے سفارت خانہ کے مشاعرے کیلئے جن شعراء کو مدعو کیا گیا تھا ان میں سے ایک بھی نام شامل نہیں جن کو مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت مانا جاتا ہے ۔ اس سال مدعو کئے گئے 14 شعراء میں صرف پانچ شاعر ایسے تھے جو اس سے قبل بھی سفارت خانے کے مشاعرے میں شرکت کرچکے تھے ۔ باقی سارے پہلی مرتبہ ریاض آئے تھے ۔ یہ 14 شعراء مشاعروں کی کامیابی کیلئے شہرت رکھتے ہیں ۔ مگر شعراء نے اس محفل کو ایسی تاریخی کامیابی عطا کی جسے اہل ریاض برسوں یاد رکھیں گے ۔ ہر شاعر اپنی جگہ کامیاب یا کامیاب ترین شاعر رہا ۔

مشاعرے کی تاریخ میں کم از کم ہم نے پہلی بار یہ دیکھا کہ داد و تحسین پیش کرنے کیلئے سارے سامعین کھڑے ہو کر تالیوں کی گونج میں ان کی ستائش کررہے ہیں ۔ اس مشاعرے کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس مشاعرے میں اردو دنیا میں نظم و نثر کی بلند پایہ و معروف ترین شخصیت محترمہ ترنم ریاض کو اس کی صدارت سونپی گئی تھی ۔ جس کی وہ حقدار بھی تھیں ۔ ہم یہ بات خاتون شعراء سے معذرت کے ساتھ کہیں گے کہ ہمارے مشاعروں میں خاتون شعراء کو اسٹیج کی زینت یا رونق کیلئے مدعو کیا جاتا ہے ۔ مگر اس مشاعرے میں ترنم ریاض کے علاوہ جو دو دیگر خاتون شاعرات مدعو تھیں ان میں سینئر شاعرہ حنا تیموری اور نصرت مہدی شامل تھیں ، جو مشاعروں میں اپنی شاعری سے سامعین کو متاثر کرتے ہیں نہ کہ اپنے میک اپ اور لباس سے ۔
اس مشاعرے کے دعوت نامے میں جملہ 15 نام شائع کئے گئے تھے جس میں حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے معروف مزاحیہ شاعر شاہد عدیلی بھی تھے جو کسی وجہ سے ریاض پہنچ نہ پائے ۔ باقی  14 شعراء جنہوں نے شرکت کی ان میں اختر گوالیاری ، ندیم صدیقی ، عالم خورشید ، مختار یوسفی ، شکیل اعظمی ، عقیل نعمانی ، شکیل جمالی ، ملک زادہ جاوید  ،محشر آفریدی ، افضل منگلوری اور سہیل لکھنوی شامل تھے جبکہ خاتون شعراء میں ڈاکٹر ترنم ریاض  ، حنا تیموری اور نصرت مہدی شامل تھیں ۔
اس مشاعرے کی ایک اور قابل ذکر بات یہ تھی کہ 12 سے 15 سے سامعین کا یہ مجمع ایک بھیڑ نہیں بلکہ شعر و ادب کا اعلی ذوق رکھنے والے ، مشاعرے کے آداب سے واقف سامعین تھے ۔ جو ہر اچھے شعر کی بھرپور داد دے رہا تھے ۔ اس طرح شعرا نے سامعین کو اور سامعین نے اپنی ذوق سماعت سے شعراء کو متاثر کیا۔ پانچ گھنٹے مسلسل چلی اس محفل نے سامعین ریاض کو اتنا محظوظ کیا کہ لگا 6 سال کی کسر پوری ہوگئی ۔

ابتداء میں اس مشاعرے کے روح رواں ڈاکٹر حفظ الرحمان نے خیر مقدم کیا اور دلچسپ انداز میں شعراء کا تعارف پیش کرتے ہوئے انھیں یکے بعد دیگرے اسٹیج پر مدعو کیا ۔ جس کے بعد قائم مقام سفیر ہند ہیمنت کوٹلوال نے مختصر طور پر مخاطب کیا اور روایتی شمع روشن کرکے مشاعرے کا افتتاح کیا ۔
مشاعرے کا آغاز نعت رسول پاکؐ سے ہوا جسے پیش کرنے کی سعادت عقیل نعمانی نے حاصل کی ۔ آخر میں ڈاکٹر حفظ الرحمان کے ہاتھوں شعراء کو یادگاری تحائف پیش کئے گئے ۔ ڈاکٹر حفظ الرحمان کے ھدیہ تشکر پر یہ محفل رات ڈھائی بجے اختتام پذیر ہوئی
مہمان شعراء کی تہنیتی تقریب
ہندوستانی بزم اردو ریاض نے حسب روایت سفارت خانہ ہند کے مشاعرے کیلئے ہندوستان سے مدعو کئے گئے شعراء کے اعزاز میں ایک تہنیتی تقریب کا اہتمام کیا ۔ ان مہمان شعراء میں سہیل لکھنوی ، محشر عابدی ، افضل منگلوری ، ملک زادہ جاوید ، محترمہ حنا تیموری ، شکیل جمالی ، محترمہ نصرت مہدی ، ندیم صدیقی ، مختار یوسفی ، عقیل نعمانی ، عالم خورشید  ،اختر گوالیاری ، شکیل اعظمی اور محترمہ ڈاکٹر ترنم ریاض شامل تھے ۔

محفل کا آغاز حافظ و قاری علیم الدین کی قرأت کلام پاک سے ہوا ۔ محمد مبین کے ابتدائی کلمات کے بعد صدر بزم اردو ریاض رحمان سلیم نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور مختصر طور پر بزم اردو کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ۔ انھوں نے کہا کہ بزم اردو ادباء ، شعراء اور اردو کی قدآور ہستیوں کی آمد پر ان کے اعزاز میں تہنیتی تقاریب کا اہتمام کرتی ہے ۔ اس کے علاوہ نئی نسل میں اردو سے ناواقف افراد کیلئے اردو سکھانے اور اردو میں تقریری صلاحیتیں پیدا کرنے کیلئے ہفتہ وار اجلاس کا انعقاد عمل میں لاتی ہے ۔اس کے علاوہ بزم ادباء و شعراء کے مجموعہ کلام کے اشاعت کی ذمہ داری بھی لیتی ہے۔ انھوں نے برسرموقع ہندوستان سے آئے ہوئے بزرگ شاعر اختر گوالیاری کے مجموعہ کلام کی اشاعت کی مالی اعانت کیلئے طباعت کی درکار رقم انھیں پیش کردی ۔

اس محفل کے مہمان خصوصی ڈاکٹر حفظ الرحمان سیکنڈ سکریٹری سفارت خانہ ہند نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ جمعرات کی شب منعقد مشاعرے نے ایک نئے تاریخ رقم کی ۔ انھوں نے کہا یہ محفل مشاعرہ ایک کامیاب ترین محفل تھی اور اس کی کامیابی کا سہرہ ریاض کے باذوق سامعین کے سر جاتا ہے  ۔ انھوں نے اس موقع پر ریاض کی مختلف انجمنوں کے اراکین اور سفارت خانہ ہند میں ان کے رفقائے کار کے تعاون کاشکریہ بھی ادا کیا جن کی شبانہ روز کی محنت نے اس مشاعرے کو کامیابی سے ہمنکنار کیا ۔ اس موقع پر ببئی سے تشریف لائے صحافی ارو نامور شاعر ندیم صدیقی نے کہا کہ بزم اردو ریاض اور اس جیسی ساری انجمنیں قابل قدر ہیں جو اپنی زبان کی ترقی و ترویج میں اپنا حصہ ادا کررہی ہیں ۔ صدیقی نے کہا کہ وقت کی اہم ضرورت نئی نسل میں اردو منتقل کرنا ہے ۔ لہذا محبان اردو اس کام کو اپنی پہلی ترجیح پر رکھیں ۔ کیونکہ اردو کے نئے پڑھنے  ،لکھنے والے پیدا ہوں گے تو ہی اردو کی بقا  اور ترقی یقینی ہوگی ۔ جموں و کشمیر سے تشریف لائیں معروف ادیبہ و شاعرہ محترمہ ترنم ریاض نے اس محفل سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستانی بزم اردو ریاض کی سرگرمیوں کی ستائش کی اور انھوںنے اردو کے کاز کیلئے اپنے اوقات صرف کرنے والے حضرات کی بیویوںکا شکریہ ادا کیا جو اپنے شوہروں کو ملازمت کی ذمہ داریوں کے بعد اردو کی ترقی و ترویج کی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور وقت دینے پر کوئی اعتراض نہیں کرتیں ۔ ترنم ریاض نے ان خواتین کے جذبہ ایثار کی خوب ستائش کی ۔آخر میں تمام مہمان شعراء کو مختلف سماجی کارکنان کے ہاتھوں تحائف پیش کئے گئے ۔ انڈین کمیونٹی کی معروف شخصیت میر مظفر علی ، محمد جمیل ، محمد قیصر تنظیم ہم ہندوستانی ، ڈاکٹر دلنواز رومی ، ڈاکٹر دلشاد احمد ، غوث ارسلان ، انجینئر سہیل احمد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن  ،ڈاکٹر مصباح العارفین ، مظفر انصاری ، محمد مبین ، عبدالقدوس جاوید  ،عبدالاحد صدیقی ، خاتون شعراء میں مسز حفظ الرحمان  مسز شہباز فاروقی اور عطیہ فاطمہ نے تحائف پیش کئے ۔
knwasif@yahoo.com