سعید بن محمد نقشؔ

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
ادیبوں اور فنکاروںکی اولادِ معنوی اور اولادِ حقیقی میں خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے ۔ فنکار کی اولاد حقیقی ، فنکار کی اولاد معنوی کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی لیکن پچھلے ہفتہ ہم حیدرآباد میں تھے تو پتہ چلا کہ حیدرآباد کے ممتاز آرٹسٹ سعید بن محمد نقشؔ مرحوم کے بچوں نے ان کی تصویروں کی نمائش کا اہتمام کیا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود سعید بن محمد کی زندگی میں ان کی تصویروں کی کوئی نمائش الگ سے منعقد نہ ہوسکی تھی ۔ ان کو ہم جیسے مدّاحوں نے بہت اُکسایا بھی کہ اپنی پینٹنگس کی نمائش کیجئے لیکن مرحوم کسی طرح راضی نہ ہوئے۔ ہماری قوم کا حافظہ یوں بھی خاصا خراب واقع ہوا ہے ۔ کیسے کیسے فنکاروں، دانشوروں اور ادیبوں کو ہم دیکھتے ہی دیکھتے بھُلا بیٹھتے ہیں۔ ابھی بارہ تیرہ برس پہلے تک سعید بن محمد ہمارے درمیان تھے ۔ اپنی تصویروں ، اپنی باتوں اور اپنے انوکھے عمل سے ہم سب کا دل موہ لیتے تھے ۔ اُن دنوں حیدرآباد میں آرٹ ، کلچر اور ادب کی گاڑی جن پہیوں کی مدد سے چلتی تھی ان میں سے ایک پہیہ خود سعید بن محمد تھے۔ نہایت منکسرالمزاج ، نہایت خلیق اور ملنسار ، نام و نمود سے بے نیاز ، ظاہری طمطراق سے بے پرواہ ، ان کی ذات میں جو سادگی اور پرکاری تھی وہی ان کے فن میں بھی نمایاں تھی۔

12 جنوری کو حیدرآباد کی ونائک آرٹ گیلری میں سعید بن محمد کی تصویروں کی نمائش دیکھنے گئے تو یوں سمجھئے ان سب شخصیتوں سے ملاقات ہوگئی جن سے حیدرآباد جانا اور پہچانا جاتا ہے ۔ آرٹسٹوں میں ودیا بھوشنؔ ، عزیزؔ، سوریہؔ پرکاش ، لکشماؔ گوڑ ، شیشؔ گیر راؤ ، اے شریفؔ ، سوزی تاروؔ، جگدیشؔ متل اور عقیلؔ وغیرہ تھے ۔ ادیبوں اور شاعروں میں مغنی تبسم ، جیلانی بانو، انور معظم ، راشد آزر ، ایم ٹی خاں ، قدیر زماں و غیرہ تھے، سیاسی اور سماجی ہستیوں میں ڈاکٹر راج بہادر گوڑ ، اندرادھن راج گیر ، شیشندر شرما ، کے ایل مہندرا، جواد رضوی، خیرالدین صدیق آرکیٹکٹ تھے ۔ سعید بن محمد کے مدّاحوں کی اتنی بھیڑ تھی کہ اگر مرحوم آج زندہ ہوتے  تو ان سب کو اکٹھا دیکھ کر اپنے فن کی عظمت کے ضرور قائل ہوجاتے ۔ مرحوم کی عادت تھی کہ جب بھی کوئی ان کے فن کی تعریف کرتا تو اسے دوسری باتوں میں اُلجھا دیتے تھے اور اپنی  ذات کو زیر بحث نہ آنے دیتے تھے ۔ استغنا اور اپنی ذات سے ایسی بے تعلقی ہم نے بہت کم فنکاروں میں دیکھی ۔ عمروں کے فرق کے باوجود مرحوم سے ہمارے نہایت بے تکلفانہ تعلقات تھے ۔ سعید بن محمد نے اس زمانہ میں حیدرآباد میں اپنی مصّوری کا آغاز کیا جب یہاں کوئی کالج آف آرٹ بھی نہیں تھا ۔ محض اپنی شخصی لگن ، ریاض اور جستجو کی بناء پرسعید بن محمد نے ہندوستانی آرٹ میں وہ مقام حاصل کیا جو بہت کم کو نصیب ہوتا ہے ۔ کلاسیکی مصوری کی روایات کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے انہوں نے مصوری کے میدان میں کئی تجربے بھی کئے۔

اب سعید بن محمد کو یاد کرنے بیٹھے ہیں تو اُن کے ساتھ گزارے ہوئے کئی لمحات یاد آنے لگے ہیں۔ انہوں نے بہت عرصہ پہلے ’’تانگہ ریس‘‘ کے عنوان سے ایک پینٹنگ بنائی تھی ۔ اس تصویر میں تانگوں کی ریس کو دکھایا گیا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں ہوسکتی ہے لیکن اس ریس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ تانگوں کی یہ ریس حیدرآباد میں ہورہی ہے۔ اس تصویر کے بارے میں انہوں نے ہماری رائے پوچھی تو ہم نے دست بستہ عرض کی’’اس تصویر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں حرکت ہی حرکت ہے۔ اس  میں نہ صرف گھوڑے اور تانگے دوڑ رہے ہیں بلکہ آس پاس کا سارا ماحول دوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ مجھے تو اس تصویر میں آرٹسٹ کے سوائے ہر کوئی بھاگتا ہوا دکھائی دے رہا ہے‘‘۔

ہنس کر بولے ۔ ’’پیارے ! اس میں جو تیز رفتار حرکت ہے وہ گھوڑوں کی تھوڑی ہے۔ آرٹ کی ہے ۔ میں ہی تو وہ حرکت ہوں ۔ اس حرکت کو اس پینٹنگ میں سے نکال دو تو صرف کاٹھ کے گھوڑے باقی رہ جائیں گے‘‘۔ اس وقت تو سعید بن محمد کے استدلال پر ہنسی آگئی تھی لیکن بہت بعد میں مشہور ناول نویس ایلیا اہرن برگ کا ایک واقعہ کہیں پڑھا تو سعید بن محمد کی بات کا قائل ہونا پڑا ۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایلیا اہرن برگ پیرس میں اپنے ایک آرٹسٹ دوست کے ہاں مقیم تھے ۔ آرٹسٹ نے انہیں اسٹوڈیو دکھایا۔اس میں ایک پینٹنگ ہاتھی کی بھی تھی ۔ اہرن برگ اس تصویر کو دیکھ کر مسکرائے اور بولے ’’یوروپ میں ہاتھی نہیں ہوتا۔ اس لئے تمہیں شاید نہیں معلوم کہ ہاتھی کے دانت خمدار ہوتے ہیں۔ تم نے انہیں سیدھا پینٹ کردیا ہے‘‘۔ آرٹسٹ نے مُسکراکر ان کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا ’’آپ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے تصویر میں ترمیم کردوں گا‘‘ دوچار برس بعد اہرن برگ پھر پیرس آئے اور اسی آرٹسٹ دوست کے ہاں مقیم ہوئے ۔ دوست انہیں پھر اپنا ا سٹوڈیو دکھانے لے گیا ۔ ہاتھی کی پینٹنگ اب بھی وہاں موجود تھی، اہرن برگ اس پینٹنگ کے سامنے رُکے اور بولے ۔ ’’مجھے اس پینٹنگ میں فن کہیں نظر نہیں آتا‘‘۔ اس پر آرٹسٹ نے کہا ’’حضور! کچھ برس پہلے آپ ہی نے مشورہ دیا تھا کہ ہاتھی کے دانت خمدار ہوتے ہیں۔ چنانچہ آپ کے مشورہ کے مطابق میں نے اس کے دانتوں کو خمدار بنادیا ہے ۔ گویا میں نے اس ہاتھی میں سے اپنا فن یا اپنی انفرادیت نکال دی ۔ اب یہ صرف ہاتھی باقی رہ گیا ہے ۔ آپ اب اس میں فن کو کیوں تلاش کر رہے ہیں‘‘۔

اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد ہمارا یہ یقین پختہ ہوگیا ہے کہ آرٹسٹ جب کسی شخصیت کا پورٹریٹ بھی بناتا ہے تو اس میں اپنی شخصیت کے نقوش کو بھی شامل کردیتا ہے ۔ آپ حیرت کریں گے کہ اندرا دھن راج گیر کا جو بے مثال پورٹریٹ سعید بن محمد نے بنایا ہے اس میں بھی ہمیں سعید بن محمد کے نقش زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ دور کیوں جائیے ہمارے دوست عزؔیزگھوڑوں کی پینٹنگس کیلئے ساری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں لیکن ان کی شہرت صرف گھوڑوں کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان گھوڑوں میں جو ’’عزیز‘‘ شامل ہے ، اس کی وجہ سے ان گھوڑوں کی انفرادیت قائم ہے ورنہ نرے گھوڑے تو آپ کو ہر جگہ مل جائیں گے۔

غرض سعید بن محمد نے جو بھی پینٹنگس بنائیں ان پر اپنی فنکارانہ انفرادیت کی چھاپ چھوڑی ۔ مرحوم آخر وقت تک آرٹ کے میدان میں سرگرم عمل رہے ۔ وہ کبھی کبھی دلچسپ تجربات بھی کرتے رہتے تھے۔ ایک زمانہ میں انہوں نے حیدرآباد کے ہفتہ وار ’’برگ آوارہ‘‘ میں ادیبوں اور شاعروں کے دستخطوں کی بنیاد پر تصویریں بنانے کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ ادیب صرف دستخط کردیتا تھا اور سعید بن محمد اس دستخط کو برقرار رکھتے ہوئے کوئی نہ کوئی شکل بنادیتے تھے ۔ ہمیں یاد ہے کہ انہوں نے ہمارے دستخط کو بنیاد بناکر شیر کی شکل بنادی تھی ۔ دستخط کے نقوش بھی برقرار تھے اور دوسری طرف شیر بھی دہاڑ رہا تھا ۔ چند دنوں بعد انہوں نے ہمارے دوست شاذ تمکنت کے دستخط کو تختہ مشق بنایا اور اس میں سے ایک ’’چوہے‘‘ کی شکل برآمد کی۔ شاذ تمکنت نرگسیت کی حد تک خود آرا اور خود بین تھے ۔ سخت ناراض ہوئے کہ سعید بن محمد نے ان کے دستخط میں سے چوہا کیوں برآمد کیا ۔ اُن کا اصل اعتراض تو یہ تھا کہ سعید بن محمد نے ایک مزاح نگار کے دستخط میں سے شیر کو برآمد کیا اور دوسری طرف ان جیسے طرحدار شاعر کے دستخط میں سے چوہے کو برآمد کیا ۔ سعید بن محمد سے شاذ تمکنت کی یہ ناراضگی ایک عرصہ تک برقرار رہی ۔ ایک دن اورینٹ ہوٹل میں شیر اور چوہا (یعنی ہم اور شاذ تمکنت) دونوں بیٹھے تھے کہ سعید بن محمد آگئے ۔ شاذؔ نے شیر کی طرح دہاڑتے ہوئے اُن سے شکایت کی ۔ آپ نے میرے دستخط میں سے ’’چوہا‘‘ کیوں برآمد کیا ۔ اگر جانور ہی کو برآمد کرنا تھا تو کسی اچھے جانور کو برآمد کرتے ۔ بتایئے میری  ذات اور میری شاعری سے چوہے کا کیا تعلق ہے؟
ہم نے موقع کی نزاکت کو بھانپ کر مداخلت کرتے ہوئے شاذ سے کہا ’’ چونکہ تم ہمیشہ اپنی ذات کے بل میں گھسے رہتے ہو اس لئے چوہے سے تمہاری شخصیت کا راست تعلق بنتا ہے‘‘۔ شاذؔ نے غصہ سے کہا ’’اور وہ جو تمہارے بد وضع دستخط کی ہڈیوں کے آگے شیر کھڑا دہاڑ رہا ہے تو اس کا تمہاری شخصیت سے کیا تعلق ہے؟‘‘

ہم نے کہا ’’اس تصویر شیر دہاڑ کہاں رہا ہے وہ تو صرف قہقہے لگا رہا ہے‘‘۔ شاذ نے کہا ’’بیوقوفی کی باتیں مت کرو ۔ شیر بھی کہیں قہقہے لگاتا ہے؟ ‘‘ ہم نے کہا ’’شیر قہقہے نہیں لگاتا مگر میرے دستخط والے شیر کو دیکھو تو تمہیں پتہ چلے گا کہ مذ کورہ شیر سعید بھائی کے فن پر لگاتار قہقہے لگارہا ہے اور تمہارے دستخط کا چوہا سعید بھائی کو حیرت سے دیکھ رہا ہے ۔ ذرا اس کی شکل تو دیکھو ۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا اسی کو تو کہتے ہیں‘‘۔ اس بات کو سن کر سعید بن محمد اور شاذ تمکنت دونوں اچانک ہنس پڑے اور دونوں کی ناراضگی ختم ہوگئی ۔ سعید بن محمد زندگی بھر اردو ادیبوں اور شاعروں میں گھرے رہے ۔ مخدوم محی الدین اور سلیمان اریب سے اُن کے گہرے مراسم تھے ۔ ایک رات ہم اور سعید بن محمد سلیمان اریب کے گھر بیٹھے تھے کہ اچانک مخدوم محی الدین وہاں آگئے ۔ تھوڑی دیر بعد سعید بن محمد ، مخدوم محی الدین سے اس مسئلہ پر بڑی طرح الجھ گئے کہ شاعری موثر ذریعہ اظہار ہے یا آرٹ ۔ مخدوم محض سعید بن محمد کو مشتعل کرنے کی غرض سے شاعری کی بے پناہ تعریف اور آرٹ کی مذمت کر رہے تھے۔ مخدوم کا کہنا تھا کہ الفاظ میں کسی خیال کو جس قدر موثر انداز میںاور جتنی تفصیل کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہے وہی خیال برش اور رنگ کے ذریعہ کینوس پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔
سعید بن محمد جوش میں بولے’’میں ہر شعر کو پینٹ کرسکتا ہوں۔ ایک ایک لفظ کو کینوس پر ایک جسم عطا کرسکتا ہوں‘‘۔
مخدوم نے کہا ’’اچھا یہ بتاؤ تم اس مصرعہ کو کس طرح پینٹ کروگے۔
’’پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے ‘‘۔

سعید بن محمد اتنے آسان مصرعہ کو سن کر بہت خوش ہوئے اور بولے ۔ ’’یہ کونسی مشکل بات ہے ۔ میں اس مصرعہ کو کینوس پر پیش کرنے کیلئے ایک پنکھڑی بنادوں گا گلاب کی ‘‘ یہ کہہ کر سعید بن محمد خاموش ہوگئے اور سوالیہ نظروں سے مخدوم کو دیکھنے لگے۔
مخدوم نے کہا ’’خاموش کیوں ہوگئے۔ آگے بڑھو۔ ابھی تو تم نے صرف آدھا مصرعہ ہی پینٹ کیا ہے ۔ پورے مصرعہ کو پینٹ کرو‘‘۔
سعید بن محمد بولے ’’مصرعہ تو پورا پینٹ ہوگیا ‘‘۔ مخدوم بولے ’’ابھی تو ’سی‘ کو پینٹ کرنا باقی ہے‘‘۔سعید بن محمد غصہ سے بولے ۔ ’سی‘ بھی بھلا کوئی پینٹ کرنے کی چیز ہے؟ ‘‘ مگر مخدوم نہ مانے اور بار بار اصرار کرتے رہے کہ سعید صاحب مصرعہ کے ’’سی‘‘ کو پینٹ کریں کیونکہ مصرعہ کی اصل جان تو وہی ہے ۔ گلاب کی پنکھڑی نہیں‘‘۔ اس استدلال کے جواب میں سعید بن محمد مشتعل ہوکر وہاں سے چلے گئے ، لیکن بعد میں اسی ’’سی ‘‘ کے آگے اپنی شکست تسلیم کرلی اور خود شاعری کرنے لگے اور ’’نقش‘‘ تخلص اختیار کیا۔
سعید بن محمد بلا شبہ ایک عظیم فنکار تھے جن پر حیدرآباد ناز کرسکتا ہے ۔ سعید بن محمد کے بیٹے حامدؔاور بیٹی جمیلہ نشاط قابل مبارکباد ہیںکہ انہوں نے بڑی بھاگ دوڑ کے بعد سعید بن محمد کی پینٹنگس جمع کیں اور اُن کی نمائش کا اہتمام کیا۔
(جنوری 1995 ء)