سعودی عرب کے مطابق ہندوستان میں روزہ اور عید کرنا

سوال :  کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ کچھ مقامی نوجوان سعودی عرب کے رویت ہلال پر عمل کرتے ہوئے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ شروع کردیتے ہیں اور اسی طرح عید بھی وہاں کے ا عتبار سے مناتے ہیں ، یہ دلیل دیتے ہو ئے کہ مطلع ایک ہی ہے ۔ لہذا دنیا میں جہاں بھی چاند نظر آئے باقی دنیا کے تمام مسلمانوں کو اسی کے مطابق روزہ اور عید کرنا چاہئے ۔ ان کا یہ عمل ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ہوتا ہے جبکہ یہاں کروڑوں مسلمان مقامی رویت ہلال کمیٹی کے مطابق روزہ اور عید مناتے ہیں۔ ان نوجوانوں کا یہ عمل امت میں انتشار کا سبب بن رہا ہے کیونکہ تمام مسلمان رو زہ سے ہوتے ہیں اور یہ لوگ عید مناتے ہیں اور تمام مسلمان رمضان المبارک کا انتظار کرتے ہیں اور یہ لوگ ایک دو دن پہلے ہی روزہ شروع کرتے ہیں اور یہ لوگ دوسرے سبھی علم اء و جماعتوں کو غلط ٹھہراتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے مطابق ان کا یہ عمل کیسا ہے ۔
تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔ امت کے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے ان نوجوانوں کو کچھ نصیحت بھی فرمائیں ؟
نام …
جواب :  اختلاف مطالع ثابت ہے ۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حدیث شریف صوموالرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ کے تحت ہندوستان میں جب چاند نظر آئے ، رمضان شروع ہوگا اور شوال کا چاند نظر آتے ہی روزہ ختم ہوگا۔ یہاں پر رمضان کا مہینہ جو نہ پائے اس پر  روزہ نہیں ہے ۔ فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ  کے تحت رمضان ثابت ہونا ضروری ہے۔ سوال میں ذکر کردہ نو جوانوں کا عمل شریعت اسلامی کے بالکل خلاف ہے اور جہالت پر مبنی ہے۔  وہ حیدرآباد میں ہوں تو حیدرآباد کی رویت ہلال کمیٹی کے مطابق ان کو روزہ کا اہتمام اور عید کرنا چاہئے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج اور عمروں کی تعداد
سوال : معلوم کرنا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں کتنے حج اور کتنے عمرے ادا کئے تھے اور کب کئے تھے۔
(2 ایک صاحب فجر کی نماز امام صاحب کے ساتھ ادا کرچکے ہیں، موصوف کو فجر کی سنت ادا کرنا ہے۔ کیا فرض نماز کے بعد اگر نماز کا وقت رہا تو سنت ادا کرسکتے ہیں یا نہیں ؟
(3 ایک صاحب اپنی تقریباً دو ایکڑ زمین قبرستان کے لئے وقت کرچکے ہیں اور اس صاحب کا انتقال ہوچکا ہے ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں وقف کی ہوئی زمین کا کسی کو متولی نہیں بنایا۔ قبرستان سے متصل ایک مسجد ہے اور مسجد کی کمیٹی اس قبرستان کی زمین کا کچھ حصہ مسجد کے استعمال میں لے چکی ہے۔ کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے ؟
انتظامی کمیٹی مسجد قباء ، محبوب نگر
جواب :  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے قبل جو حج اور عمرے کئے ان کی صحیح تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے۔ (جو امع السیرۃ : 1 ص : 15 ) ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک حج کیا جو کہ حجۃ الوداع کہلاتا ہے اور دو مفرد عمرے کئے ۔ یعنی آپ نے اس سفر میں صرف ایک ہی عمرہ ادا کیا ۔ 7 ھ میں عمرۃ القضاء کیا اور 8 ھ میں مقام جعرانہ سے دوسرا عمرہ کیا اور 10 ھ میں حجۃ الوداع کے موقع پر حج کے ساتھ عمرہ کیا جس کو عمرہ قِران کہتے ہیں۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے : ابن سیدالناس: تاریخ الخمیس 28:2 ) اور دوسرے بہت سے سیرت نگاروں نے عمرہ صلح حدیبیہ کو شمار کرتے ہوئے ان عمروں کی تعداد چار تک بیان کی ہے ۔
(2 اگر کوئی شخص امام کے ساتھ یا تنہا فجر کی فرض نماز ادا کرلے اور فجر کا وقت باقی ہو اور وہ سنت ادا نہ کیا ہو تو وہ سنت فجر ادا نہیں کرے گا۔
(3 جو زمین جس مقصد کیلئے وقف کی گئی ہے وہ اس مصرف کیلئے مختص رہے گی واقف کے تصریحات بالکل نصوصِ شارع کی طرح واجب التعمیل ہیں، وقف کے شروط کی پابندی لازمی ہے۔ شرائط وقف کے خلاف تصرف کرنے کا کسی کو حق نہیں۔ ردالمحتار جلد 3 ص : 467 کتاب الوقف میں ہے : وما خالف شرط الواقف فھو مخالف للنص سواء کان نصہ نصا او ظاہرا، ھذا موافق بقول مشائخنا کغیرھم شرط الواقف کنص الشارع فیجب اتباعہ۔
پس بشرط صحت سوال مسجد کمیٹی کا مسجد سے متصل قبرستان کی موقوفہ اراضی کو مسجد کے استعمال میں لینا شرعاً جائز نہیں ہے ۔ متعلقہ اصحاب کو چاہئے کہ وہ فی الفور قبرستان کی اراضی قبرستان کے حوالہ کردے۔
معاش کی مجبوری سے روزہ کا ترک
سوال : روزانہ محنت و مزدوری کرنے والے شخص کا روزہ ترک کرنا کیسا ہے؟
عبدالخالق، پرانی حویلی
جواب :  روزانہ محنت و مزدوری کر کے کھانے والا شخص کہے کہ اگر ہم کام نہے ںکریںگے تو کیا کھائیں گے اور روزہ رکھ کر کام کرنے کیطاقت نہیں تو کیا ایسے شخص کیلئے رمضان کا روزہ نہ رکھنے کی گنجائش ہوگی ؟
اس مسئلہ میں کسی قدر تفصیل ہے ، اگر اس کے پاس کسی بھی نوع کا اتنا مال ہے جو اس کے اور اس کے اہل و عیال کے لئے کافی ہوجائے تو پھر عذر معتبر نہیں اور اس کیلئے روزہ توڑنے کی گنجائش نہیں ہوگی ، اسی طرح اگر ایسا کوئی کام مل جائے جسے روزہ رکھ کر کرسکتا ہے ،تب بھی روزہ توڑنا درست نہیں۔  البتہ اگر اپنے اور اہل و عیال کے کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے اور ایسا کوئی ہلکا کام بھی نہیں مل رہا ہے جس کو روزہ رکھ کر کرسکے تو ایسی صورت حال میں اس کیلئے گنجائش ہیکہ روزہ نہ رکھے، لیکن بعد میں روزہ کی قضا واجب ہے ۔
’’و ینبغی التفصیل فی مسالۃ المحترف بأن یقال أذا کان عندہ ما یکفیہ و عیالہ کا یحل لہ الفطر، لأنہ اذا کان کذلک یحرم علیہ السئوال من الناس فلا یحل لہ الفطر بالٔاولی، و ان کان محتاجا الی العمل یعمل بقدر ما یکفیہ و عیالہ حتی لو أداہ العمل فی ذلک الی الفطر ، حل لہ اذا لم یمکنہ العمل فی غیر ذلک مما لایودیہ الی الفطر من سائر الاعمال التی یقدر علیھا‘‘۔
سحری کھائے بغیر روزہ کا حکم
سوال :  اگر کوئی سحری کھائے بغیر روزہ رکھے تو اس کا یہ عمل شرعاً کیسا ہے ؟
نام …
جواب :  سحری کرنا مستقل عبادت ہے ، ہمارے اور اہل کتاب یعنی یہود و نصاری کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری ہی ہے کہ وہ سحری کھائے بغیر روزہ رہتے ہیں اور مسلمانوںکو سحری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ سحری کرنے میں کئی اعتبار سے برکت بھی ہے اور ثواب بھی ، جس طرح دوسرے نیک کام کرنے پر اجر و ثواب ملتے ہیں۔ چنانچہ حضرت انس بن مالکؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے: تسحروا فان فی السحور برکۃ۔ ’’ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہوتی ہے‘‘(ثواب ملتا ہے )  حضرت عمر و بن عاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (فصل مابین صیامنا و صیام أھل الکتاب أکلۃ السحر)۔ ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزہ میں سحری کے لقمہ کا فرق ہے‘‘۔ سحری کھائے بغیر روزہ درست تو ہوجائے گا، البتہ سحری کی برکت اور اجر و ثواب سے محرومی ہوگی اور اگر کوئی جان بوجھ کر ایسا کرتاہے تو اہل کتاب کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے گناہ کا اندیشہ ہے۔
تراویح جماعت سے ادا کرنا
سوال :  میں ہمیشہ تراویح کے بیس رکعات باجماعت ادا کرتا ہوں۔ بسا اوقات کسی مصروفیت کی وجہ سے جماعت چھوٹ جاتی ہے تو کیا ایسی صورت میں گھر میں تراویح پڑھ سکتے ہیں ؟ تراویح میں ہر چار رکعت کے بعد تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ بعض حضرات اس کے مخالف ہیں اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر تسبیح پڑھنا بھی ہو تو آہستہ آہستہ پڑھا کریں، اس قدر زور سے نہیں پڑھنا چاہئے ۔ علاوہ ازیں ہر چار رکعت کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے نام لئے جاتے ہیں کیا قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت ہے ۔
نام …
جواب :   تراویح کو مسجد میں باجماعت ادا کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ اور اہل سنت والجماعت کا شعار ہے۔ اگر محلہ کی مسجد میں چند اشخاص بھی اس کو باجماعت ادا کرلیں تو بقیہ اہل محلہ کیلئے جماعت کی پابندی باقی نہیں رہتی۔ اور اگر اہل محلہ سے مسجد میں کوئی بھی تراویح باجماعت ادا نہ کرے تو تمام اہل محلہ گنہگار ہوں گے۔ تراویح کی جماعت ترک نہیں کرنا چاہئے ۔ اگر کوئی جماعت سے نہ پڑھ سکے تو اس کو تنہا بیس رکعتیں پڑھنا چاہئے۔
مبسوط ج : 2 ، ص : 145 میں شمس الائمہ سرخسی فرماتے ہیں ’’ و ذکر الطحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ فی اختلاف العلماء و قال لا ینبغی ان یختار الانفراد علی وجہ یقطع القیام فی المسجد فالجماعۃ من سنن الصالحین و الخفاء الراشدین رضوان اللہ علیھم اجمعین حتی قالوا رضی اللہ عنھم نور اللہ قبر عمر رضی اللہ عنہ کما نور مساجد نا والمبتدعۃ انکروا ادائھا بالجماعۃ فی المسجد فادائھا بالجماعۃ جعل شعارا للسنۃ کا داء الفرائض بالجماعۃ شرع شعار الاسلام ‘‘۔
تراویح میں ہر چار رکعات کے بعد اسی قدر مقدار میں بیٹھنا مستحب ہے اور اسی کو ترویحہ کہتے ہیں۔ نمازیوں کو اختیار ہے کہ نفل پڑھیں یا قرآن مجید کی تلاوت کریں یا تسبیح پڑھیں یا خاموش بیٹھیں رہیں۔ اہل مکہ طواف کرتے اور دوگانہ طوفا پڑھا کرتے تھے اور اہل مدینہ چار رکعت نماز علحدہ علحدہ پڑھا کرتے تھے ۔ نیز ہندوستان میں قدیم سے تسبیح پڑھنے کا رواج ہے جو فقہی کتابوں سے ثابت ہے اس کی مخالفت صحیح نہیں۔ عالمگیری میں ہے ۔ ’’ و یستحب الجلوس بین الترو یحتین قدر ترویحۃ ثم ھم مخیرون فی حالۃ الجلوس ان شاء و اسبحوا و ان شاء و اقعدوا ساکتین و اھل مکۃ یطوفون و یصلون واہل المدینۃ یصلون اربع رکعات فرادی ‘‘ مصلیوں کو اختیار ہے وہ جو صورت چاہیں اختیار کریں۔ -2  تراویح کے ہر چار رکعت کے بعد اگر بلند آواز سے تسبیح پڑھتے ہیںتو شرعاً جائز ہے ۔ بزازیہ میں ہے ’’ ان الذکر بالجھر فی المسجد لا یمنع احترازا عن الدخول تحت قولہ تعالی و من اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ ‘‘ تاہم ایسی بلند آواز سے نہ پڑھی جائے جس سے دوسرے مصلیوں کو خلل ہو۔
روزہ کا فدیہ
سوال :  میں ایک ضعیف شحص ہوں، اپنی زندگی میں روزہ کا پابند رہا ہوں لیکن اب میں اتنا کمزور ہوچکا ہوں کہ روزہ ممکن نہیں ہے تو اب میرے لئے فدیہ کا کیاحکم ہے۔ کیا میں اس فدیہ کو رمضان ہی میں ادا کرسکتا ہوں اور کیا میںاس فدیہ کی رقم کوایک ہی مسکین یا محتاج کو دے سکتا ہوں ، برائے کرم جلد سے جلد مطلع فرمائیں۔
محمد برہان قادری، پھول باغ
جواب :  شیخ فانی،یعنی وہ معمر حضرات جن کی عمر اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب وہ کمزوری کی وجہ سے روزہ رکھنے کا قابل نہیں رہے اور نہ آئندہ طاقت آنے کی کوئی امید ہے کہ روزہ رکھ سکیں یا ایسے امراض میں مبتلا لوگ جو روزہ پر قدرت نہیں رکھ سکتے اور نہ آئندہ توقع ہے کہ وہ روزہ رکھ سکیں گے تو ایسے حضرات کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے لیکن ہر روزہ کے بدلہ میں بطور فدیہ ایک صدقہ فطر کی مقدار مسکین کو دینا لازم ہے۔ اگر فدیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی طاقت آجائے تو روزے کی قضاء رکھیں۔ یہ اختیار ہے کہ شروع رمضان ہی میں پورے رمضان کا ایک دم فدیہ دے دیں یا آخر میں دیں۔ فدیہ دینے میں یہ ضروری نہیں کہ جتنے فدیے ہوں اتنے ہی مساکین کو الگ الگ دیں، بلکہ ایک ہی مسکین کو کئی دن کے فدیے دیئے جاسکتے ہیں۔