سعودی عرب میں ملازمتوں کے گھٹتے مواقع

کے این واصف
سعودائزیشن کی مہم نے مملکت میں رہنے والے غیر ملکی باشندوں کے روزگار پر بڑا اثر ڈالا۔ چھوٹی سطح کے ملازمتوں ، نیم فنی اور غیر فنی کارکنان کے سواء تمام شعبہ جات میں غیر ملکیوں کی ملازمتیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ ڈرائیونگ کے کام کا ایک شعبہ ایسا تھا جس میں تمام غیر ملکی ہی کام کرتے ہیں کیونکہ اس شعبہ میں کام کرنے میں مقامی افراد زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ مگر اس شعبہ میں بھی پہلے کارخانوں اور اداروں وغیرہ میں کام کرنے والے ڈرائیورز کی ملازمتوں کو مقامی افراد سے پر کیا جانا شروع ہوا اور گھروں پر کام کرنے والے فیملی ڈرائیورز زیادہ تر غیر ملکی ہی رہے۔ ان فیملی ڈرائیورز کے روزگار پر اثر جب ہوا جب مملکت نے خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دیتے ہوئے انہیں لائسنس جاری کئے۔ سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کے بعد فیملی ڈرائیورز کی طلب میں گزشتہ برس کے مقابلے میں اب تک 7 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ۔ عربی اخبار ’’الاقتصادیہ‘‘ کے سروے کے مطابق امسال مملکت میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کے بعد فیملی ڈرائیوروں کی طلب میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سروے میں وزارت محنت و سماجی بہبود و آبادی کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کا حوالہ بھی دیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس 2018 ء کے مقابلے میں اس سال مملکت میں فیملی ڈرائیوروں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ 2018 ء میں گھریلو ڈرائیوروں کی تعداد 14 لاکھ تھی جو اس سال گھٹ کر 13 لاکھ رہ گئی ہے ۔

فیملی ڈرائیوروں کی تعداد میں روز بروز کمی دیکھنے میں آرہی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت کا ملنا ہے ۔ سعودی عرب میں ایشیائی ڈرائیوروں کا تناسب دیگر ممالک کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہے جو 65 فیصد ہے جبکہ دوسرے نمبر پر انڈونیشیا کے ڈرائیور اور اس کے بعد دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے آتے ہیں۔ ایک غیر ملکی کمپنی کی جانب سے کئے گئے سروے میں بتایا گیا کہ مملکت میں 65 فیصد کے قریب سعودی خواتین ڈرائیونگ کی خواہشمند ہیں جو جلد ہی ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر کے گاڑی چلانا شروع کردیں گی جس کے بعد فیملی ڈرائیوروں کی طلب میں مزید کمی آئے گی۔ ایک اور سروے کے مطابق 2020 ء کے اختتام تک مملکت میں 30 لاکھ خواتین ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرلیں گی ۔ اس ضمن میں سعودی محکمہ ٹریفک پولیس کی جانب سے مملکت کے مختلف شہروں میں مزید لیڈیز ڈرائیونگ اسکول کھولنے کے بارے میں غور کیا جارہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کئے جاسکیں۔ اب تک مملکت میں 18 غیر ملکی خواتین نے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کئے ہیں ۔ مملکت میں مقیم غیر ملکیوں کی اقتصادی حالت بہتر ہوئی تو غیر ملکی خو اتین کے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کی تعداد اور بڑے گی ۔ اس سے نہ صرف موجودہ ڈرائیور کے کام کرنے والے اپنی ملازمتوں سے محروم ہوں گے بلکہ ٹیکسی کے شعبہ پر بھی اس کے اثرات پڑیں گے۔ جیسے جیسے خواتین میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کی تعداد میں اضافہ ہوگا ، ویسے ویسے ٹیکسی کے کاروبار ٹھنڈے پڑتے جائیں گے ۔ دوسری طرف امید ہے کہ ریاض میں میٹرو ریل کا کام 2020 ء میں مکمل ہوجائے گا ۔

اس کا اثر بھی ٹیکسی کے کاروبار پر پڑے گا۔ آہستہ آہستہ ریاض میں ٹیکسی کی تعداد کم ہوتی جائے گی اور اس سے غیر ملکی بیروزگار ہوں گے کیونکہ ٹیکسی کے کاروبار پر ہمیشہ سے غیر مکلیوں کا قبضہ رہا ہے۔ ٹیکسی کے کاروبار پر ’’اوبیر‘‘ اور اسی طرح کی کمپنیوں نے بھی ٹیکسی کے کاروبار پر اثر ڈالا لیکن اب تو خواتین نے بھی ’’اوبیر‘‘ چلانے کا لائسنس حاصل کرلیا ہے ۔ ’’اوبیر‘‘ نے مملکت میں خواتین ڈرائیوروں کیلئے نئے ’’آپشن‘‘ خواتین کیلئے اضافہ کردیا ہے ۔ وہ خواتین مسافر جو مرد ڈرائیوروں کے ساتھ سفر کرنا پسند نہیں کرتیں ، انہیں اس سروس سے آسانی ہوگی ۔ اپنے ایک بیان میں کمپنی کے ڈرائکٹر جنرل نے بتایا کہ Application میں نئے آپشن ’’خواتین کیلئے ‘‘ شروع کرنے سے جہاں ان مسافر خواتین کو سہولت ہوگی جو مردوں کے ساتھ سفر کرنا نہیں چاہتیں، وہاں سعودی عرب میں روزگار کی متلاشی خواتین کے لئے بھی بہتر مواقع سامنے آئیں گے۔ اس سے قبل ’’خواتین اوبیر‘‘ سروس تجرباتی طور پر انتہائی محدود پیمانہ پر شروع کی گئی تھی جس کی کامیابی کے بعد اسے مستقل اور مملکت کی سط پر عام کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس سروس سے فائدہ اٹھاسکیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب میں حواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی عائد تھی ۔ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ پابندی ختم کی جو خواتین کا دیرینہ مطالبہ تھا ۔ محکمہ ٹرایفک پولیس کی جانب سے بھی خواتین کیلئے ڈرائیونگ اسکولس کے قیام کا سلسلہ جاری ہے ۔ اب تک جدہ ، ریاض ، دمام کے علاوہ بڑے شہروں میں خواتین کے ڈرائیونگ اسکولس کام کر رہے ہیں جن کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے ۔ سعودی خواتین کا کہنا ہے کہ ڈرائیونگ کی اجازت مل جا نے سے انہیں سہولت ہوئی۔ اب وہ کسی پر انحصار مل جانے سے انہیں سہولت ہوئی ۔ اب وہ کسی پرانحصار کرنے کے بجائے اپنے تمام امور خود انجام دیتی ہیں۔ مگر چھوٹے گاؤں یا قصبات وغیرہ میں لوگ خواتین کے گاڑی چلانے کو اب بھی پسند نہیں کرتے ۔ کچھ عرصہ قبل مکہ مکرمہ کے مضافات میں محلے کے افراد نے رات کے وقت پارک کی ہوئی ایک خاتون کی گاڑی کو آگ لگادی تھی ۔ اخباری اطلاع کے مطابق محلے والوں نے اس خاتون کو ڈرائیونگ کرنے سے منع کیا تھا لیکن خاتون نے اسے ماننے سے انکار کردیا تھا ۔ لہذا ایک رات محلے والوں نے اس کی گا ڑی کو آگ لگادی ۔
خیر ہم نے بات شروع کی تھی سعودی عرب میں غیر ملکیوں کیلئے گھٹتے ہوئے ملازمت کے مواقع سے لیکن یاس و مایوسی کے اس ماحول میں نامزد سفیر ہند برائے سعودی عرب ڈاکٹر اوصاف سعید کے ایک بیان سے کچھ ہمت بندھی ہے ۔ حیدرآباد میں دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں ملازمتوں کے سکٹر میں نئے مواقع عنقریب کھلیں گے کیونکہ مملکت نے اپنی معیشت کو مزید ترقی دینے کے ارادے سے ملک میں صنعتی شعبہ کو ترقی دینے کی ٹھانی ہے ۔ انہوں نے اس سلسلے میں ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ ہند اور دونوں ممالک کے درمیان طئے پائے معاہدوں کا حوالہ بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان معاہدوں پر عمل آوری سے یہاں ہندوستانیوں کیلئے ملازمتیں حاصل ہونے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگا۔ ڈاکٹر اوصاف سعید ایک تجربہ کار اور سینئر سفارتکار ہیں ؤ۔ خلیجی ممالک کے حالات اور اقتصادیات پر ان کی گہری نظر ہے ۔ خصوصاً سعودی عرب میں ڈاکٹر اوصاف تیسری مرتبہ سعودی عرب میں متعین کئے گئے ہیں ۔ وہ اب بحیثیت سفیر ہند برائے سعودی عرب یہاں آرہے ہیں ۔ امید ہے کہ وہ 29 اپریل کو اپنے عہدہ کا جائزہ حاصل کریں گے ۔ ڈاکٹر سعید نے اس سے قبل جدہ قونصلیٹ اور ریاض ایمبسی میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں ہیں اور وہ سن 2005 ء سے 2008 ء تک بحیثیت قونصل جنرل ہند جدہ رہے ۔ اوصاف سعید ایک مقبول ترین سفارتکار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
سعودی عرب میں ہندوستانیوں یا غیر ملکیوں کیلئے پھر سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونے کی ا طلاع ایک خوش آئند بات ہے ۔ مگر پچھلے چند ماہ میں ہندوستانیوں سمیت خارجی باشندوں کی ایک بہت بڑی تعداد مملکلت کو خیر باد کہہ گئی ۔ سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں سعودی لیبر مارکٹ سے اب تک 16 لاکھ غیر ملکی نکل گئے ۔ سعودی عرب میں غیر ملکیوں پر عائد فیسوں کے علاوہ مرافقین فیس (فیملی فیس) کی وجہ سے متاثر ہونے والوں میں انڈین شہری سرفہرست ہیں ۔ اس عمل کے چلتے وطن واپس جانے والوں کی جگہ سعودی شہریوں کی ملازمتوں پر بھرتی میں تیزی آگئی ہے ۔ ایک تحقیقاتی ادارے کی طرف سے جاری اعداد و شمار اور مقامی اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ وطن واپس جانے والے غیر ملکیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ تعمیرات کا شعبہ متاثر ہوا ہے۔ ادارے کے مطابق وطن واپس جانے والے غیر ملکیوں میں سے 57 فیصد کا تعلق تعمیرات کے شعبے سے تھا ۔ اس شعبہ میں کام کرنے والے 9 لاکھ 10 ہزار افراد اب تک اپنے اپنے وطن واپس جاچکے ہیں۔ سنہ 2018 ء کے دوران ان کی تعداد 10 لاکھ کو تجاوز کرگئی ۔
واضح رہے کہ سعودی حکومت نے 2017 ء میں نجی شعبہ پر غیر ملکی کارکنان رکھنے پر فیسوں میں اضافہ کردیا تھا ۔ اسی طرح سعودی عرب میں رہنے والے غیر ملکی سربراہ خاندان پر فیملی فیس کا نفاذ کیا تھا ۔ اس کے مطابق پہلے سال ہر فرد پر 100 ریال ماہانہ ، دوسرے سال 200 ریال ماہانہ ، تیسرے سال 300 ریال ماہانہ جبکہ چوتھے سال 400 ریال ماہانہ فیس عائد کی گئی تھی ۔ جیسے جیس فیملی میں سالانہ بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے ، ویسے ویسے خارجی باشندے مملکت کو خیر باد کہہ رہے ہیں ۔ اگلے سال جب یہ فیملی فیس 400 ریال فی کس ہوجائے گی تو بہت کم خارجی باشندے ایسے رہ جائیں گے جو یہ فیس ادا کر کے یہاں اپنے اہل و عیال کو رکھ سکتے ہیں ۔ جیسا کہ ڈاکٹر اوصاف سعید نے توقع ظاہر کی ہے ، اس کے مطابق اگر مملکت میں صنعتی میدان میں بڑے پیمانہ پر ترقی ہوتی ہے تو بے شک پھر سے مقامی افراد کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کیلئے ملازمتوں کے موقعے پیدا ہوں گے ۔ اس طرح ہندوستانیوں کیلئے سعودی عرب میں پھر سے ’’اچھے دن ‘‘ آئیں گے ۔
knwasif@yahoo.com