سر سید احمد خاں … محسن نسواں

نسیمہ تراب الحسن
میرا قلم اگر سر سید احمد خاں کے بارے میں کچھ نہ لکھ سکا تو میں سمجھوں گی کہ میرا لکھنا پڑھنا بیکار ہے ۔ اس محسن کیلئے اگر میرا دل عقیدت کا اظہار نہ کرسکے جس کی کاوشوں نے عورت کو آج وہ مقام دیا جس کا خواب بھی وہ دیکھنے کے قابل نہ تھی۔ سر سید احمد خاں کا نام جہاں بھی لکھا دیکھتی ہوں ، میں پڑھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ خود ان کے مضامین کی کتاب ہاتھ آجائے تو دل چاہتا ہے پڑھتی ہی رہوں۔ ان کے بارے میں بڑے بڑے ادیبوں ، دانشوروں اور مورخین نے کیا کچھ نہیں لکھا پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ کم لکھا گیا۔ سر سید احمد خاں کی تقریروں ، تحریروں اور اس سے زیادہ ان کے عمل نے لوگوں کو ایسا متاثر کیا کہ سب کا سوچنے سمجھنے کا انداز بدل گیا ۔ سچ پوچھئے تو قوم ذہنی طور پر بیدار اسی زمانے میں ہوئی قوم کی سچی ہمدردی میں انہوں نے جو قدم ا ٹھایا اس نے تعلیمی ، معاشی ، تمدنی ، معاشرتی مذہبی غرض کہ زندگی کے ہر میدان میں تہلکہ مچادیا اور جہالت کے اس جمود کو توڑا جس میں مدت سے قوم زندگی بسر کر رہی تھی ۔ اس زمانے میں سر سید احمد خاں کی بہت مخالفت ہوئی ، طرح طرح کی رکاوٹیں پیش آئیں لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ ان کی وسیع النظری کس قدر فائدہ مند ثابت ہوئی ۔ آج بھی نئی نسل کیلئے ان کی تحریریں مشعل راہ کا کام کرتی ہیں جن کو پڑھنے کے بعد قدم آسانی سے آگے بڑھائے جاسکتے ہیں۔
سر سید احمد خاں کو پڑھنے کا شوق بچپن سے تھا جو عمر کے ساتھ بڑھتا ہی گیا ، خاص طور پر انہیں تاریخ سے بہت دلچسپی تھی ۔ آثار العناد کی تصنیف کے دوران ایک کتبہ کی عبارت پڑھنے کی خاطر قطب مینار کی بلندی پر بلیوں میں چھنکا لگاکر خود چڑھے اور ان کتبوں کا چربہ اتارا جو بڑا خطرناک کام تھا مگر وہ بے خوف و خطر اس میں مصروف رہے اور مطلوبہ مواد حاصل کیا ۔ ان کا یہی ذوق انہیں انگلستان لے گیا ۔ طباعت احمدیہ کی تصنیف و اشاعت کیلئے انہوں نے نہ صرف اپنا ذاتی اثاثہ بلکہ اپنی ماں اور بیوی کا جہیز تک بیچ دیا کیونکہ دونوں تصانیف میں افتخار قومی کی حفاظت کا جذبہ شامل تھا ۔
سر سید احمد خاں نے معمولی ملازمت سے اپنی زندگی کا آغاز کیا لیکن نظر بلند رکھی جہاں بھی کام کیا ، اپنے دیرپا نقش قدم چھوڑے ، سچ بولنے کی جو تعلیم بچپن میں ملی تھی وہ آ گے چل کر ان کی حق گوئی کی ضامن بن گئی ۔ انہوں نے جو کہا وہ کیا ۔ ایک مرتبہ کسی صاحب نے طنزاً لکھا کہ میں اس دن کا منتظر ہوں، جب یہ سنوں کہ سر سید احمد خاں نے اپنے قول کے مطابق عمل بھی کیا ۔ سر سید نے اس کا جواب دیا میں نے ا سلام کو ماں باپ کی تقلید سے نہیں بلکہ بقدر اپنی طاقت کے تحقیق کرنے کے بعد تمام مذاہب معلومہ سے اعلیٰ سچا اور عمدہ جانا ہے ۔ اسی سچے مذہب نے مجھے سکھایا ہے کہ سچ کہنا ہی اعلیٰ ظرفی کی دلیل ہے ، نہایت کمینہ وہ آدمی ہے جو کہتا کچھ اور کرتا کچھ ہو اور اس سے بھی ز یادہ کمینہ وہ شخص ہے جو شریعت کے حکم سے واقف ہو اور پھر رسم و رواج کی شرم سے یا لوگوں کے لعن طعن کے ڈر سے اس کے کرنے میں تامل کرے ، جس بات میں ہم کو خدا سے شرم نہیں اس میں دنیا کے لوگوں سے کیا ڈر ۔ اسی وجہ سے سر سید وہ کام جن کو قوم کیلئے ئمفید اور باعث ترقی سمجھتے انہیں کرنے کی ہدایت دیتے ۔ انہوں نے فرسودہ روایتوں کو بالکل اہمیت نہیں دی ۔ اگر میں سر سید ا حمد خاں کی شخصیت کی گہرائی میں ڈوب جاؤں تو نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاؤں۔ اس وقت مجھے ان کے متعلق چند باتیں کرنے کی خواہش ہوئی ، انہوں نے قوم کے لئے کیا کچھ کیا ، اس کا ذکر کرنا میرے قلم کے بس میں نہیں۔ مجھے تو یہ یاد آگیا کہ تعلیم نسواں کے علمبردار بھی وہی تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’علم بلا شبہ انسان کی حیات ہے اور جہل اس کی موت۔ پس کیا لطف ہے جو خود زندہ دل ہوں اور ان کی عورتیں جو مدار عیش و زندگی ہیں مردہ دل رہیں۔ سر سید کے نزدیک انسان کی آراستگی کے لئے زیور علم سے زیادہ اور کوئی شئے آرائش زینت نہیں تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے عورتوں کی تعلیم پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا عورتیں بھی انسان ہیں پھر کیوں انہیں تعلیم سے دور رکھ کر وحیشیوں کے مانند رکھا جائے ۔ انہیں تعلیم دینا اور شائستہ بنانا ہمارا فرض ہے۔ نہ صرف تعلیم نسواں بلکہ مذہب اسلام کی روشنی میں ان کے حقوق دلانے میں بھی جدوجہد کی اور اس بات پر زور دیا کہ جس قدر اختیارات و حقوق مردوں کو مذہب اسلام میں حاصل ہیں ، اسی کے مساوی خواتین کو بھی حاصل ہیں جو کسی مذہب یا کسی تربیت یافتہ ملک میں نہیں ۔ اس کی تشریح وہ ہر مناسب موقع پر اپنی تقاریر اور مضامین میں زندگی بھر کرتے رہے۔ ان کی ہدایت تھی کہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک ، حسن معاشرت ، محبت ، ان کے آرام و خوشی کا خیال رکھنا ، انہیں ہر طرح اپنا انیس و جلیس اور رنج و راحت کا شریک ، اپنے آپ کو ان کی اور انہیں اپنی مسرت و تقویت کا باعث سمجھنا چاہئے ۔
سر سید احمد خاں نے یہ بھی بتایا کہ جو ایسا نہیں کرتے وہ دین اسلام کے احکام کی پابندی نہیں کرتے ، یہ انہی کی کوششوں کا فیض تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے خیالات میں تبدیلی آئی ، ان میں سوچنے سمجھنے کا شعور پیدا ہوا ۔ سر سید احمد خاں ایک باہمت و عملی کردار کے حامی تھے ، ان کی باوقار اور پرجلال شخصیت صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی تھی ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ہر قسم کی نیکی ہر شخص کی ذات پر منحصر رہتی ہے اور اس کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے لیکن رفاہ عام کے کام اورانسانی بھلائی کیلئے کئے جانے والے کام نسل در نسل چلتے ہیں ۔ صرف نماز ، روزہ ، زکوٰۃ کو عبادت سمجھنا غلطی ہے۔ اس لئے کسی نہ کسی فلاحی اور رفاہی کاموں میں لگے رہنا چاہئے ۔ اپنا کچھ وقت اور پیسہ فلاح و بہبود انسان کیلئے خرچ کرنا چاہئے کیونکہ یہی نیکی ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ۔یہی وہ نظریات تھے جس پر انہوں نے زندگی بسر کی ۔ شاید سب کو یہ معلوم نہ ہو کہ جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے پاس دفن کفن کے پیسے بھی نہ نکلے اور چندے سے ان کی تدفین ہوتی۔
سر سیداحمد خاں ظاہری شان و شوکت کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ خواہ مخواہ لوگوں کو معزز بنادیتی ہے ۔ دراصل عزت کے لائق وہی کام ہیں جن کو دل عزت کے قابل سمجھے۔ کسی سے بغض اپنے دل میں نہ رکھنا، کسی کا برا نہ چاہنا ہی اصل کر دار کی نشانی ہے۔ وہ آپسی بحث و تکرار کے بھی خلاف تھے ۔ ان کا کہنا تھا آپس میں اختلاف رائے انسانی فطرت ہے مگر بحث مباحثہ میں تہذیب و شائستگی ، محبت و دوستی کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہئے ۔ اگر کسی بات کی تردید کرنا ہو تو خوش اخلاقی اور تہذیب کے ساتھ کرنا چاہئے مثلاً یہ کہ میری سمجھ میں نہیں آیا یا شاید مجھے دھوکہ ہوا یا مجھے سمجھنے میں غلطی ہوئی وغیرہ ۔ انہیں اس بات سے بھی اختلاف تھا کہ انسان کے دل میں مرنے کے بعد اپنا نام باقی رکھنے کی تمنا رہتی ہے اور وہ اولاد کا سلسلہ یا عالیشان عمارتیں یادگار کے طور پر چھوڑنا چاہتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اپنا نام باقی رکھنے کے بجائے انسان کو ایسے کام کرنا چاہئے جس سے دوسروں کو یا قوم کو فائدہ پہنچتا رہے جیسے کسی علم کی تحقیقات ، کسی ہنر کو ترقی دینا یا لوگوں کو ایسی راہ دکھانا جو آنے والی نسلوں کے لئے تر قی کے دروازے کھولے۔ اپنے اسی خیال کے پیش نظر انہوں نے اپنے نام نمود کی شہرت سے بے نیاز اور طنز و ملامت کی پرواہ کئے بغیر اپنے کام کو جاری رکھا ، یہ ان کی نیک نیتی تھی کہ آج ان کے سبھی کارناموں کے ساتھ تعلیم نسواں کا پورا پھل پھول رہا ہے ۔ ز ندگی کے ہر شعبہ میں خوا تین اپنی قابلیت کا سکہ جما رہی ہیں۔ انہوں نے عورت کو دیا ہوا ’’ناقص العقل‘‘ کا خطاب نکال پھینکا ہے ۔ ہم خوا تین کا فرض ہے کہ اس بے غرض محسن پر عقیدت پھول ہمیشہ نچھاور کرتیں رہیں اور ان کی ہدایتوں پر گامزن رہیں۔