سرگرم حکومتیں اور مسائل کی یکسوئی کا مسئلہ

تلنگانہ ؍اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
تلنگانہ اور آندھراپردیش کی حکومتوں نے باقاعدہ کام کرنا شروع کردیا ہے ۔ تلنگانہ کی حکومت کے لئے انفراسٹرکچر کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ آندھرا کی حکومت کو اپنے روزمرہ کے کام کاج حیدرآباد سے ہی انجام دینے ہیں۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد چندرابابو نائیڈو نے اپنے قبل ازیں تیار کئے گئے ویژن 2020 ء کی طرح نئے ویژن کی دستاویز تیار کرنا شروع کیا ہے ، وہ اپنی حکومت کے تعلق سے ایک وائیٹ پیپر اور مستقبل کے منصوبہ کو پیش کرنے والے ہیں۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت نے اسمبلی سیشن طلب کرکے تلنگانہ کے لئے بہبودی ایجنڈہ کو بھی منظرعام پر لایا ہے ۔ اسمبلی سیشن کے دوران دونوں ایوان سے خطاب کرتے ہوئے گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے تلنگانہ کے لئے ٹی آر ایس حکومت کے منصوبوں سے ارکان اور عوام الناس کو واقف کروایا ۔

یہ منصوبے کسانوں ، مسلمانوں اور سماج کے غریب طبقات کی بہبود کے لئے تیار کئے گئے ہیں جس پر ایک ٹرائیلن روپئے خرچ کئے جائیں گے ۔ ریاست میں صنعتی ترقی کو بلندی عطا کرنے کیلئے روڈ میاپ تیار کیا گیا اور حیدرآباد کوعالمی درجہ کا شہر بنانے کا بھی وعدہ کیا گیا ۔ شہر کو سرسبز و شاداب بنانے کا منصوبہ نیا نہیں ہے مگر عمل آوری کی جب بات آتی ہے تو منصوبہ صرف کاغذی زینت تک محدود رہتا ہے ۔ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی صرف وعدے اور منصوبوں کے اعلانات ہی ہوں تو پھر سرسبز و شاداب شہر کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔ حیدرآباد کو WIFI سے آراستہ کرنے کا ارادہ رکھنے والی حکومت شہریوں کو صاف ستھری فضا اور پاکیزہ سڑکیں فراہم کرنے میں کامیاب ہو تو یہی بڑی بات ہوگی ۔ تلنگانہ کو ترقی دینے اور حیدرآباد کے تعلق سے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کا منصوبہ قابل ستائش ہے لیکن ان کی حکومت کی کارکردگی کو پرکھنے کے لئے ابھی وقت درکار ہے ۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش کی حکومتیں اپنی اپنی ریاستوں میں عوام کو کس حد تک اور کتنی جلد ترقی دینے میں کامیاب ہوں گی یہ ان کی اپنی خود کی کارکردگی پر منحصر ہے ۔ چندربابو نائیڈو کے تعلق سے کہا جارہا ہے کہ وہ ایک تجربہ کار چیف منٹسر ہیں لہذا وہ حیدرآباد میں ہی رہ کر اپنی ریاست کا نظم و نسق موثر طورپر چلا سکیں گے جبکہ کے چندرشیکھر راؤ کو چیف منسٹر ہوئے ابھی چند دن گذرے ہیں

انھیں سیاسی پینتروں کا ماہر قرار دیا جاتا ہے مگر حکمرانی کے اُمور میں ان کی صلاحیتوں کو پرکھنے کا اب وقت آگیا ہے تو وہ آندھرا کے چیف منسٹر کے مقابل کس حد تک کامیاب و کامراں ہوتے ہیں ان کی کارکردگی سے اندازہ ہوجائے گا ۔ تعلیم یافتہ حکومت اور ناخواندہ قیادت کا ٹکراؤ اس کے عوام کے لئے کڑی آزمائش کاباعث ہوگا ۔ نئی حکومتوں کے جائزہ لینے کے بعد بھی شہریوں کو برقی کٹوتی کا سامنا ہے ۔ برقی بحران پر فوری قابو پانے پر توجہ نہیں دی گئی تو سیاسی تقاضے مسائل بن کر اُبھریں گے ۔ جس پارٹی کی حکومت سے نجات حاصل کرنے کیلئے عوام نے ووٹ دیا تھا ٹی آر ایس یا تلگودیشم کے دور میں بھی سابق حکمراں پارٹی کی تلخ یادیں تازہ ہوں تو پھر عوام الناس کے نصیب میں بحران ہی لکھا ہوگا۔ تلنگانہ میں ماضی کی تلخ یادوں اور مستقبل کے منصوبوں کو مضبوط و توانا بنانے کے درمیان عوام کی نظروں کے سامنے اچھی حکمرانی کا مقصد پورا ہوتا ہے تو یہ خوش آئند تبدیلی ہوگی ۔ چندرابابو نائیڈو بھی 10 سال کی اقتدار سے محرومی کے بعد نئے جذبہ و نئے جوش کو بروئے کار لاتے ہوئے آندھرائی عوام کو ایک خوشحال اور ترقی والی ریاست دینے کوشاں ہیں۔

حیدرآباد کے ہائی ٹیک سٹی کو آندھراپردیش میں بھی قائم کرنے کا عزم رکھنے والے نائیڈو نے اپنی ریاست کے دارالحکومت کے لئے گنٹور اور وجئے واڑہ کے درمیان کی جگہ کو منتخب کرنے کا اشارہ دیا ہے ۔ اس علاقہ کو ریاست آندھراپردیش کے لئے مرکزی مقام قرار دیا جارہا ہے ۔ انھوں نے اپنی نئی حکومت کا اسمبلی سیشن 19 جون کو طلب کیا ہے تو تمام سکریٹریز کو ریاست کے لئے 100 روزہ ترقیاتی منصوبہ تیار کرنے کی بھی ہدایت دی ہے ۔ طویل مدت اور مختصر مدتی مقاصد کے لئے نائیڈو نے اپنی حکومت کی کارکردگی کو پراثر بنانا شروع کیا ہے اس کے برعکس کے چندرشیکھر راؤ نے نائیڈو سے ایک ہفتہ قبل حلف لینے کے باوجود اپنا کیمپ آفس اور سکریٹری کے عملہ کو متحرک کرنے میں کوئی پھرتی نہیں دکھائی۔ اس سیاسی میدان میں وہی حکمراں کامیاب ہوتے ہیں جو ناموافق حالات کا استقبال کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ تلنگانہ میں نئی حکومت کے لئے تمام انفراسٹرکچر موجود ہو تو اسے عوام کے لئے جلد سے جلد اچھی حکمرانی دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے ۔ برقی قلت کے مسئلہ کو حل کرلیا جائے تو معاشی ترقی کی رفتار یقینا تیز ہوجائے گی ۔ اپنی حلف برداری کے ٹھیک 68 منٹ بعد چندرابابو نائیڈو نے اپنی انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کا اعادہ کیا ۔ ان کی پارٹی نے کئی انتخابی وعدہ کئے ہیں

جن پر عمل آوری کڑی آزمائش ثابت ہوگی ۔ انھوں نے عوام کی بہبود کیلئے انتھک جدوجہد کرنے اور بے تکان کام کرتے ہوئے قلی نمبر ایک بننے کا عزم ظاہر کیا ہے تو عوام نے فی الحال ایسے کسی قلی کی نہیں بلکہ ایک مدبر سیاستداں و فہم فراست کی حامل شخصیت چندرابابو نائیڈو کو اپنا حکمراں بنایا ہے تو عوام کی توقعات کو پورا کرنے کیلئے انھیں محنت مزدوی یا قلی بننے کی اصطلاح سے ہٹ کر خود کو ایک ترقی پسند اور کامیاب لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ اس وقت انھوں نے آندھرا کے عوام کو 24 گھنٹے برقی سربراہ کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ برقی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے اور ترقی کے لئے برقی لازم و ملزوم ہے ۔سیاسی پنڈتوں نے آندھرا اور تلنگانہ کی حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے ۔ لہذا ٹی آر ایس سربراہ چندرشیکھر راؤ اور ان کی ٹیم کو اپنے بہترین بیوروکریٹس کے تعاون سے ایک اچھی حکمرانی دینے کی مثال قائم کرنی چاہئے ، تاکہ تلنگانہ کے عام کو ان کی برسوں کی جدوجہد کا ثمر مل سکے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے اپنے انتخابی وعدے کو پورا کر دکھایا ہے ۔ یہ مسلمانوں کے لئے خوش آئند شروعات ہے ۔ اس فیصلہ پر بلارکاوٹ عمل آوری کو یقینی بنانا چیف منسٹر کا کام ہے ۔ اس کے برعکس آندھرا کی حکومت اور اس کے چیف منسٹر چندرابابو نائیڈو نے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیا ہے ۔ بی جے پی سے اتحاد کرلینے کا وہ بھرپور مظاہرہ کررہے ہیں۔ آندھرا حکومت میں کسی مسلمانوں کو وزیر نہ بنانا بھی ان کی تنگ نظری یا سیاسی مجبوری کو ظاہر کرتا ہے ۔ فرقہ پرستوں کا ساتھ دینے والے چیف منسٹر کو ایک دن اپنی اس غلطی کا احساس ضرور ہوگا۔

سیاسی اقتدار کی کرسی تک پہونچنے والے چندرابابو نائیڈو کو ریاست کے اقلیتوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ 17 کابینی وزراء میں کوئی بھی مسلم نہیں ہے ۔ کڑپہ کو بھی کابینہ میں نمائندگی نہیں دی گئی جہاں مسلمانوں کی اکثریتی آبادی ہے ۔ چندرابابو نائیڈو نے اب تک اپنی سیاسی صلاحیتوں کے باعث زیادہ نمایاں ہوتے ہیں مگر مسلمانوں کے تعلق سے ان کی پالیسی سے انھیں اقلیت سے دور کردیا ہے آگے چل کر وہ اپنی ریاست کے کسی ضلع سے تعلق رکھنے والے مسلم لیڈر کو کابینہ میں جگہ دیتے ہیں تو یہ کمی بھی پوری ہوجائے گی ۔ اپنی حکومت کے تقریباً تمام اہم قلمدانوں کو اپنے پاس رکھ کر وہ ابتداء میں حکومت کی کارکردگی کو موثر بنانا چاہتے ہیں ۔ مزدور کی حیثیت سے عوام کی خدمت کرنے والے چیف منسٹر کو دیگر مزدوروں اور محنت کشوں کا بھی خیال ہونا چاہئے کہ عموماً حکمراں لیڈر مزدوروں کو ہی نہیں بلکہ عام شہریوں کو بھی محض کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ ایک مرتبہ اقتدار ملنے کے بعد عوامی ہمدردی کا تمام جذبہ سرد پڑتا ہے وہ مسائل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں دیکھتے اورنہ ہیحالات کی بہتری کے لئے بنیادی تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ویسے معاشرہ میں مزدوروں کی عظمت کے کئی افسانے ہیں ۔ چندرابابو نائیڈو نے سیاسی مزدور کا فسانہ بن جانا ہے تو پھر آندھرا کے لوگوں کو اچھی حکمرانی نصیب نہیں ہوگی ۔ kbaig92@gmail.com