سرکاری نظم و نسق میں قابل عہدیداروں کی کمی

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے ملاقات کرکے دونوں ریاستوں تلنگانہ اور آندھراپردیش کی صورتحال سے واقف کروایا۔ ظاہر ہے ان کی ملاقات دونوں ریاستوں سے لا اینڈ آرڈر مسئلہ پر سطحی گفتگو تک ہی محدود رہی ہوگی کیونکہ چھوٹے چھوٹے جرائم کو گورنر اور مرکزی سطح کی وزارت خاطر میں نہیں لائی جائیں۔ دہلی میں ایک کیاب ٹیکسی ڈرائیور کی جانب سے ایک خاتون کی عصمت ریزی کے واقعہ کے بعد شہر حیدرآباد کی پولیس نے بھی چوکسی اختیار کرکے تمام ٹراویلس ایجنٹوں، کاروں کی تلاشی شروع کردی۔ اس بڑے پیمانہ کی تلاشی کی وجہ سے پولیس نے 35 کیابس کے خلاف کیس درج کیا اور 7 موٹر گاڑیوں کو ضبط کرلیا جنہوں نے ڈرائیورس اور مسافروں کا ریکارڈ نہیں رکھا تھا۔ حیدرآباد ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ میں 500 ٹراویل کمپنیاں درج رجسٹر ہیں۔ ان کے تحت 25000 کیابس کاریں چلائی جاتی ہیں۔ صرف پڑوسی ضلع رنگاریڈی میں ہی 20000 ٹیکسیاں چلائی جاتی ہیں۔ قومی سطح پر پھوٹ پڑنے والے اس جرم کی وجہ سے سارے ہندوستان میں پولیس نے چوکسی اختیار کرلی جبکہ مرکز میں جس پارٹی کی حکومت ہے اور وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کرسی سنبھالے ہوئے ہیں ان کے لوگوں نے اپنی روایتی دنیا سجا کر مسلمانوں کو ہندو بنانے کی مہم میں مصروف ہوگئے۔ بی جے پی کے لوگوں کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ یہ لوگ ’’ابنارمل‘‘ ہوتے ہیں۔ اب ان لوگوں کے تعلق سے باقاعدہ کہا جارہا ہے کہ یہ لوگ پاگل بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ اس لئے آگرہ میں 300 مسلم خاندانوں کو دھوکے سے ہندو بنانے کی کوشش کی اور یہی عمل علیگڑھ میں بھی کرنے والے ہیں۔

بی جے پی کے چند احمقوں نے ہی گذشتہ دنوں تاج محل کو مندر قرار دیا تھا جس طرح حیدرآباد کے تاریخی چارمنار سے متصل ایک چھوٹے سے پتھر کو رکھ کر اب یہاں باقاعدہ مندر بنایا گیا ہے آنے والے دنوں میں یہ لوگ چارمینار کو بھی اپنا تاریخی مندر قرار دینے میں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ تاج محل کو اپنا قدیم مندر قرار دے کر شہنشاہ شاہجہاں کو اپنا دیوتا اور ملکہ ممتاز محل کو اپنی دیوی بھی مان لیں تو ہندوستان کے عام شہری ان کا کیا بگاڑ سکیں گے۔ واقعی بی جے پی کے لوگوں کو انسانوں کے اندر ایک ایسی مخلوق قرار دیا جاسکتا ہے جن کے بارے میں عام انسانی ذہن سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ دہلی میں جو ہوتا ہے اس کے اثرات ملک کی دیگر ریاستوں کے شہریوں پر بھی دیکھے جاتے ہیں۔ حیدرآباد میں ٹیکسی ڈرائیور کے خلاف مہم میں مصروف ہماری پولیس کو چھوٹے چھوٹے چوروں، ڈاکوؤں، اے ٹی ایم سے روپیہ بٹورنے والوں، بینک ڈکیتیوں کے مرتکبین کے خلاف کارروائی کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ انسانوں کا بیدردی سے قتل کردیا جاتا ہے تو کیس بنانے میں بھی پولیس دوہرے پن کا مظاہرہ کرتی ہے۔ چھتہ بازار میں ایک مسلم نوجوان کا قتل کیا گیا۔ فینانسر کا قرض ادا نہ کرنے کی غلطی کی اتنی بڑی سزاء دی جاتی ہے تو یہ واقعہ مسلم معاشرہ کی ابتری کو عیاں کرتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہیکہ مسلمانوں میں بے تحاشہ دولت رکھنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہونے کے باوجود اس معاشرہ کے چند غریب بیوپاریوں کو حقیر رقم کیلئے فینانسر کے چنگل میں پھنس کر جان سے ہاتھ دھونی پڑتی ہے۔ فلاحی اداروں، کارخیر کے دعویداروں کی طویل فہرست میں جب مسلم نوجوان یا غریب مسلم خاندانوں میں کسمپرسی کی وجہ سے موت واقعی ہوتی ہے تو یہ امر افسوسناک بن جاتا ہے۔ اس زاویئے سے دیکھیں تو چھتہ بازار کا نوجوان اپنی زندگی ہار کر معاشرہ کی زندگی کو ایک سنگین انتباہ دیا ہے۔

پرانے شہر کی نمائندگی کرنے والے لیڈروں کے ہاں تو ہر شب شب برات ہوتی ہے اس لئے انہیں بے بس و مجبور انسانوں کی دنیا میں اندھیری رات کے گذرنے یا ٹھہرنے یا طویل تر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان لیڈروں کے اپنے شاہانہ انداز برقرار رہیںگے۔ مسلم معاشرہ کی ان خرابیوں اور بی جے پی والوں کی پے در پے ہونے والی کارروائیوں کے درمیان خود کو مسلم معاشرہ کا عقلِ کل لیڈر سمجھے جانے والے قائدین انتخابات کے دوران تقریروں میں اپنی ہر بات کو مستند فرمان کا درجہ دیتے ہیں اور بعد کے برسوں میں عوام کے درمیان سے غائب دکھائی دیتے ہیں۔ چارمینار کی مندر کو قانونی موقف دینے کیلئے ان ہی مسلم لیڈروں نے حکومت اور مندر کمیٹی کے لوگوں کی معاونت کی تھی۔ یہ لیڈرس جو دوسروں کو سبق سکھانے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں خود کوئی سبق سیکھنے پر تیار نہیں ہوتے۔ تلنگانہ کا حکمراں طبقہ بھی ان دنوں اتنا بے بس ہے کہ اسے سرکاری کام کاج انجام دینے کیلئے عہدیداروں کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور مرکز کے رحم و کرم پر رہنا پڑا ہے۔ ریاستی سطح پر ایک اچھی حکومت کا خواب جب ہی پورا ہوتا ہے جب اس کی بیوریوکریسی مضبوط، دانشمندانہ صلاحیتوں کی حامل ہو۔ حکومت تلنگانہ کے پاس ان دنوں آئی اے ایس عہدیداروں کی کمی ہے۔ قابل آفیسرس کی مدد سے ہی حکومت اپنے فلاحی منصوبوں، عوامی خدمات کو مؤثر بنا سکتی ہے۔ آندھراپردیش اور تلنگانہ کے درمیان آئی اے ایس عہدیدار کی تقسیم کا مسئلہ وزیراعظم کی پیشی میں زیرالتواء تھا کیونکہ وزیراعظم کو بیرونی دوروں کے بعد اب انتخابی مہم میں مصروف رہنا پڑ رہا تھا تو تلنگانہ کو آئی اے ایس عہدیدار مختص کرنے کی فائل پر دستخط باقی رہ جاتی ہے۔ کسی چیف منسٹر کی کامیابی میں اس کے پرنسپل سکریٹری اور چیف منسٹر کی پیشی کے ہونہار عہدیدار کا اہم رول ہوتا ہے۔ سابق میں چندر بابو نائیڈو کی پیشی کے بیوریو کریسی کے تعلق سے کہا جاتا تھا کہ آئی اے ایس عہدیداروں کے مشوروں سے ہی چندرا بابو نائیڈو نے آندھراپردیش ویژن 2020 کا آغاز کیا تھا۔ ای گورننس، ای سیوا اور تمام سرکاری محکموں کو کمپیوٹر سے مربوط کرنے میں ان کا اہم رول رہا تھا۔ اب چندرا بابو نائیڈو کو بھی آئی اے ایس عہدیداروں کی کمی کا سامنا ہے۔ تاہم مرکز نے ریاست کی تقسیم کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقدامات کئے ہیں۔

وزیراعظم کے ایڈیشنل پرنسپل سکریٹری نے اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا ہے جس میں تلنگانہ کے چیف سکریٹری راجیو شرما اور آندھراپردیش کے چیف سکریٹری آئی وائی آر کرشنا راؤ نے شرکت کی ہے۔ تاہم قطعی منظوری کے لئے وزیراعظم کی دستخط ہونا باقی ہے۔ تلنگانہ حکومت میں عہدیداروں کی کمی کی وجہ سے ایک عہدیدار کو کئی زائد ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ محکمہ اقلیتی بہبودکا بھی یہی حال ہے۔ اس وقت زائد از 3 آئی اے ایس آفیسرس کو دو ریاستوں تلنگانہ اور آندھراپردیش کے درمیان کھینچاتانی کا شکار ہونا پڑ رہا ہے۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے کمشنر سومیش کمار کو جنہوں نے تلنگانہ میں جامع گھر گھر سروے 2014 ء کروایا تھا، آندھراپردیش کیلئے الاٹ کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف آندھراپردیش انڈسٹریل و کامرس ڈپارٹمنٹ نے پرنسپل سکریٹری جے ایس وی پرساد اور اے پی ٹرانسکو چیرمین و منیجنگ ڈائرکٹر اجئے جین کو تلنگانہ میں کام کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اس طرح محکمہ پولیس میں بھی آئی پی ایس عہدیداروں کو اہمیت حاصل ہے۔ تلنگانہ میں محکمہ پولیس کو مضبوط بنانے کیلئے اچھے بہتر تجربہ کار آئی پی ایس آفیسرس کے تقرر پر توجہ دینا چیف منسٹر کے چندرشیکھر کی کاوشوں پر منحصر ہے۔ نئی ریاست کا نظم و نسق اور لا اینڈ آرڈر کے علاوہ شہر حیدرآباد میں ہونے والے جرائم چھوٹے چھوٹے محلوں میں ہونے والے بڑے بڑے جرائم پر قابو پانے کیلئے عوام میں پولیس اور قانون کے وجود کا احساس دلانا ضروری ہے۔ پرانے شہر میں پولیس کا وجود صرف بھتہ خوری تک ہی محدود ہو تو جرائم کا گراف سنگین سطح تک پہنچ جائے گا۔