سروے کے بعد عوام کو فوائد پہونچانا حکومت کی ذمہ داری

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ کا عام آدمی پارٹی کے لیڈر اور سابق چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال سے تقابل کیا جارہا ہے۔ احتجاج کی سیاست کے ذریعہ دونوں نے ہی اقتدار حاصل کیا۔ مگر اروند کجریوال جلد ہی اقتدار سے حماقت میں آکر دوری اختیار کرلی تو چندرشیکھر راؤ نے اپنی حکومت کے 80 دن پورے کرلئے لیکن اب تک تلنگانہ عوام کو ایک پیسے کی بھی راحت نہیں ملی۔ شہری و دیہی علاقوں میں برقی کے مسائل یکساں اور نازک ہیں۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر کو کم از کم کام کاج کرنے کے لئے کیمپ آفس اور سکریٹریٹ میں دفتر تو ہے۔ ان کے پڑوسی چیف منسٹر چندرابابو نائیڈو کو حیدرآباد میں دفتر بھی نصیب نہیں ہے۔ ان کے دفتر کی تیاری کا مرحلہ جاری ہے۔ تاہم وہ اپنی ریاست آندھراپردیش کے اُمور کو باقاعدہ طور پر نمٹا رہے ہیں۔ اُنھوں نے بھی اب تک سوائے وظیفہ کی عمر 60 سال کردینے کے اہم فیصلہ کے کوئی بڑا کارنامہ نہیں کیا۔ حکومت آندھراپردیش کا بجٹ شدید خسارہ سے دوچار ہے۔

تلنگانہ کے عوام کو تو اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کی سزا یہ مل رہی ہے کہ وہ لب کشائی بھی نہیں کرسکتے۔ کسی فرد یا اشخاص کو جب اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے تو حلق سے آواز تک نہیں نکلتی۔ شائد تلنگانہ کے عوام کا بھی اسی طرح کا کچھ حال ہونے جارہا ہے۔ اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھی کانگریس کے قائدین ’’دودھ پھوٹنے‘‘ کے بعد تاخیر سے رو پڑے ہیں تو اس سے کیا حاصل ہوگا۔ چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ نے اب تک اپنی حکومت کے کاموں اور منصوبوں کے اعلانات ہی کئے ہیں۔ منصوبوں اور اعلانات کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ کام اور عملی نتائج کا عوام کو انتظار کرنا پڑے گا۔ کے سی آر نے حیدرآباد کی ترقی کے لئے سنگاپور کا بھی دورہ کیا ہے۔ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ پاسپورٹ بناکر پہلا بیرونی دورہ کیا ہے تو سنگاپور سے ریاست تلنگانہ میں سرمایہ کاری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ تلنگانہ میں گھر گھر جامع سروے کرواکر عوام کا ڈاٹا اکٹھا کرنے والے چیف منسٹر پر تلنگانہ باشندوں کی نظریں مرکوز ہوگئی ہیں کہ آخر وہ انھیں کس حد تک اسکیمات کے ذریعہ فائدہ پہونچائیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تلنگانہ میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے مگر ان وسائل کو عوام کے لئے منفعت بخش بنانے کے لئے ٹی آر ایس حکومت کو اپنی خوبیوں کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔

تلنگانہ میں جہاں فرقہ پرستوں کا راج ہے وہیں فرقہ پرست طاقتیں اپنی جڑوں کو مضبوط کرنے سرگرم ہیں۔ بی جے پی کے نئے صدر امیت شاہ کا دورہ حیدرآباد کو خاص فرقہ پرستانہ ایجنڈہ کا ایک حصہ قرار دیا جارہا ہے۔ شہر میں گنیش وسرجن جلوس کے دوران سکیورٹی کا مسئلہ تشویشناک دکھائی دے رہا ہے۔ امیت شاہ کے دورہ سے ریاستی بی جے پی یونٹ کو اگر کوئی اشارہ ملتا ہے تو حالات کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی کی ریاستی یونٹ کی قیادت اس وقت جی کشن ریڈی کررہے ہیں۔ وہ تنہا 2019 ء تک بی جے پی کی قیادت کرتے ہوئے آئندہ لوک سبھا اسمبلی انتخابات کی تیاری کریں گے۔ بی جے پی میں اس وقت اگرچیکہ کئی قائدین ایسے ہیں جو کشن ریڈی کے طرز کی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ راجہ سنگھ کی موجودگی بھی بی جے پی میں ایک فرقہ پرستانہ ماحول کو تقویت دینے میں مدد مل رہی ہے لیکن تلنگانہ میں سیاسی جڑوں کو مضبوط بنانے کے لئے تلگودیشم کے ساتھ بی جے پی کا اتحاد زیادہ دیر تک نہیں ٹک سکتا۔ پھر بھی بی جے پی اس بات کی کوشش کرے گی کہ تلگودیشم سے اتحاد برقرار رکھ کر ٹی آر ایس حکومت کو شدید دھکہ پہونچائے۔ تلنگانہ میں بی جے پی کو صرف ایک لوک سبھا نشست اور پانچ اسمبلی حلقوں میں کامیابی ملی ہے۔ اس نے اسمبلی میں اپنی تعداد بڑھالی ہے اس نے تلنگانہ میں تلگودیشم سے اتحاد کرکے 8 لوک سبھا اور 47 اسمبلی حلقوں سے مقابلہ کیا تھا۔ امیت شاہ اپنے پارٹی کیڈر کویہی سبق سکھا کر گئے ہیں کہ تلنگانہ میں رائے دہندوں کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے سے ووٹ فیصد میں اضافہ ہوگا۔

اب میدک لوک سبھا حلقہ سے کامیابی کے لئے بی جے پی ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی کیوں کہ مرکز میں نریندر مودی حکومت کے حوالے سے ریاستی بی جے پی کے کیڈرس میں زبردست جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ بی جے پی نے میدک لوک سبھا حلقہ میں کامیابی حاصل کرلی تو سمجھئے مودی کا سحر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ناکامی کی صورت میں واضح ہوگا کہ تلنگانہ کا رائے دہندہ ہنوز سیکولر ہے۔ اس طرح سیکولر رائے دہندوں کے ساتھ ٹی آر ایس حکومت کو اپنی سیاسی بنیاد پہلے سے زیادہ مضبوط کرنی ہوگی۔ 2014 ء کے انتخابات کو ٹی آر ایس نے تلنگانہ کی لہر میں جیتا تھا۔ آئندہ پانچ سال میں ریاست کے عوام اپنی منتخب حکومت کی کارکردگی کو پرکھیں گے اس کے بعد ہی ووٹ دیں گے۔ کے چندرشیکھر راؤ کی جانب سے حالیہ کروائے گئے سروے کے مطابق عوام الناس کو حکومت کی اسکیمات سے استفادہ کا موقع ملتا ہے تو پھر یہ سروے بقول چیف منسٹر ’’سوپر ہٹ‘‘ ثابت ہوگا حکومت کا کام اب پہلے سے زیادہ ذمہ دارانہ ہوگیا ہے۔ اب اس کے پاس گھر گھر جامع سروے کی شکل میں ریاست کے عوام کی معاشی و سماجی حالت بھی موجود ہے۔ وہ اس ڈاٹا کی بنیاد پر غریب عوام کے لئے فلاحی اسکیمات کا آغاز کرسکتی ہے۔ حکومت کو اپنے وعدوں کی تکمیل کا دیانتدارانہ مظاہرہ کرنا لازمی ہوجائے گا۔ ٹی آر ایس حکومت نے عوام الناس کو خاصکر دیہی علاقوں میں غریبوں کودو بیڈ روم والا مکان بناکر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ پسماندہ طبقات ہاؤزنگ اسکیم کے تحت شہروں میں فلیٹس بھی تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ مستحق افراد کو راشن کارڈس، بے زمین دلتوں کو اراضیات اور دیگر کئی راحت اقدامات کے وعدے کئے جاچکے ہیں۔ اس وجہ سے عوام الناس کی بڑی تعداد نے 19 اگسٹ کے جامع خاندانی سروے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ساری ریاست تلنگانہ کی ترقی اور زندگی کو ایک دن کے لئے مفلوج کرکے کروائے گئے سروے میں کروڑہا روپئے کا نقصان ضرور ہوا لیکن اس سروے کے نتائج مثبت ہوں تو غریبوں کو زبردست فائدہ ہوگا۔ عوام نے ٹی آر ایس حکومت کے انتخابی وعدوں اور اسکیمات کی اُمید میں سروے میں اپنی تفصیلات درج کروائی ہیں اگر انھیں توقع کے مطابق فائدہ نہیں ملا تو پھر ٹی آر ایس کی سیاسی زندگی کا سفر مختصر ہوجائے گا۔

عام آدمی پارٹی نے جس تیز آندھی کے ساتھ دہلی کے رائے دہندوں پر حکومت کی تھی اسی شدت سے ان کے دلوں سے دور ہوگئی ہے۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ اور ان کی ٹیم کو سروے کی کامیابی سے زبردست حوصلہ ملا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ عوام نے خاص کر دلتوں نے سروے میں اس مقصد سے حصہ لیا کہ انھیں دو بیڈ روم کا مکان، 3 ایکر اراضی مل جائے گی۔ ریاست کے مختلف حصوں سے یہ رپورٹ مل رہی ہے کہ ہریجن، گریجن، دلتوں کو کے سی آر پر کافی بھروسہ ہے۔ کل تک ہر کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ کے سی آر ایک دن میں سروے کس طرح کراسکیں گے لیکن اب انھوں نے ملک میں ایک سنسنی پھیلا دی ہے کہ سیاسی عزم اور عوام کا تعاون ہو تو بلاشبہ انہونی کو ہونی کردیتے ہیں۔ اس سروے میں اگر وطنیت کا کالم رکھا جاتا تو یہ بھی معلوم ہوتا کہ شہری کا کس مقام سے تعلق رہے اور اس کالم میں دیانتداری کے ساتھ کتنے شہری اپنے آبائی مقام کا ذکر کرتے۔ آندھرا کے لوگوں کا پتہ چلانے کی نیت سے کروائے جانے والے سروے فارم کو لمحہ آخر میں تبدیل کردیا گیا اور اس سے وطنیت کا کالم نکال دیا گیا۔ اگر وطنیت کا کالم ہوتا تو حکومت کو یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ کس علاقہ اور ضلع میں کس شہر و ضلع کے شہری مقیم ہیں۔ حیدرآباد میں رہنے والوں کا تعلق کن کن علاقوں سے ہے۔ بہرحال وطنیت کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا دستور ہند کے اُصولوں کے مغائر سمجھا جارہا ہے تو دیگر طریقوں سے اکٹھا کردہ شہریوں کا ڈاٹا اور معلومات بھی انسانی قدروں کے مغائر ہے۔ تاہم حکومت کی پالیسیوں اور منصوبوں کے آگے جھک جانے عوام الناس کو مجبور کرنا بھی ایک زیادتی ہی ہے۔
kbaig92@gmail.com