سرورالہدیٰ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

نکتہ ہائے فاروقی

نثار احمد فاروقی میرے لیے بہت کچھ نہیں بلکہ سب کچھ تھے۔ جب میں دہلی میں اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز کررہا تھا تو یہ معلوم نہیں تھا کہ مجھے اتنی بڑی شخصیت کی شفقت اور عنایت حاصل ہو گی۔ پانچ چھ سال کا عرصہ زیادہ نہیں ہوتا۔ لیکن میرے لیے تو یہ عرصہ اس لیے اہم اور زیادہ ہے کہ نثار احمد فاروقی نے علمی اور ادبی اعتبار سے مجھے جتنا مالدار بنانے کی کوشش کی وہ ایک واقعہ ہے۔ مجھے اشرف علی خاں فغاں کا دیوان مرتب کرنے کا خیال آیا۔ اِس بات کا ذکر میں نے اپنے دو اساتذہ اسلم پرویز اور صدیق الرحمن قدوائی سے کیا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ایک سمینار میں اسلم صاحب اور قدوائی صاحب نے نثار احمد فاروقی صاحب سے میرا تعارف کرایا کہ سرورالہدیٰ ہمارے شاگرد ہیں۔ آپ انھیں تھوڑا وقت دے دیجیے۔ نثار احمد فاروقی نے مجھے وقت دے دیاا ور میں اگلے ہی دن بٹلہ ہاؤس ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوگیا۔انہوں نے دیوانِ فغاں کے مطبوعہ نسخے پرمیرے لگائے ہوئے نشانات دیکھے اور پھر قلمی نسخوں کے سلسلے میں لائبریریوں اور اشخاص کے نام بتائے۔ رشیدحسن خاں صاحب کو بھی میں نے خط لکھا۔ رشید حسن خاںنے خط کے جواب میں جن پہلوؤں کی نشاندہی کی تھی تحقیقی اعتبار سے وہ بہت اہم تھے۔ اسلم پرویز صاحب نے رشید حسن خاںکے خط کو’ اردو ادب ‘میں شائع کردیا۔ نثار احمد فاروقی کے مشورے پر میں نے خدابخش لائبریری پٹنہ کا سفر کیا اور مجھے دیوانِ فغاں کے دو قلمی نسخے مل گئے۔ یہ نسخے سید سلمان ندوی کی ذاتی لائبریری میں کبھی تھے اور وہ خدا بخش لائبریری منتقل ہوگئے ہیں۔ اِس سفر میں میں نے فغاں کی قبر کا پٹنہ میں سراغ بھی لگا لیا۔ یہ ایک بہانہ تھا نثار احمد فاروقی سے ملنے اور استفادہ کرنے کا۔ دیوان فغاں کی ترتیب و تدوین کا کام میں نے ذاتی شوق اور ذاتی پروجکٹ کے طور پر شروع کیا تھا۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے لٹریری پینل کی ایک میٹنگ تھی اس میں شمس الرحمن فاروقی صاحب بھی شریک تھے۔ نثار احمد فاروقی نے میرے لیے دیوانِ میر عبدالحئی تاباں کی نئی ترتیب و تدوین کا کام تجویز کیا اور کمیٹی نے اسے قبول کرلیا۔ اس طرح دیوانِ فغاں کی کونسل سے اشاعت کے بعدمیں دیوانِ تاباں کی طرف متوجہ ہوگیا۔ دیوانِ فغاں کی رسم رونمائی ہندوستانی زبانوں کے مرکز جے این یو کے کمیٹی روم میں ہوئی تھی جس میں نثار احمد فاروقی اور دہلی کی دیگر اہم شخصیات موجود تھیں۔ انھوں نے دیوانِ فغاں کی تصحیح و ترتیب اور اشاعت میں جیسی دلچسپی لی میں اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ اس کا پیش لفظ بھی نثار احمد فاروقی نے لکھا تھا۔ میرے تعلق سے انھوں نے جن توقعات کا اظہار کیا تھا، وہ میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ’دیوان فغاں‘ کو نثارا حمد فاروقی کے نام کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اس خواہش کا اظہار کیا، وہ مسکرائے اور کاغذ پر ایک جملہ لکھا ’’سرزمین عظیم آباد کے نام جس کی خاک میں فغاں ابدی نیند سو رہے ہیں۔‘‘اور یہی الفاظ دیوان فغاں میں بطور انتساب درج ہیں۔ان کی شفقت ہی کا نتیجہ ہے کہ پرانی کتابوں، مخطوطات اور تحقیق میں میری دلچسپی نہ صرف قائم ہوئی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوا۔ افسوس کہ وہ جلد رخصت ہوگئے۔ وہ اگر آج ہوتے تو میری علمی اور ادبی دلچسپیوں کا عالم ہی کچھ اور ہوتا لیکن زندگی جس کو جتنی ملی ہے اس سے زیادہ کوئی جی نہیں سکتا، لہٰذا ان کی تحریریں ہی میرے لیے سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔ ان کی بیشتر مطبوعہ تحریریں میرے پاس موجود ہیں۔ دید و دریافت، تلاشِ غالب اور تلاشِ میر کے ذاتی نسخے بھی میرے پاس ہیں۔ ان کی مطبوعہ کتابوں کی نئی اشاعت بھی عمل میں آئے گی اور جو تحریریں کتابوں میں شامل نہیں ہوسکیں انہیں بھی کتابی شکل میں پیش کیا جائے گا۔ مصحفی میں ان کی دلچسپی سے سبھی واقف ہیں۔’ ذکر مصحفی‘ کے عنوان سے ’برہان‘ میں قسط وار ان کا مضمون شائع ہوتا رہا، کچھ اور مضامین ہیں جو مصحفی سے متعلق ہیں۔مصحفی پرتمام مضامین ’تلاش مصحفی‘ کے نام سے منظر عام پر آئیں گے۔حیدر آباد’ سیاست‘ میںان کا کالم ’ گویا دبستاں کھل گیا‘شائع ہوتا تھا۔ یہ کالمز بھی جلد اسی نام کے ساتھ کتابی شکل میں شائع ہوں گے۔’ نقد ملفوضات‘ پاکستان سے شائع ہوئی تھی، یہ کتاب بھی اضافوں کے ساتھ منظر عام پر آئے گی۔ عربی زبان و ادب سے متعلق ان کے مضامین بھی شا ئع ہوں گے۔ شخصی مضامین کو بھی کتابی صورت میں پیش کیا جائے گا۔

’’نکتہ ہائے فاروقی ‘‘ کے کچھ مضامین کی کتابت نثار احمد فاروقی کی زندگی میں ہو چکی تھی۔ایک ملاقات میں انہوں نے ان مضامین کو میرے حوالے کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ سرور انہیں دیکھ لو ایک کتاب بن سکتی ہے۔‘‘ یہ بات ان کے انتقال سے کوئی ایک سال قبل کی ہے۔ 2004 میں وہ رخصت ہوئے۔نثار احمد فاروقی کے رخصت ہونے کے کم و بیش 14 سال بعد کتابت شدہ اور کچھ دوسرے مضامین کتابی شکل میں شائع ہو رہے ہیں۔ ان کی زندگی میں آخری کتاب ’مقالات فاروقی‘ شائع ہوئی تھی۔اس کتاب کے سلسلے میں کئی نام ذہن میں آئے، پھر مجھے شمس الرحمن فاروقی صاحب کا خیال آیا کہ ان سے درخواست کروں۔ پروفیسر بارا ںفاروقی صاحبہ کو فون کیا وہ ان دنوں الٰہ آباد میں تھیں۔پروفیسر باراں سے کہا کہ نثار احمد فاروقی کی کتاب کے تعلق سے فاروقی صاحب سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بات جیسے ہی فاروقی صاحب تک پہنچی وہ اپنی مصروفیات کے درمیان دوسرے فاروقی کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔ میرے ذہن میں اقبال کا مصرع تھا ’’کہ نکتہ ہاے خودی ہیں مثال تیغ اصیل‘‘ فاروقی صاحب نے فرمایا کہ ’نکتہ ہائے فاروقی‘ رکھ سکتے ہو۔نثار احمد فاروقی کے انتقال کے بعد ’اردو ادب‘ میں شمس الرحمن فاروقی کا ایک مضمون شایع ہوا تھا جسے میں نے ان کی اجازت سے ’’نکتہ ہاے فاروقی‘‘ میں سرسخن کے عنوان سے شامل کر لیا ہے۔ یہ مضمون نثار احمد فاروقی کے تمام علمی فتوحات کا احاطہ کر لیتا ہے۔ اس مضمون کو پڑھ کر مجھ پرجو کیفیت طاری ہوئی تھی میں اس کے اظہار سے قاصر ہوں۔ ایک مرتبہ پھر اس بات پر میرا یقین پختہ ہو گیا کہ علم و ادب کی دنیا میں سب سے بڑی طاقت علم کی ہوتی ہے۔ کسی عالم کی زندگی میں یا اس کے انتقال کے بعد اسے کوئی ایسا عالم ضرور مل جاتا ہے جو صحیح معنوں میں اس کی علمیت اور ذہانت کا معترف ہوتا ہے اور محرمدار بھی۔میں ایک مرتبہ نثار احمد فاروقی کے دولت خانہ پر تھا،انہوں نے تھوڑی دیر کے بعد یہ اطلاع دی کہ شمس الرحمن فاروقی صاحب ان کے گھر تشریف لا رہے ہیں۔ پھر وہ ان کے استقبال کے لیے گھر سے باہر آنے لگے۔ میں بھی ان کے ساتھ آگیا۔ جس وقت انہوں نے فاروقی صاحب کا نام لیا اور استقبال کی بات کی ان پر ایک سرشاری کی کیفیت تھی۔ احترام کا ایسا جذبہ میں نے ان کے یہاں بہت کم لوگوں کے لیے دیکھا ہے۔خود شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مضمون میں جس طرح نثار احمد فاروقی کی علمیت اور ذہانت کا اعتراف کیا ہے وہ ایک واقعہ ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ لوگ نام تو لیتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ ان کا اختصاص کیا ہے اور تنقید و تحقیق میں ان کی اولیات کیا ہیں۔اردو کے اہم نقادوں نے نثار احمد فاروقی پر لکھا نہیں، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہیں نثار احمد فاروقی کے علمی و ادبی مرتبے کا احساس نہیں ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو ناقدین کا خالص نقاد بن جانا ہے اور تحقیقی معاملات سے خود کو الگ کرنا ہے۔ مگر ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں میں نے نثار احمد فاروقی کے تعلق سے خاموش دیکھا یا وہ کبھی گویا بھی ہوئے تو ہلکی باتیں کیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری ترجیحات میں جو چیزیں شامل ہیں ان سے نثار احمد فاروقی کی علمیت اور ذہانت کا رشتہ مشکل ہی سے قائم کیا جاسکتا ہے، لہذا محفوظ راستہ خاموشی ہے۔شمس الرحمن فاروقی کے علاوہ اردو کے کسی نقاد نے نثار احمد فاروقی کی علمی اور تحقیقی کار گزاریوں کی طرف متوجہ نہیں کیا۔شمس الرحمن فاروقی نے اپنی کتاب’ تفہیم غالب‘ کا انتساب نثار احمد فاروقی کے نام کیا ہے۔’تفہیم غالب‘ کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں:

’’گذشتہ اشاعت میں کوئی انتساب نہ تھا۔ اس وقت نثارا حمد فاروقی حیات سے تھے۔ وہ میرے لیے عزیز دوست ہونے کے علاوہ ہمارے وقت کے سب سے بڑے علمائے ادب اور غالب شناسوں میں ممتاز تھے۔ افسوس کہ اب وہ ہم میں نہیں ہیں۔ یہ اوراق بے وقعت ان کی یاد کو ایک دوست کا خراجِ تحسین ہے۔‘‘
نثار احمد فاروقی کی یاد میں:
یوسف حسنی و ایں عالم چو چاہ
دیں رسن صبر ست بر امرِ الٰہ
یوسفا آمد رسن در زن دو دست
از رسن غافل مشو بیگہ شدہ ست
در رسن زن دست بیروں روزچاہ
تا بہ بینی بارگاہ بادشاہ
چشم حس اسپ ست و نورِ حق سوار
بے سوار ایں اسپ خود ناید بکار
چشم اسپ از چشم شہ رہبر بود
چشم او بے چشم شہ مضطر بود
نور حق برنور حسّ را کب شود
واں گہے جاں سوے حق راغب شود
(مولانا ئے روم مثنوی شریف، دفتر دوم)
تلاش میر( اشاعت دوم) پر شمس الرحمن فاروقی نے تبصرہ بھی کیا تھا۔انہوں نے میر کے تعلق سے نثار احمد فاروقی کی جو بصیرتیں ہیں ان کی جانب اشارہ کیا ہے۔البتہ میر کے تنقیدی محاکمے کے سیاق میں انہوں نے نثار احمد فاروقی کی ’ میر تنقید‘ کی کچھ گرفت بھی کی تھی۔مجموعی طور پر شمس الرحمن فاروقی نے نثار احمد فاروقی کی میر شناسی کے امتیازات کو نشان زد کیا ہے۔ انہوں نے دہلی کالج میگزین کے میر نمبر کے سلسلے میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ’’نثار صاحب نے اس نمبر کو ہر معنی میں یادگار بنا دیا۔ کاش کہ یہ دوبارہ چھپ سکتا‘‘، جلد ہی اس نمبر کی اشاعت عمل میں آجائے گی اور شمس الرحمن فاروقی صاحب کی یہ خواہش بھی پوری ہوگی۔ شمس الرحمن فاروقی کو نثار احمد فاروقی کے تبحر علمی کا نہ صرف احساس و ادراک ہے بلکہ وہ اس کے اعتراف میں فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ عام طور پر ہمارے اردو کے نقاد علمی و تحقیقی تحریروں کو توجہ سے پڑھتے نہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے صرف ادبی تحریروں کا مطالعہ اور تجزیہ نہیں کیا ہے بلکہ ان کی دلچسپی مختلف علوم و فنون سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں نثار احمد فاروقی کی شخصیت ہر اعتبار سے ممتاز نظر آتی ہے۔ نثار احمد فاروقی کی تحقیقی اعتبار سے جو اولیات ہیں ہمیں نہ توان کا علم ہے اور نہ ہم انھیں جاننا ضروری سمجھتے ہیں۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ کسی ایک افسانے یا کسی ایک غزل کا تجزیاتی مطالعہ کرنے کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہمارا اصل سروکار تو متن سے ہے۔ کسی ادبی شخصیت یا کسی ادبی متن کے تاریخی اور تہذیبی سیاق کو دیکھنا عموماً غیرضروری سمجھاجاتا ہے۔ ایسی صورت میں نثار احمد فاروقی کی وہ تحریریں جن کا تعلق نہ صرف ادبیات سے بلکہ تاریخ اور تہذیب سے ہے انھیں دیکھنے کی زحمت کیوں کی جائے۔ شمس الرحمن فاروقی کی جدیدیت اور جدیدیت سے وابستہ دیگر ادبی معاملات زیر بحث آتے رہتے ہیں لیکن ہم اس پہلو پر غور نہیں کرتے کہ شمس الرحمن فاروقی کی ادبی شخصیت جدیدیت اور اس کے مباحث تک محدود نہیں ہے بلکہ مجھے تو شمس الرحمن فاروقی کی علمی اور ادبی شخصیت کے سیاق میں جدیدیت کے مباحث بہت چھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی اگر شمس الرحمن فاروقی ہیں تو اس کا سبب جدیدیت نہیں بلکہ ہماری وہ علمی وا دبی روایت ہے جسے انھو ںنے نہ صرف توجہ سے پڑھا ہے بلکہ اسے جذب کیا ہے اور وہ اسے ایک وحدت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے شمس الرحمن فاروقی اور نثار احمد فاروقی کی شخصیت میں بڑی مماثلت ہے۔ اس کتاب کا انتساب شمس الرحمن فاروقی کے نام ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس انتساب سے نثار احمد فاروقی کی روح یقینا خوش ہورہی ہوگی کہ ان کی ایک کتاب اس عہد کے سب سے بڑے عالم اور ان کے سب سے بڑے علمی مداح کے نام معنون کی گئی ہے۔
sarwar103@gmail.com