سرمایہ کاری کیلئے بیرونی کمپنیوں سے رابطے

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کی ترقی کا دار و مدار بیرونی کمپنیوں کی سرمایہ کاری پر ہے تو اس حکومت کو بیرون ملک بڑی کمپنیوں کو راضی کروانے میں زیادہ محنت و مشقت کی بھی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ تلنگانہ کی نو خیزی کے سامنے شہر حیدرآباد کی بزرگی اور اس کی پائیداری سے ساری دنیا واقف ہے ۔ اس لیے دنیا بھر کی بڑی کمپنیوں کے مالکین نے پہلے ہی سے حیدرآباد کے اطراف و اکناف اپنے اداروں کا جال پھیلا دیا ہے ۔ مزید براں ریاستی وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ نے حالیہ منعقدہ ڈاؤس چوٹی کانفرنس میں شریک مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والی بڑی کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات کر کے تلنگانہ میں سرمایہ کاری کے لیے نمائندگی کی ہے ۔ انہوں نے تلنگانہ کو ہندوستان کی اسٹارٹ اپ ریاست کے طور پر پیش کیا ہے ۔ ورلڈ اکنامک فورم میں پہلی مرتبہ حصہ لیتے ہوئے ملک کی نو خیز ریاست تلنگانہ نے سرمایہ کاروں کو راغب کرانے کی کوشش کی ہے ۔ مگر اس میں کس حد تک کامیابی ملی ہے یہ آنے والے دنوں میں معلوم ہوگا ۔ تلنگانہ میں جب یہ متحدہ آندھرا پردیش کا حصہ تھا دیگر ممالک کی کمپنیوں نے کافی دلچسپی دکھائی تھی ۔ سابق میں بھی جاپان ، جنوبی کوریا کی کمپنیاں یہاں قدم رکھی ہیں ۔ اس مرتبہ وزیر آئی ٹی کے ٹی راما راؤ نے جاپان اور جنوبی کوریا کے قائدین اور مندوبین سے ثمر آور بات چیت کی ہے ۔ جاپان کی کمپنیاں ریاست تلنگانہ میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتی ہیں ۔ کیوں کہ حکومت نے ان کمپنیوں کے لیے 100 فیصد رعایتیں دینے اور صد فیصد برقی و پانی کی سربراہی کا تیقن دیا ہے ۔ بلا شبہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنے منصوبوں کے مطابق ریاست میں سرمایہ کاری کے لیے ایک خوشگوار فضا قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی پالیسیوں کے سامنے ریاستی اپوزیشن پارٹیوں کو اپنے منصوبوں کی تیاری میں مشکل پیش آئے گی ۔ آنے والے اسمبلی انتخابات خالص تلنگانہ کی ترقی کے نام پر لڑے جاسکتے ہیں ۔ رائے دہندوں کے سامنے تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو اپنے سابق وعدوں کی تکمیل کے ثبوت پیش کرنے کے ساتھ ریاست میں بیروزگاری دور کرنے کے لیے حکومت کی کوششوں کی تفصیل بھی پیش کرنی ہوگی ۔ تلگو کی دو ریاستوں کے درمیان ترقیات کے شعبہ میں زبردست مسابقت بھی دیکھی جارہی ہے ۔ ڈاؤس میں جہاں ایک طرف کے چندر شیکھر راؤ کے فرزند کے ٹی راما راؤ نے سرمایہ کاری کے حصول کی کوشش کی ہے وہیں چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو نے اپنے فرزند کابینی وزیر لوکیش کے ساتھ عالمی معاشی فورم میں شریک ترقی یافتہ ملکوں کی بڑی کمپنیوں کے سربراہوں سے بات چیت کی ہے ۔ اس طرح معاشی ترقی کے حصول میں دونوں تلگو ریاستیں سرگرم ہیں ۔ لیکن تلنگانہ میں حکمراں پارٹی کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کی گمراہ کن مہم سے رائے دہندوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے ۔ اس لیے چیف منسٹر نے تلگو فلم کے اداکار پون کلیان کا اگر تعاون حاصل کیا ہے تو آنے والے انتخابات تک ان کی تلگو شہرت کا اثر ٹی آر ایس کے لیے معاون ثابت ہوگا ۔ جیسا کہ کانگریس الزام عائد کررہی ہے کہ ریاست تلنگانہ کا نوجوان ٹی آر ایس حکومت سے شدید ناراض ہے اس لیے نوجوانوں کی ناراضگی دور کرنے کے لیے چیف منسٹر کے سی آر نے پون کلیان کو درپردہ استعمال کرنا شروع کیا ہے جب کہ سیاسی حقیقت کیا ہے

یہ اپوزیشن کو بھی معلوم ہی ہے ۔ جناسینا سربراہ پون کلیان اپنی پارٹی کی بقا اور شہرت کے لیے تلنگانہ کے اضلاع کا دورہ کررہے ہیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کے اداکار پون کلیان نے حال ہی میں چیف منسٹر سے ملاقات کر کے ان سے سیاسی آشیرواد لیا تھا ۔ اس پر سیاسی حلقوں میں سرگوشیاں شروع ہوئیں تھی کہ 2014 کے اسمبلی انتخابات سے قبل چندر شیکھر راؤ اور پون کلیان نے ایک دوسرے کے خلاف میان میں سے تلواریں کھینچ لی تھیں ۔ اب اچانک باہم سیاسی دوست بن کر عوام کو بے وقوف بنانے کے خفیہ ایجنڈہ پر عمل کررہے ہیں ۔ اپوزیشن کی یہ شکایت بھی غور طلب ہے کہ حکومت نے ایک طرف اپنے شدید ناقد پروفیسر کودنڈا رام کو جلسہ عام منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی ہے جب کہ پون کلیان کو سرخ قالین استقبال کے ساتھ جلسہ کرنے کی اجازت مل چکی ہے ۔ پون کلیان اپنے بھائی چرنجیوی کی طرح سیاسی ناکام کھلاڑی ثابت ہوسکتے ہیں ۔ انہیں موسمی پھل قرار دے کر یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ سیاستداں نہیں ہیں ۔ نئی ریاست تلنگانہ کیلئے غیر سنجیدہ سیاستداں نقصان دہ ہی ثابت ہوں گے ۔ بہر حال تلنگانہ کی سیاسی گرما گرمی کے درمیان ریاست کے خاص کر حیدرآباد کے مسلمانوں کی شادی تقاریب اور دھوم دھام ، اسراف ، بیجا رسومات رات دیر گئے تک شادی خانوں میں جشن کا ماحول ختم کرنے کے لیے وقف بورڈ چیرمین نے بڑا قدم اٹھایا ہے ۔ شادیوں میں ایک میٹھا ایک کھانا کی مہم کی طرح اب شادی خانوں میں رات 12 بجے کے بعد تقاریب منعقد نہ کرنے کی کوشش شروع کی جارہی ہے ۔ اس سلسلہ میں وقف بورڈ نے قاضیوں کو بھی سخت ہدایت دی ہے کہ وہ 9 بجے کے بعد نکاح پڑھائیں گے تو انہیں سیاہنامہ نہیں دیا جائے گا ۔ رات دیر گئے کی شادیوں سے ان دنوں ہر کوئی پریشان ہے ۔ رشتہ دار ، شادی کی دعوت دینے والے ہر دو دلہا والے اور دلہن والے ، میزبانوں کو شکایات ہیں کہ ان کے مہمان ہی وقت پر حاضر نہیں ہوتے ۔ دوسری طرف جو مہمان وقت کے پابند ہوتے ہیں ان کی شکایت ہے کہ دلہا وقت پر نہ آنے سے شادی تقریب میں تاخیر ہورہی ہے ۔ بعض واقعات میں رات کے 12 بجے کے بعد دلہا کی شادی خانہ میں آمد ہوتی ہے ۔ اس سے پہلے میزبانوں کو مجبوراً اپنے مہمانوں کو کھانا کھلا کر رخصت کرنا پڑتا ہے اور جب دلہا نکاح کے لیے موجود رہتا ہے تو مہمان دور دور تک نظر نہیں آتے ۔ بڑے شادی خانوں کی کرسیاں خالی خالی نظر آتی ہیں اور شادی کی محفل ایک ویران اور سنسان جگہ میں تبدیل دکھائی دیتی ہے ۔ مسلمانوں کی شادیوں کو وقت پر ختم کرنے کے لیے پولیس کی مدد لینی پڑرہی ہے ۔

وقف بورڈ نے پولیس سے درخواست کی ہے کہ وہ رات دیر گئے کی شادیوں کو روکنے میں تعاون کرے ۔ اس سلسلہ میں جامعہ نظامیہ کو بھی پولیس پر زور دینا پڑا کہ وہ شادی خانوں کے انتظامیہ پر زدور دے کر وقت مقررہ یعنی 12 بجے سے پہلے شادی تقریب کو مکمل کرنے کے لیے پابند کردیں ۔ جامعہ نظامیہ نے بعض مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے والی غیر اسلامی طور طریقوں اور رسومات و خرابیوں کا وقتاً فوقتاً نوٹ بھی لیا ہے مگر کسی پر کوئی اچھی بات اثر انداز نہ ہو تو پورے معاشرہ کے بارے میں لوگوں کے تاثرات تبدیل ہوتے ہیں ۔ 2015 میں ساوتھ زون پولیس نے جامعہ نظامیہ سے فتویٰ بھی مانگا تھا کہ آیا دھوم دھام کی شادیوں کو ختم کیا جاسکتا ہے خاص کر شادی خانوں میں گانا پارٹیوں ، خاتون ڈانسروں کے رقص اور آتشبازی کے بے ہودہ واقعات عام ہوتے جارہے ہیں ۔ اچھی شروعات کے لیے ضروری ہے کہ ہر ایک کو اصول پسند اور عملی مظاہرہ کرنے کا پابند ہونا چاہئے ۔ کہنے والا اور سننے والے ہر دو کو عملی طور پر اصولوں کی پابندی کرنی ہوگی مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ سننے والے سے زیادہ کہنے والا ہی اپنی بات و موقف کے برعکس عمل کر کے اس کو درست ٹھہراتا ہے اور خرابی یوں ہی برقرار رہتی ہے بلکہ اس میں ان دنوں شدت بھی دیکھی جارہی ہے ۔ مسلمانوں کے چند گوشوں میں ایک عادت یہ بھی ہے کہ ہر معاملہ میں یہ لوگ صلاح و مشورہ ضرور کرتے ہیں ۔ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہونے کے باوجود نام نہاد مولویوں ، باباؤں اور پاکھنڈیوں سے مسئلہ کا حل مانگتے ہیں ۔ اس حوالے سے یہ واقعہ بھی آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ کھانے پینے کی لالچ میں بکرے نے لوٹے میں منہ ڈالا سر پھنس گیا ، ہزار کوششوں کے باوجود بکرے کے سر سے لوٹا نہیں نکل سکا ۔ بکرے کا مالک قریب میں واقع نام نہاد بابا کے پاس گیا ۔ اس بابا نے کہا کہ مکان گرادو تاکہ قیمتی لوٹا بچ جائے ۔ مکان مسمار کیا گیا ۔ لیکن بکرے کا سر بدستور لوٹے میں پھنسا رہا ۔ بابا نے اس معاملہ کو دوبارہ سنا اور کہا کہ بکرا ذبح کرادو بکرا ذبح کردیا گیا لیکن بکرے کا سر بدستور لوٹے میں پھنسا رہا ۔ مسئلہ کو دوبارہ بابا سے رجوع کیا گیا تو تیسری بار بابا نے غور سے سنا اور فیصلہ کیا کہ ’ لوٹا توڑ دیا جائے ‘ ایک طرف مکان کا ملبہ اٹھایا جارہا تھا ، بکرے کا گوشت کاٹا جارہا تھا اور نادر لوٹے کے ٹکڑے بکھیرے پڑے تھے ۔ لوگوں نے دیکھا بابا جی ایک طرف اداس بیٹھے ہیں ۔ لوگوں کو بابا کی اداسی دیکھی نہیں گئی اور ان سے پوچھ لیا تو بابا نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ سوچ سوچ کر افسوس کررہا ہوں کہ جب میں تمہارے درمیان نہیں رہوں گا تو تمہارے لیے ایسے فیصلے کون کرے گا ؟ ۔
kbaig92@gmail.com