سرراس مسعود کی ایک نایاب کتاب

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
سرراس مسعود کی اہمیت اس لئے نہیں ہے کہ وہ سرسید احمد خان کے پوتے تھے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ایک بلند پایہ ماہر تعلیم اور علم و حکمت کا سرچشمہ تھے ۔ اس سرچشمے سے ریاست حیدرآباد بھی سیراب و فیض یاب ہوئی ہے ۔ سرراس مسعود نے ریاست حیدرآباد میں جو تعلیم کے شعبہ میں پیچھے اور پسماندہ تھی اور جہاں خواندگی کا فیصد بہت کم تھا ، علم کی روشنی پھیلانے اور تعلیمی ترقی کے لئے بے حد اہم خدمات انجام دیں ۔ ریاست حیدرآباد کی تعلیمی ترقی میں حصہ لینے والوں میں اس سلسلے میں حکومت وقت اور حکمران کی مرضی اور عزائم سے متعلق اس دور کی تعلیمی پالیسی اور پروگرام کوکامیاب بنانے والوں میں سرراس مسعود کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں ریاست حیدرآباد کے حکمران میر عثمان علی خان آصف سابع نے انھیں مسعود جنگ کا خطاب دیا اور حکومت ہند کی جانب سے انھیں ’’سر‘‘ کا خطاب ملا ۔
سرراس مسعود کی ابتدائی تعلیم و تربیت دادا سرسید احمد خان اور باپ جسٹس سید محمود کی خاص نگرانی میں ہوئی ۔وہ کم عمری ہی میں دادا اور باپ کی محبت ، شفقت اور نگرانی سے محروم ہوگئے ۔ راس مسعود 1905ء میں دسویں جماعت کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد سرکاری وظیفے پر برطانیہ گئے ، جہاں سے بی اے (آنرز) اور بارایٹ لاء کی ڈگری حاصل کرکے وطن واپس ہوئے ۔ ابتداء میں پٹنہ میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا ، لیکن انھیں جب اندازہ ہوا کہ یہ پیشہ ان کے لئے ناموزوں ہے تو انھوں نے حکومت بہار و اڑیسہ کی انڈین ایجوکیشن سروس سے وابستگی اختیار کرلی ۔ حکومت ریاست حیدرآباد نے سرراس مسعود کی اعلی قابلیت اور صلاحیتوں کا اندازہ کرتے ہوئے ان کی خدمات حکومت بہار و اڑیسہ سے مستعار لیں اور محکمہ تعلیمات کے ناظم کے عہدے پر مامور کیا ۔ اس حیثیت سے انھوں نے تقریباً بارہ سال (2 اگست 1916 تا 25 جولائی 1928ء) تک ریاست حیدرآباد میں جو خدمات انجام دیں اسے بہت سراہا گیا ۔ جب راس مسعود ریاست حیدرآباد میں ناظم تعلیمات تھے ان کی اس ملازمت کے دوران میں حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایڈمنسٹریشن رپورٹ میں محکمہ تعلیمات بابت 1927-1926 پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی شاندار خدمات کو حسب ذیل الفاظ میں سراہا تھا ۔

’’راس مسعود کے دور نظامت میں مدارس اور طلبہ کی تعداد تین گنا ہوگئی ہے ۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس پر وہ بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں ۔ انھوں نے جامعہ عثمانیہ کے قیام اور اس کے بعد اس کے امور میں مستعدی سے حصہ لے کر جامعہ عثمانیہ کی جو خدمات انجام دی ہیں ، اس کے لئے حکومت ان کی شکر گزار ہے ۔ متعدد کارکرد عہدیداروں کی تربیت راس مسعود کا ایک اور کارنامہ ہے‘‘ ۔
راس مسعود ریاست حیدرآباد میں بارہ سال تک ناظم تعلیمات کے عہدے پر کارگزار رہنے کے بعد علالت کے باعث مستعفی ہوئے اور علاج و آرام کے لئے جرمنی چلے گئے ۔ انھیں دوبارہ ملازمت کے لئے حیدرآباد طلب کیا گیا تھا مگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے کی پیشکش کی وجہ سے وہ حیدرآباد نہیں آسکے ۔ وہ پانچ سال تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ۔ بعد ازاں انھیں ریاست بھوپال کا وزیر تعلیمات و امور عامہ مقرر کیا گیا جہاں وہ طویل علالت کے بعد 30 جولائی 1937 ء کو انتقال کرگئے ۔ ممتاز ناول نگار فوسٹر نے اپنی کتاب “A Passage of India” راس مسعود کے نام معنون کی تھی جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بیرون ملک کے دانشوروں اور ادیبوں سے ان کے کتنے گہرے مراسم تھے ۔

راس مسعود نے اپنے دور نظامت میں حکومت کو ایک درخواست پیش کی تھی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ حکومت میسور نے تعلیمی امور کے مطالعے کی غرض سے اپنے ناظم تعلیمات کو یوروپ کے ممالک ، امریکہ اور مشرق بعید روانہ کیا تھا جنھوں نے مختلف ممالک کے دوروں کے دوران وہاں کے ماہرین تعلیم سے تبادلہ خیال کیا ۔ مختلف ماہرین تعلیم سے گفتگو اور ان کے مشوروں سے ریاست میسور کی تعلیمی ترقی میں بہت مدد ملی ۔ حکومت ہند نے بھی اپنے محکمہ تعلیمات کے ایک عہدیدار کو جاپان بھیجا تھا ۔ ریاست حیدرآباد تعلیم کے میدان میں روز افزوں ترقی کررہی ہے اور گذشتہ پانچ سال میں طلبہ کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے ۔عثمانیہ یونیورسٹی میں صرف انگریزی ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے جبکہ جملہ علوم وفنون کی تعلیم اردو میں دی جاتی ہے ۔ چونکہ مشرقی ممالک میں جاپان کی تعلیم کا معیار یوروپ کے اعلی تعلیم یافتہ ممالک کے مماثل تسلیم کیا گیا ہے اور جاپان کی یونیورسٹیوں میں جملہ علوم کی تعلیم جاپانی زبان کے ذریعے دی جاتی ہے ۔ اس لئے وہاں کی حیرت انگیز ترقی کے مشاہدے کی ضرورت ہے ۔ راس مسعود نے اپنی درخواست میں یہ بھی لکھا کہ جاپان میں وہ ان امور کا بطور خاص مطالعہ کریں گے (۱) جاپان نے ایک ہی صدی میں مختلف کتابوں کے ترجمہ کرلئے اور علوم و فنون کی تعلیم جاپانی زبان کے ذریعے دینا شروع کردی ۔ اس مقصد کے حصول میں کیا دقتیں پیش آئیں اور کیا تدابیر اختیار کرنی پڑیں؟ (۲) جاپان کی موجودہ پالیسی کیا ہے اور اس کی تکمیل کے لئے کیا تدابیر عمل میں لائی جارہی ہیں (۳) وہاں محکمہ تعلیمات تحتانیہ مدارس کے ذریعہ تجارت اور صنعت و حرفت کو فروغ دینے کے لئے کس طرح مدد کررہا ہے ؟ (۴) مغربی علوم و فنون اور مغربی تعلیمی طریقوں کو اختیار کرنے کے باوجود جاپانیوں نے اپنی تعلیم کی قومی خصوصیات باقی رکھنے کے لئے کیا تدابیر اختیار کی ہیں ؟ (۵) قومی زندگی میں صنعتی مدارس سے کتنی مدد ملی؟
راس مسعود نے یہ باتیں تحریر کرنے کے بعد استدعا کی کہ انھیں پانچ ماہ کے لئے جاپان بھیجنے کی منظوری دی جائے اور یہ پانچ ماہ کی مدت فرائض اغراض سرکاری میں محسوب کی جائے ۔ راس مسعود کو پانچ ماہ کے لئے جاپان بھیجنے کی منظوری دی گئی اور ان کو ہدایت دی گئی کہ جاپان سے واپسی کے بعد جس قدر جلد ہوسکے وہ مکمل و جامع رپورٹ پیش کریں ۔

راس مسعود 8 مارچ 1922 ء کو جاپان کے لئے روانہ ہوئے اور جاپان کے دورے سے واپس ہونے کے بعد اپنی خدمت پر رجوع ہوئے ۔ جاپان واپس ہونے اور اپنی رپورٹ مکمل کرنے کے بعد انھوں نے استدعا کی کہ ان کی مرتبہ جامع رپورٹ عام استفادے کی غرض سے انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں شائع کی جائے ، لیکن اس رپورٹ کا اردو ترجمہ شائع کیا گیا ۔
ریاست حیدرآباد نے عام ترقی اور خاص کر تعلیم کی ترقی کے لئے جس دوربینی سے کام لیا اور جس عمیق غور وفکر ، تجربے ، مشاہدے اور مطالعے کے ذریعے ترقی کی راہیں ہموار کیں اس کا کچھ اندازہ راس مسعود کے دورہ جاپان سے بھی ہوتاہے ۔ برطانوی ہند کی دیسی ریاست ہونے کے باوجود ریاست حیدرآباد کے پالیسی سازوں اور حکمران ریاست نے صرف تقلید فرنگ اور اندھی تقلید کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے اور مشرق سے بھی کس طرح سورج طلوع ہورہا ہے ۔ جاپان کی مثال اور دوسری مثالوں اور معلومات کی روشنی میں اس ریاست نے داخلی حالات کے مطابق ہر سطح پر تعلیم اور فنی تعلیم وتربیت کو ترقی دی ۔
راس مسعود کی مرتب کردہ رپورٹ جس کا اردو ترجمہ انجمن ترقی اردو ہند نے کتابی صورت میں شائع کیا تھا ، اب نایاب ہے ۔ مجھے تلاش بسیار کے بعد اس کتاب کا نسخہ سالار جنگ میوزیم لائبریری میں دستیاب ہوا ۔ میں اس کتاب کے بارے میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس کی اہمیت و وقعت کا اندازہ ہوسکے ۔ راس مسعود کی انگریزی رپورٹ کا مولوی عنایت اللہ ، ناظم شعبہ تالیف و ترجمہ (دارالترجمہ) جامعہ عثمانیہ نے اردو میں ترجمہ کیا تھا جسے انجمن ترقی اردو ہند نے 1924 میں ’’جاپان اور اس کا تعلیمی نظام‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیا ۔ تقریباً زائد از 90 سال قبل شائع شدہ 482 صفحات پر مشتمل یہ کتاب 24 ابواب میں منقسم ہے جن میں سے چند اہم ابواب یہ ہیں ۔ ملک اور ملک کے لوگوں کے خصائل ، جاپانیوں کا مذہب ، مغربی علوم کی تحصیل ، جاپان کا دنیا کی ایکبڑی طاقت ہوجانا ، جاپانی زبان ، تعلیم میں مساوات ، سررشتہ تعلیم ، تنظیم تعلیم ، لڑکیوں کے مدارس ، لڑکیوں سے مدارس خانہ داری ، یونیورسٹیاں ، مدارس معلمی ،اندھوں ، بہروں اور گونگے کے مدارس ، تعلیم صنعت و حرفت ۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں کے باہمی تعلق اور تنظیم مدارس سے متعلق چھ نقشے بھی کتاب میں شریک کئے گئے ہیں ۔ اس کتاب میں راس مسعود کا چھ صفحے کا دیباچہ شامل ہے ۔ اس کتاب کے سرسری مطالعے سے بھی راس مسعود کی سخت محنت اور گہرے مشاہدے کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ راس مسعود نے جاپان میں ساڑھے تین مہینے شدید مصروفیت میں صرف کئے ۔ ان کا زیادہ تر وقت وہاں کے سرکاری دفتر میں بیٹھ کر کام کرنے ، تعلیمی اداروں کا معائنہ کرنے اور مختلف عہدیداروں سے ملاقاتوں میں گزر گیا ۔ بعد ازاں جو کچھ وقت ان کو ملا تھا انھوں نے اس کوشش میں صرف کیا کہ جاپان کو سمجھیں اور وہاں کے عوام کے تخیلات معلوم کریں ۔ جب انھوں نے جاپان کے تعلیمی نظام کو گہری نظر سے دیکھا ان کو اس بات کا یقین ہوتا گیا کہ تعلیم کے مختلف اداروں کو محض شمار کرادینا یا لکھنا کافی نہیں بلکہ جاپان کی خالص تعلیمی کوششوں کو بخوبی سمجھنے کے لئے اس کی سیاسی تاریخ کا بھی کچھ حال جاننا ضروری ہے ۔ چنانچہ انھوں نے کسی قدر تفصیل سے جاپان کے سیاسی حالات سے بھی بحث کی ہے ۔ جاپان کی حیرت انگیز ترقی نے راس مسعود کی آنکھوں کو خیرہ کردیا تھا ۔ وہ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں ’’اگر یہ خیال کیا جائے کہ موجودہ جاپان کی تیز روشنی نے میری آنکھوں کو چکاچوند کردیا ہے اس کی وجہ زیادہ تر یہ سمجھنی چاہئے کہ میں اس اندھیرے سے نکلا تھا جو ہم کو ہند میں گھیرے ہوئے ہے‘‘ ۔