سردی کی بناء ، تیمم کرنا

سوال : میری عمر ساٹھ (60) سال ہے، میں صوم و صلوۃ کی بچپن سے پابند ہوں۔ حالیہ عرصہ میں بیمار ہوئی تھی، الحمد للہ اب بہتر ہوں، بسا اوقات فجر کے وقت سردی محسوس ہوتی ہے تو کیا ایسے وقت میں مجھے تیمم کی اجازت مل سکتی ہے یا مجھے وضو کرنا چا ہئے۔
دلشاد
جواب : سردی کی وجہ سے تمام ائمہ کے اجماع کے مطابق تیمم کرنا صحیح نہیں، البتہ اتنی سخت سردی ہو کہ جس کی وجہ سے عضو کے تلف ہوجانے کا اندیشہ ہو یا بیماری کے بڑھنے کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں تیمم کرنا درست ہے۔ نفع المفتی والسائل ص : 14 میں ہے : اذا الم تخف فوات العضو اوزیادۃ المرض وغیرہ من الاعذار المرخصۃ للتیمم لا یجوز التیمم بمجرد شدۃ البرد بالا جماع من خزانۃ الروایۃ عن الغیاثیۃ۔
لہذا حسب صراحت صدر آپ عمل کریں۔ تاہم سردی کے موقع پر آپ پانی گرم کر کے وضو کرلیا کریں تو بہتر ہے۔

عدت
سوال : بڑے افسوس کے ساتھ ہمیں سوال کرنے کی جرات کی جارہی ہے کہ ہمارے قریبی لوگوں میں ایک لڑکا اور لڑکی غلط کام کا ارتکاب کرلئے ۔ وہ دونوں آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں۔ اس کی اطلاع جب سرپرستوںکو ہوئی تو انہوں نے دونوں کا نکاح کرنا طئے کیا ہے اور دونوں کے گھر والے اس کے لئے راضی ہیں۔ کس نے کہا کہ عدت تین مہینے گزرنے کے بعد ہی دونوں کی شادی کی جاسکتی ہے۔ شرعی لحاظ سے صحیح حکم بیان فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
نام مخفی
جواب : شرعاً عدت کا لزوم شوہر کے طلاق دینے یا اس کی موت واقع ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے: ردالمحتار جلد سوم کتاب الطلاق مطلب فی عدۃ الموت ص : 562 مطبعہ دارالفکر بیروت میں ہے : و انما العدۃ لموت الزوج أو طلاقہ ۔ زنا کی وجہ سے ازروئے شرع عدت کا لزوم نہیں۔ اسی کتاب کے ص : 561 میں ہے : فلاعدۃ علی الحامل من زنا اصلا۔
لہذا دریافت شدہ مسئلہ میں زنا کے بعد اسی شخص سے شادی ہورہی ہے تو اس میں عدت نہیں جب چاہیں دونوں کی شادی ہوسکتی ہے۔ البتہ دوسرے شخص سے نکاح ہورہا ہے تو اس کی مزید تفصیلات ہیں۔

امام کا سلام کے وقت چہرہ مکمل نہ پھیرنا
سوال : آپ سے ایک اہم مسئلہ دریافت کرنا یہ ہے کہ ہمارے امام صاحب کی غیر موجودگی میں ہماری مسجد کے صدر صاحب نے امامت کی اتفاقاً ان کی گردن میں تکلیف تھی جس کی وجہ سے وہ سلام پھیرتے وقت اپنا مکمل چہرہ نہیں پھیر سکے جس پر بعض مصلی حضرات نے کہہ دیا کہ نماز نہیں ہوئی ۔ دوبارہ نماز پڑھی جائے لیکن صدر صاحب نے عذر پیش کیا کہ میں نے سلام پھیرا ہے لیکن تکلیف کی وجہ مکمل طور پر نہیں پھیر سکا۔ نماز ادا ہوگئی۔ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ سے دریافت کرنا یہ ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے نماز ہوئی یا نہیں ؟
نام…
جواب : تشھد کے بعد سلام کے وقت چہرے کو اچھی طرح پھیرنا مسنون ہے یعنی سیدھے جانب سلام پھیرتے وقت چہرے کو اتنا گھمانا کہ اس کا دایاں گال نظر آئے اور بائیں جانب سلام کے وقت اس کا بایا گال نظر آنا مسنون ہے ۔ ردالمحتار جلد 1 ص : 565 میں ہے ۔ وفی البدائع : یسن ان یبالغ فی تحویل الوجہ فی التسلمتین و یسلم عن یمینہ حتی یری بیاض خدہ الایمن وعن یسارہ حتی یری بیاض خدہ الایسر۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں ازروئے فقہ حنفی نماز کے کل ارکان پورے ہوجانے کے بعد نماز کو ا پنے کسی منافی نماز عمل سے ختم کرنا فرض ہے اور لفظ السلام علیکم سے ختم کرنا واجب ہے۔ لہذا مسجد کے صدر نے نماز کے اختتام پر السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہا ہے تو فرض و واجب دونوں کی ادائیگی ہوگئی۔ اس لئے نماز مکمل ہوگئی ، دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اچھی طرح چہرہ نہ پھیرنے کی وجہ سنت ترک ہوگئی ہے۔ عذر کی بناء انشاء اللہ قابل معافی ہوگی۔

ناپاکی اور اذان کا جواب دینا
سوال : یہ بات مشہور ہے کہ اذان کا جواب دینا ضروری ہے۔ بسا اوقات آدمی کو غسل کی ضرورت لاحق رہتی ہے ۔ ایسی صورت میں بھی اذان کا جواب دینا لازم ہے یا نہیں ؟ اسی طرح گھر میں خواتین کبھی ناپاکی کی حالت میں رہتی ہیں تو ان کیلئے کیا حکم ہے ؟
احسان فریدی ، مراد نگر
جواب : اذان سننے والے پر اس کا جواب دینا واجب ہے ، اگرچہ وہ جنبی ہو یعنی اسکو غسل کی حاجت ہو البتہ حیض و نفاس والی عورتوں پر اذان کا جواب دینا نہیں ہے۔ جنبی (یعنی جس کو غسل کی ضرورت لا حق ہو) کا اذان دینا منع ہے۔ اذان کا جواب دینا منع نہیں۔ در مختار جلد اول کتاب الصلاۃ باب الاذان ص : 427 میں ہے : (و یجیب) وجوبا وقال الحلوانی ندبا والواجب الاجابۃ بالقدم (من سمع الاذان) ولو جنبالاحائضا و نفساء اور ردالمحتار میں ہے : (ولو جنبا) لأن اجابۃ المؤذن لیست بأذان۔
عدت کا اعتبار و قوع طلاق سے ہوگا
سوال : میرے داماد بیرون ملک میں ملازم ہیں، ان کا لڑکی کے ساتھ فون پر جھگڑا ہوا اور چند ماہ قبل انہوں نے فون پر لڑکی کو تین مرتبہ طلاق دیدیا اور ان کا ذکر میرے لڑکوں کے سامنے کیا اور اپنے ماں باپ بھائی بہنوں کو بھی اطلاع کردیا۔ اس کے بعد سے ہم مسلسل ان سے ربط کرنے کی کوشش کئے لیکن انہوں نے ہم سے بات نہیں کی ، ہم ان کے والدین سے گفتگو کئے تو انہوں نے کہا کہ لڑکا آنے والا ہے، آنے کے بعد بالمشافہ گفتگو کریں گے ۔فون پر اتنے اہم مسئلہ پر گفتگو کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہم بچے کے آنے کا انتظار کرتے رہے ۔ چھ ماہ بعد لڑکا حیدرآباد آیا ۔ بات چیت کے دوران لڑکے نے اقرار کیا کہ اس نے فون پر تین طلاقیں دی ہیں۔
اب آپ سے سوال یہ ہے کہ فون پر دی گئی تین طلاقیں واقع ہوئیں یا نہیں ۔ اگر واقع ہوئیں ہیں تو عدت کا اعتبار کب سے ہوگا ۔ جب اس نے ہمارے سامنے اقرار کیا ہے یا اس وقت سے جب اس نے فون پر تین طلاق کہا تھا۔
نام ندارد
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں شوہر نے جس وقت اپنی بیوی کو فون پر تین مرتبہ طلاق کہا اسی وقت بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوکر شوہر سے تعلق زوجیت بالکلیہ منقطع ہوگیا اور اس نے طلاق دینے کے بعد دو گواہوں کے سامنے طلاق دینے کا اقرار بھی کیا ہے تو اسی وقت سے عدت کا شمار ہوگا۔

اخلاقی انحطاط
سوال : مسلم معاشرہ میں روز بہ روز خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں اور مسلمان برائی کو برائی نہیں سمجھ رہا ہے، غیبت ، چغلی دوسرے کی ٹوہ میں رہنا کسی کی برائی بیان کرنا اور اس پر ہنسنا اس طرح کی اخلاقی خرابیاں مسلم معاشرہ میں بڑھتی جارہی ہیں۔ بداخلاقی ، بدکرداری کی کوئی لمٹ نہیں رہی۔ آپ سے ادباً التجاء ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی روشنی میں بیان کیجئے کہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ کیسا رہنا چاہئے ؟
محمد عبدالاحد، سکندرآباد
جواب : نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اپنے دل کو دوسروں سے متعلق پاک و صاف رکھنے پر زور دیا اور آپ کے روبرو کسی دوسرے کی شکایت کی جائے تو سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے : میرے سامنے دوسروں کی ایسی باتیں نہ کیا کرو جنہیں سن کر میرے دل میں ان کے متعلق کوئی کدورت پیدا ہو کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں سب سے صاف دل (سلیم الصدر) کے ساتھ ملوں۔ (ابو داؤد السنین) ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے دو افراد سے متعلق آپ کو شکایت پہنچائی جسے سن کر آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو کنایۃً فرمایا کہ اس طرح کی باتیں مجھے نہ پہنچایا کرو۔ (بخاری 127:41 )
آپ ہمیشہ صحابہ کو تلقین فرماتے کہ وہ دوسروں کے حق میں اچھی گفتگو کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’اخلاق کی بلندی یہ نہیں ہے کہ تم اس کے ساتھ نیکی کرو جو تمہارے ساتھ نیکی کرے اور اس کے ساتھ برائی کرو جو تمہارے ساتھ برائی کرے بلکہ عمدہ اخلاق تو یہ ہے کہ ہر شخص سے نیک سلوک کرو خواہ وہ تم سے برے طریقے ہی سے پیش آئے یا تم سے زیادتی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے نیکی کا مفہوم حسن خلق (عمدہ اخلاق) بیان فرمایا۔ یعنی نیکی دوسروں سے اچھا برتاؤ کرنا ہے ۔ آپ کا ارشاد ہے : البر احسن الخلق (سلم 1980:40 یہ بھی فرمایا : اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا‘‘ یعنی مومنین میں سب سے زیادہ کامل مؤمن وہ ہیں جو ان میں زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں (ترمذی) اس سے واضح ہے کہ ایمان کی تکمیل اخلاق اور طرز معاشرت کی تکمیل کے بغیر نہیں ہوسکتی ۔ فرمایا : ان خیارکم احسنکم اخلاقا (بخاری) تم میں وہی بہتر ہے جس کے اخلاق دوسروں سے اچھے ہوں۔ ایک بار آپ نے فرمایا : اچھے اخلاق والے کو اس کے اچھے اخلاق کی وجہ سے روزہ دار اور قائم اللیل (شب بیدار) کا درجہ مل جاتا ہے ۔ (ابو داؤد)صرف یہی نہیں آپ اس جذبے کو پورے انسانی معاشرہ میں رواں دواں دیکھنا چاہتے تھے ، ارشاد ہے : تم اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک دوسروں کیلئے وہی پسند نہ کرو جو خود اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ (مسلم) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک دوسرے سے روگردانی اختیار نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات کی خواہ مخواہ ٹوہ میں رہو اور اے اللہ کے بندو ! سب بھائی بھائی ہوجاؤ (مسلم) یہی اخلاق عالیہ کی تعلیم تھی کہ مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی آپ کے گرویدہ تھے لیکن افسوس کہ مسلمان اپنے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ اور اخلاقیات پر مبنی اعلیٰ تعلیمات کو رکھنے کے باوجود اخلاقی اعتبار سے تنزل کے شکار ہیں۔ ہر مسلمان اپنے اخلاق کو اخلاق نبوی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔

رضاعت میں ایک عورت کی گواہی
سوال : ہم ایک بڑی الجھن کا شکار ہیں، براہ کرم شرعی رہنمائی فرمائیں کہ زید اپنی خلیری بہن زینب سے شادی کرنا چاہتا ہے اور وہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ دونوں کے ماں باپ بھی راضی ہیں، کوئی تنازعہ نہیںہے ۔ البتہ زید کی ماں کا دعویٰ ہے کہ اس نیایک مرتبہ زینب کو ایام شیرخوارگی میں دودھ پلایا ہے، ان کے پاس اور کوئی گواہ نہیں ہے، ان کی بات کو ماننا چاہئے یا رد کرنا چاہئے۔
نام ندارد
جواب : رضاعت کے ثبوت کیلئے شریعت میںدو متقی مرد یا ایک متقی مرد اور دو پرہیز گار عورتوں کی گواہی شرط ہے۔ عالمگیری جلد اول صفحہ 347 میں ہے: لا یقبل فی الرضاع الا شھادۃ رجلین او رجل و امرأتین مدول کذا فی المحیط۔ لہذا ثبوت رضاعت کیلئے ایک عورت کا بیان کافی نہیں تاہم وہ عورت نیک بخت ہے اور وہ قابل اعتبار ہے تو پھر اس نکاح سے بچنا اولیٰ ہے۔ عالمگیری میں اسی جگہ ہے: وان کان المخبر واحد اوقع فی قلبہ أنہ صادق فلأولی أن یتنزہ و یأخذ بالشقۃ وجد الاخبار قبل العقدأ و بعدہ ولا یجب علیہ ذلک کذا فی المحیط۔