سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا

اُری حملہ کا جواب سرجیکل اسٹرائیک
حساب برابر… میچ ڈرا

 

رشیدالدین

ہندوستان اور پاکستان میں جمعرات (29 ستمبر) کی صبح معمول کے مطابق تھی، عوام اپنی اپنی روز مرہ کی مصروفیات میں منہمک ہوگئے لیکن دوپہر 12 بجے سے ماحول اچانک تبدیل ہوگیا اور لوگ ٹی وی سیٹس اور سوشیل میڈیا کی سائیٹس سے جڑ گئے۔ سرحد پر کشیدگی کا اثر دفاتر اور گھروں تک پہنچ گیا تھا ۔ ہندوستان نے 12 بجے دن اعلان کیا کہ فوج نے پاک مقبوضہ کشمیر میں گھس کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے اور دشمن کا بھاری جانی نقصان ہوا۔ پاکستان کے اندرونی علاقہ میں کی گئی اس کارروائی کے اعلان کے ساتھ ہی ماحول یکایک تبدیل ہوگیا ۔ تمام نیوز چیانل ، نیوز پورٹل اور سوشیل میڈیا پر یہی خبریں فلاش ہونے لگی اور عوام مزید تفصیلات کا انتظار کرنے لگے۔ وزیراعظم نریندر مودی ، وزیر دفاع منوہر پریکر ، مرکزی وزراء اور سیاسی قائدین کے بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور فوج کو مبارکباد دی جانے لگی۔ سرکاری سطح پر سرگرمیاں اس قدر تیز تھیں کہ عوام یہ سمجھ نہیں پارہے تھے کہ آخر حقیقت میں ہوا کیا ہے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج ، کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے پاس پہنچ گئیں۔ مرکز نے ہنگامی طور پر کل جماعتی اجلاس طلب کرلیا۔ 22 ممالک کے سفارتی نمائندوں کو بلاکر پاکستان میں کئے گئے سرجیکل اسٹرائیک سے واقف کرایا گیا ۔ ملک کے مختلف حصوں میں عام آدمی اور بی جے پی کارکنوں نے جشن منایا ۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے مختلف ریاستی چیف منسٹرس سے بات چیت کرتے ہوئے چوکسی کی ہدایت دی۔ پاکستان کی سرحد سے منسلک ریاستوں میں بڑے پیمانے پر عوام کا تخلیہ شروع کیا گیا اور اسکولوں کو چھٹی دیدی گئی۔ ٹی وی نیوز چیانلس ’’وار روم‘‘ میں تبدیل ہوگئے اور اینکرس فوجی کمانڈرس دکھائی دے رہے تھے جو صورتحال کو کچھ اس طرح پیش کر رہے تھے جیسے کہ جنگ کا ماحول ہو۔

1971 ء اور پھر کارگل میں کامیابی کے بعد بھی اس قدر جوش و خروش شاید نہیں تھا جو کہ آج کے ٹی وی اینکرس ظاہر کر رہے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ خود سرجیکل اسٹرائیک میں شریک رہ چکے ہیںاور تازہ حملوں کی تیاری میں ہیں۔ ہر چیانل اپنی TRP کیلئے فوجی کارروائی سے کہیں زیادہ بتانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ کسی نے کہا کہ ابھی تو آغاز ہے ، دوسرے نے کہا جلد دوسری کارروائی ہوگی، ایک اور نے یہاں تک تاثر دینے کی کوشش کی جیسے پاکستان کے علاقہ پر قبضہ ہوچکا ہے۔ ہر اینکر حکومت یا فوج کا ترجمان نظر آرہا تھا ۔ کوئی وزیراعظم ، کوئی وزیر دفاع تو کوئی فوج کے سربراہ کے لہجہ میں گفتگو کر رہا تھا ۔ اگر ان اینکرس کو ایک دن کیلئے کچھ اختیارات مل جائیں تو وہ دونوں ممالک میں جنگ چھیڑ دیں گے۔ ٹی وی چیانلس کے مباحث پر ایک خاتون صحافی نے فیس بک پر کچھ اس طرح تبصرہ کیا کہ ان تمام وار مونگرس (جنگ کے بھوکے) کے ساتھ ایک نئی بٹالین تشکیل دے کر تیار رکھا جائے تاکہ آئندہ کسی وقت استعمال کیا جاسکے۔ ایرکنڈیشنڈ نیوز روم میں چہرہ پر میک اپ کے بعد عوام سے روبرو ہونے والے اینکرس سرحد پر تعینات فوج کی تکالیف اور قربانی کیا جانیں۔ ذرا سی دھوپ جنہیں برداشت نہیں ان کیلئے نیوز روم سے آگ بھڑکانا آسان ہے۔ عوام اور قائدین نے بھی بلا لحاظ مذہب و ملت فوجی کارروائی کی تائید کرتے ہوئے اپنے جذبہ حب الوطنی کا ثبوت دیا۔ ساری قوم نے ایک آواز میں 18 ستمبر کے اُری دہشت گرد حملے کی جوابی کارروائی کو حق بجانب قرار دیا ۔ ہندوستانی فوج کی طاقت اور اہلیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اُری حملہ کے 10 دن بعد جوابی کارروائی کے سلسلہ میں دفاعی ماہرین اور مبصرین نے کئی سوال اٹھائے ہیں۔ فوجی کارروائی کے 8 گھنٹے بعد حکومت کی جانب سے اعلان اور پھر اس کے بعد پاکستان کا ردعمل موجودہ عصری میڈیا اور اوپن میڈیا کے دور میں ناقابل فہم ہے ۔ میڈیا اس قدر تیز ہے کہ 8 گھنٹوں تک اسے تاریکی میں بے خبر نہیں رکھا جاسکتا۔ اگر مان لیا جائے کہ ہندوستان نے میڈیا کو اطلاع نہیں کی لیکن پاکستانی میڈیا کس طرح اپنے ملک میں ہوئے حملہ سے بے خبر رہ سکتا ہے۔

اب تو الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے فوج کی طرح سرحد پر تعینات ہیں۔ اگر مقبوضہ کشمیر میں دو کیلو میٹر تک پہنچ کر کارروائی کی گئی تو پاکستان صبح ہی سے اپنے احتجاج اور ردعمل کا آغاز کرتا لیکن مبصرین نے اس بات کو مضحکہ خیز قرار دیا کہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف بھی دوپہر 12 بجے تک ہندوستان کے اعلان تک لاعلم تھے اور ہندوستانی فوج کے انکشاف کے بعد ہی انہوں نے اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ کیا سرحد پر پاکستانی فوج تعینات نہیں ہے اور ان کی ملٹری انٹلیجنس کیا کر رہی تھی کہ دوپہر 12 بجے تک بھی ہندوستان کے اعلان تک وہ خواب غفلت کا شکار رہے۔ پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشن کو بھی اس کارروائی سے ہندوستانی ہم منصب نے واقف کرایا ۔ ہندوستان کے بعض جہاندیدہ سیاسی قائدین نے بھی محتاط ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان کے دعوے پر زیادہ تبصرہ سے گریز کیا ، جہاں تک دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا سوال ہے ، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ جنہوں نے بھی اُری حملہ انجام دیا ، انہیں سبق سکھانا چاہئے ۔ یہ کام تو اُری حملہ کے فوری بعد ہونا چاہئے تھا لیکن حکومت نے ایک ماحول تیار کیا اور جوابی کارروائی کیلئے عوام کی جانب سے بڑھتے دباؤ کے بعد سرجیکل اسٹرائیک کئے گئے۔ پاکستان کے خلاف ہندوستان نے 40 برس بعد اس طرح کی کارروائی کی ہے ، اس کارروائی میں فوجی ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوجی ہیلی کاپٹر کا فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنا آسان ہے ؟ زمینی راستہ سے پھر بھی حملہ کیا جاسکتا ہے لیکن ہیلی کاپٹرس کے استعمال کے بارے میں مختلف سوال کھڑے ہورہے ہیں۔ سرحد پر کشیدگی کا ماحول پیدا کرتے ہوئے حملہ کو حقیقی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب شرد یادو سے اس کارروائی پر تبصرہ مانگا گیا تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ فوج کا کام ہی سرحد کی حفاظت کرنا ہے جو کہ اس نے کیا ہے ۔

ہندوستان کے اعلان کے بعد جیسے ہی پاکستانی عوام میں بے چینی پیدا ہوئی تو وہاں کے حکمراں اور فوجی ترجمان حرکت میں آگئے ۔ پہلے تو ہندوستانی فائرنگ میں دو فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا گیا۔ بعد میں 8 ہندوستانی سپاہیوں کو ہلاک اور ایک کو زندہ پکڑنے کا دعویٰ کیا گیا۔ اس طرح پاکستان نے جوابی دعوے پیش کرتے ہوئے صورتحال کو اور بھی الجھادیا ہے۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے سرکاری طور پر اعتراف کیا کہ ایک ہندوستانی فوجی پاکستان کے قبضہ میں ہے ، ان کا کہنا ہے کہ یہ سپاہی غلطی سے سرحد کو عبور کرچکا تھا جسے پاکستان نے حراست میں لے لیا ۔ اس کی رہائی کیلئے پاکستان سے بات چیت کی جائے گی ۔ جب ایک سپاہی سرحد عبور کرے تو وہ پاکستان کی نظر میں آسکتا ہے تو پھر ہیلی کاپٹرس کے ذریعہ سرجیکل اسٹرائیک کس طرح ممکن ہے ۔ پاکستان اپنے اندرونی علاقہ میں ہندوستانی فوج کی کارروائی کا سرے سے انکار کر رہا ہے۔ اُری حملہ کے بعد ہندوستان کی جوابی کارروائی کے خوف سے پاکستان نے پہلے ہی سرحد پر فوجی سرگرمیوں کو تیز کردیا تھا اور F-16 لڑاکا طیاروں کی اڑان کی اطلاعات مل رہی تھیں۔ اس کے باوجود ہندوستان کی کارروائی پر وہ کیسے غافل رہ گئے؟ ہندوستان نے واضح کردیا کہ اس کے نشانہ پر پاکستانی فوج نہیں بلکہ دہشت گرد اور ان کے ٹھکانے تھے۔

یہ بھی اعلان کیا گیا کہ مزید حملے نہیں ہوں گے ۔ اگر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کی گئی تو کیا نواز شریف اور راحیل شریف کی مرضی اور منظوری سے کی گئی تاکہ ہندوستانی عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جاسکے؟ اگر پاکستان کی مرضی سے یہ سب کچھ ہوا تو پھر یقیناً کارنامہ ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ امریکہ اور اسرائیلی طرز کی کارروائی ہے۔ اسرائیل فلسطینی علاقوں میں اسی طرح کی کارروائی انجام دیتا ہے اور امریکہ پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملوں سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ابھی بھی نشانہ بنارہا ہے ۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ سرجیکل اسٹرائیک کی حقیقت کیا ہے اور کون مارے گئے لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ دونوں وزرائے اعظم اپنی گہری دوستی کو ایک دوسرے کی مقبولیت اور ساکھ کی برقراری کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ اُری حملہ اور ہندوستان کی کارروائی میں یکسانیت ہے۔ ہندوستان نے اُری حملہ کے فوری بعد کوئی کارروائی نہیں کی اور اب سرجیکل اسٹرائیک پر پاکستان خاموش ہے ۔ اس طرح دونوں میں حساب برابر اور میچ ڈرا ہوگیا۔ مبصرین کے شبہات اور سوالات کے پس منظر میں بی ایس پی صدر مایاوتی کا بیان اہمیت کا حامل ہے ۔ اُری حملہ سے کافی دن پہلے ہی مایاوتی نے پیش قیاسی کی تھی کہ یو پی انتخابات سے قبل نریندر مودی پاکستان سے جنگ چھیڑ سکتے ہیں۔ سچائی بھی یہی ہے کہ دہلی اور بہار میں شکست کے بعد نریندر مودی سوائے آسام کے کسی اور ریاست میں پارٹی کو اقتدار نہیں دلاسکے۔ ایسے میں اترپردیش ، گجرات اور پنجاب کے مجوزہ اسمبلی انتخابات ان کا امتحان ہے ۔ حکومت کا ڈھائی سال میں ایسا کوئی کارنامہ نہیں کہ عوام تائید کریں۔ خود مودی کی ریاست گجرات میں بی جے پی حالت خراب ہے۔ ایسے میں مودی سرجیکل اسٹرائیک کے بعد عوام کے درمیان ایک فاتح کی طرح پیش ہوں گے۔ سرحد پر کشیدگی سے گجرات اور پنجاب متاثر ہوئے جو انتخابی ریاستیں ہیں۔ بی جے پی کو ان ریاستوں میں سرجیکل اسٹرائیک کے بعد فائدہ کی امید ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک ہویا پھر فائرنگ کا تبادلہ دونوں صورتوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور کشمیر کی چیف منسٹر محبوبہ مفتی نے اسی پس منظر میں دونوں ممالک کو تحمل سے کام لینے اور جنگی صورتحال سے باز آنے کا مشورہ دیا ۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کی صورتحال سے کشمیری عوام متاثر ہوں گے جو پہلے ہی کافی متاثر ہیں۔ نریندر مودی کی راست نگرانی میں اگر یہ کارروائی کی گئی تو پھر بی جے پی کے ایجنڈہ کے اعتبار سے یہ ادھوری ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں داخلہ کے بعد اپنے علاقہ کو واپس حاصل کرتی اور تنازعہ کا مستقل حل ہوجاتا۔ بی جے پی اپوزیشن میں رہ کر ہمیشہ مقبوضہ کشمیر حاصل کرنے کیلئے فوجی کارروائی کا مطالبہ کرتی رہی ہے ۔ اب جبکہ اقتدار اس کے ہاتھ میں ہے اور وزیراعظم نے 4 گھنٹے پانی نوش کئے بغیر سرجیکل اسٹرائیک کی نگرانی کی اسی طرح کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ ہندوستانی فوج کو مقبوضہ کشمیر کا اپنا علاقہ واپس لینے کا حوصلہ دیتے۔ اسی صورت میں نریندر مودی اور ان کی حکومت حقیقی معنوں میں شاباشی کی مستحق ہوتی ۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کچھ اس طرح کہا ہے ؎
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا
خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں
تیسری سمت کا دباؤ ہے کیا