سحری کھائے بغیر روزہ کا حکم

سوال :  اگر کوئی سحری کھائے بغیر روزہ رکھے تو اس کا یہ عمل شرعاً کیسا ہے ؟
عبدالمقتدر خان، پھسل بنڈہ
جواب :   سحری کرنا مستقل عبادت ہے ، ہمارے اور اہل کتاب یعنی یہود و نصاری کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری ہی ہے کہ وہ سحری کھائے بغیر روزہ رہتے ہیں اور مسلمانوںکو سحری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ سحری کرنے میں کئی اعتبار سے برکت بھی ہے اور ثواب بھی ، جس طرح دوسرے نیک کام کرنے پر اجر و ثواب ملتے ہیں۔ چنانچہ حضرت انس بن مالکؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے: تسحروا فان فی السحور برکۃ۔ ’’ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہوتی ہے‘‘(ثواب ملتا ہے )  حضرت عمر و بن عاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (فصل مابین صیامنا و صیام أھل الکتاب أکلۃ السحر)۔ ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزہ میں سحری کے لقمہ کا فرق ہے‘‘۔ سحری کھائے بغیر روزہ درست تو ہوجائے گا، البتہ سحری کی برکت اور اجر و ثواب سے محرومی ہوگی اور اگر کوئی جان بوجھ کر ایسا کرتاہے تو اہل کتاب کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے گناہ کا اندیشہ ہے۔

کن چیزوں پر کتنی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے
سوال :  زکوٰۃ کن کن چیزوں پر واجب ہے اور ان کے نصاب کیا کیا ہیں ؟
مقصود احمد، بازار گھاٹ
جواب :  زکوٰہ چار قسم کے اموال پر فرض ہے : (1) سائمہ جانوروں پر (2) سونے چاندی پر (3) ہر قسم کے تجارتی مال پر (4) کھیتی درختوں کی پیداوار پر ، ( اگرچہ اصطلاحاً اس قسم کو عشر کہتے ہیں) ۔ ان اقسام کے نصاب علحدہ علحدہ ہیں۔
چاندی سونے اور تمام تجارتی مال میں چالیس واں حصہ زکوٰۃ فرض ہے ۔ چاندی کا نصاب دو سو درہم یعنی 425 گرام 285 ملی گرام ہے۔ اس سے کم چاندی پر زکوٰۃ نہیں۔ زکوٰہ تول کردینا چاہئے، درہم یا روپئے کی گنتی خلاف احتیاط ہے۔ سونے کا نصاب بیس مثقال یعنی 60 گرام 755 ملی گرام ہے۔ اس پر 40 واں حصہ زکوٰۃ فرض ہے۔ سونے چاندی کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے ۔ زکوٰۃ ادا کرتے وقت سونے چاندی کی جو قیمت ہو، اس کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی ۔ زکوٰۃ ادا کرتے وقت نقد رقم کے بجائے سونے یا چاندی کی زکوٰۃ اسی جنس میں بھی ادا کی جاسکتی ہے ۔ تجارتی مال کا نصاب بھی یہی ہوگا ۔ تجارتی مال وہ مال ہے جو فروخت کرنے کی نیت سے لیا ہو۔ اس کا نصاب مال کی قیمت کے اعتبار سے ہوگا ۔ یعنی اگر کل مال کی قیمت 425 گرام 285 ملی گرام چاندی یا 60 گرام 755 ملی گرام سونے کی قیمت کے برابر ہو یا اس سے زائد ہو تو سال گزر جانے پر اس کی زکوٰۃ ، چالیسواں حصہ دینا فرض ہے۔ چاندی سونے میں اگر کسی اور چیز کی ملاوٹ ہے مگر وہ غالب نہیں تو وہ کالعدم ہوگی ۔ اگر غالب ہے تو اس میں زیر نصاب جنس کی مالیت کی زکوٰۃ ہوگی ۔ سائمہ جانوروں کے بارے میں شرط ہے کہ وہ جنگلی نہ ہوں اور یہ کہ تجارت کی نیت سے پا لے جائیں۔ پانچ اونٹوں پر زکوٰۃ فرض ہے ۔ اس کے لئے ایک بکری ( نر یا مادہ) زکوٰۃ ہوگی ۔ پچیس اونٹوں میں ایک اونٹنی جس کا دوسرا برس شروع ہوچکا ہو۔
چھتیس اونٹوں میں ایک اونٹنی جس کا تیسرا برس شروع ہوچکا ہو۔ اسی طرح ایک خاص تعداد کے مطابق زکوٰۃ بڑھتی جائے گی جس کی تفصیل کتب فقہ میں آئی ہے ۔ گائے بھینس کے سلسلے میں تیس گایوں بھینسوں میں ایک گائے یا بھینس کا بچہ جوایک برس کا ہو۔ اسی طرح آگے تعداد بڑھنے پر ایک خاص شرح کے مطابق زکوٰۃ بھی بڑھتی جائے گی ۔ بھیڑ ، بکری میں چالیس کے لئے ایک بھیڑ یا بکری ، ایک سو سے زائد ہوں تو ہر سو میں ایک بکری۔

گرایجویٹی کی رقم جمع کرنے پر زکوٰۃ کا حکم
سوال :  (1) زید کو ریٹائرمنٹ کے بعد گرایجویٹی اور وظیفہ فروختگی کا معاوضہ  حاصل ہوا۔ جس پر ایک سال گزرچکا ہے ۔ کیا اس رقم پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی ۔
(2) اس رقم سے لڑکی کی شادی کے لئے بینک میں کچھ رقم جمع کردی گئی ہے۔ کیا اس رقم پر بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی ؟
عارف الدین، کنگ کوٹھی
جواب :  (1) وظیفہ کے بعد گریجویٹی اور وظیفہ فروختگی سے حاصل شدہ رقم پر ایک سال گزرنے کی بناء زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے۔
(2) اس رقم سے لڑکی کی شادی کے لئے بینک میں رقم رکھی جائے اور لڑکی کو اس رقم کا مالک بنادیا جائے اور لڑکی سن بلوغ کو پہنچ چکی ہے تو بعد ایک سال اس پر لڑکی کو زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے ۔ اگر وہ رقم آپ کی لڑکی کے نام پر ہو لیکن قابض آپ ہی ہوں تو آپ پر زکوٰۃ لازم ہے اور اگر آپ نے لڑکی کو مکمل معہ قبضہ مالک بنادیا ہے وہ سن بلوغ کو نہیں پہنچی ہے تو کسی پر زکوٰۃ فرض نہیں۔

بچوں کا روزہ
سوال :  بچوں کو روزہ کس عمر سے رکھانا چاہئے اور اگر بچہ دوران روزہ پانی پی لے تو کیا اس کی قضاء ہے اور تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو کس طرح روزہ کا عادی بنائیں برائے کرم بتلائیں؟
حبیب الرحمن ، تیگل کنٹہ
جواب :  جب بچہ میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو اس کو روزہ رکھنے کا حکم کیا جائے اور اگر بچہ کو روزہ رکھنے سے کوئی ضرر ہو تو حکم نہ کیا جائے۔ فتاوی عالمگیریہ میں ہے کہ روزہ بمنزلہ نماز ہی کے ہے ۔ یعنی نماز کے متعلق احادیث میں حکم ہے کہ سات سال کی عمر میں بچے کو پیار و محبت سے کہا جائے اور جب دس سال کا ہوجائے اور نماز نہ پڑھے تو مارکر نماز پڑھائی جائے۔ اسی طرح روزہ بھی ہے سات سال سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالیں۔ دس سال میں سختی کر کے روزہ رکھوائیں۔والدین بچوں کی تعلیم کا خیال کرتے ہوئے ان بچوںکو جو روزہ رکھنے کی خواہش کرتے ہیں نہ روکیں ۔ سات سال سے زائد عمر کے بچے اگر سحری کو اٹھیں تو ان کو سحری کرنے دیںاور جب تک روزہ رکھتے ہیں رہنے دیں۔ اگر دوپہر میں کمزور ہوجائیں توایسے بچے کھا پی سکتے ہیں۔ بچے روزہ توڑدیں تواس کی قضاء نہیں ہے۔ لیکن دس سال سے بڑے بچے روزہ رکھنے کی پوری کوشش کریں۔ رمضان میں تحصیل علم کی محنت کچھ کم لی جائے ، مگر روزے کے عادی بنائیں۔

زکوٰۃ دیتے وقت بدتمیزی سے پیش آنا
سوال :  آج کل بڑی بڑی تنظیمیں، مالدار حضرات اپنی زکوٰۃ کی رقم ، مدارس کے صدور ، مساجد کے ذمہ دار اشخاص یا کسی بھی رعب دار شخصیت کے حوالے کردیتے ہیں۔ یہ لوگ ضروری اشیاء جیسے چاول ، دال کپڑا وغیرہ کی شکل میں غرباء میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک دو دن پہلے باقاعدہ اعلان کردیتے ہیں کہ دو عدد فوٹوز ، راشن کارڈ کا زیراکس یا آئی ڈی کارڈ کا زیراکس لیکر فلاں مقام پر آجائیں ۔ بعض غریب لوگ فوٹوز کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے یا پھر فوٹو دینا گوارا نہیں کرتے، شرم محسوس کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کو امداد سے محروم کردیتے ہیں اور ایسا سخت رویہ اختیار کرتے ہیں کہ یہ لوگ بیچارے مایوس ہوکر خالی ہاتھ لوٹ جاتے ہیں ۔ کیا اس طرح زکوٰۃ ، صدقہ ، خیرات دینا درست ہے؟ برائے مہربانی زکوٰۃ دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے بتلائیں ۔
ام الخیر، ملک پیٹ
جواب :  غریب و مستحقِ زکوٰۃ کو زکوٰۃ کی رقم یا رقم کی بجائے غذائی اجناس مثلاً چاول ، دال اور کپڑے وغیرہ دینا شرعاً درست ہے۔ تاہم سوال میں ذکر کردہ ذمہ دار حضرات کا سلوک ازروئے شرع سخت ناپسندیدہ و مذموم ہے اور قابل اصلاح ہے۔ ذمہ دار افراد کو چاہئے کہ پاس و لحاظ کے ساتھ زکوٰۃ کی رقم یا غذائی اجناس مستحقین کو ادا کریں۔ ریکارڈ کی خاطر یا دھوکہ سے بچنے کیلئے فوٹوز اور راشن کارڈزکا زیراکس طلب کرتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں، البتہ جو لوگ عار محسوس کرتے ہیں، ان کا بھی خیال رکھنا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ و فی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم۔ ان کے سوال میں سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے دونوں کا معلوم حق ہے۔ …

تراویح کیلئے غیر داڑھی والے حافظ کا انتخاب
سوال :  ہمارے محلہ کی مسجد کے امام صاحب متقی، پرہیز گار ، پابند شریعت ہیں، وہ حافظ قرآن بھی ہیں ۔ تقریباً بارہ سال سے ہماری مسجد میں سوا پارہ نماز تراویح پڑھاتے آرہے ہیں۔ اس سال ان کے پاؤں میں تکلیف کی وجہ وہ نماز تراویح پڑھانے کیلئے تیار نہیں، اس لئے مسجد کی کمیٹی نے ایک حافظ صاحب کا انتخاب کیا جو الحمدللہ حیدرآباد ہی کے ہیں اور تقریباً آٹھ سال سے قرآن سنا رہے ہیں، ان کی عمر تقریباً بائیس سال ہے لیکن ان کو داڑھی نہیں آئی ہے وہ داڑھی کاٹتے نہیں ہیں۔ فطری طور پر ان کو داڑھی نہیں ہے ۔ ہمارے کمیٹی کے ایک ممبر کا کہنا ہے کہ بغیر داڑھی والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔ براہ کرم جلد جواب عنایت فرمائیں۔
نام…
جواب :  جس بالغ لڑکے کی عمر اتنی ہے کہ ابھی اس کی داڑھی ، مونچھ نکلنے کا زمانہ ختم نہیں ہوا ہے تو اس کو ’’ امرد‘‘ کہتے ہیں جس کی امامت مکروہ تنزیھی ہے اور جس کے داڑھی مونچھ نکلنے کا زمانہ ختم ہوگیا ہے اور اب تک نہیں نکلی ہے تو ایسے شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے ۔ در مختار کی کتاب الصلاۃ باب الامامۃ میں ہے : وکذا تکرہ خلف امرد رد المحتار میں ہے : الظاھر انھا تنزیھیۃ ایضا والظاھر ایضا کما قال الرحمتی ان المرادبہ صبح الوجہ لأنہ محل الفتنۃ۔ اسی صفحہ میں ہے :  سئل العلامۃ الشْخ عبدالرحمن بن عیسی المرشدی عن شخص بلغ من السن عشرین سنۃ و تجاوز حدا الانبات ولم ینبت عذارہ فھل یخرج ذلک عن حدالامردیۃ و خصوصاً قدنبت لہ شعرات فی ذقنہ تؤذن بأنہ لیس من مستذیری اللحی فھل حکمہ فی الامامۃ کالرجال الکاملین ام لا ؟ اجاب مسئل العلامۃ الشیخ احمد بن یونس المعروف بابن الشبلی من متاخری علماء الحنفیۃ عن ھذہ المسئلۃ فاجاب بالجواز من عہد کراھۃ و ناھیک بہ قدوۃ و کذالک سئل عنھا المفتی محمد تاج الدین القلجی فاجاب کذالک۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں اکیس سالہ حافظ قرآن جنکو طبعی طور پر داڑھی نہیں آئی ہے ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا بلا کراہت جائز۔

زکوۃ کی رقم سے دعوت افطار
سوال :  آپ سے دریافت کرنا یہ ہے کہ زکوۃ کی رقم سے ہم افطار کی دعوت کرسکتے ہیں یا نہیں۔
نام …
جواب :  زکوۃ کی رقم کا کسی غریب و مستحق زکوۃ کو مالک بنانا لازم ہے۔ دعوت میں اگر مستحق زکوۃ شریک ہوں تو وہ مالک نہیں ہوتے۔ نیز دعوت میں مستحق زکوۃ و غیر مستحق زکوۃ سب شریک ہوتے ہیں اس لئے زکوۃ کی رقم سے افطار کی دعوت نہیں کی جاسکتی۔

رمضان میں تہجد باجماعت پڑھنا
سوال :  مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ ماہِ رمضان میں ہمارے یہاں نماز تہجد اور اجتماعی دعاوؤں کا اہتمام ہوتا ہے۔ نماز تہجد کی جماعت بھی ہوتی ہے ۔ ان کی شرعی حیثیت کیا ہے  ؟ کیا ایسی دعاؤں اور نماز میں شرکت کرنا جائز ہے ؟
عبدالواحد،مراد نگر
جواب :  رمضان میں تہجد کی نماز باجماعت ادا کی جاسکتی ہے کیونکہ رمضان میں صحابہ کے نفل نماز باجماعت پڑھنے کا ثبوت ہے ۔ مذکور السوال دعاء اورنماز تہجد میں شرکت کی جاسکتی ہے۔