سجدہ کا نشان

سوال : بہت سے لوگ ماشاء اللہ نمازیں پابندی سے پڑھتے ہیں لیکن میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگوں کی پیشانی پر کالا نشان آجاتا ہے ۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں اگر اس علامت کے بارے میں کچھ ہے تو وضاحت کریں۔
محمد سلطان ، معین باغ
جواب : سجدے کی حالت میں جسم کا وزن سر کے بجائے دونوں ہاتھوں پر رکھنا چاہئے ۔ اس طرح کے عمل سے پیشانی پر نشان بننے کا امکان بہت کم ہوتا ہے اور جب ہاتھوں کے بجائے سرپر وزن ڈالا جائے تو اس طرح کا نشان بن جاتا ہے ۔ کثرت نماز اور سجدہ کی طوالت سے سجدہ کے آداب کے ساتھ یہ نشان بن جائے تو اچھی علامت ہے لیکن عمداً سجدہ میں سر پر بار ڈالنا یا پیشانی کو رگڑنا جس سے نشان ظاہر ہو یہ ریاکاری ہے اور ناپسندیدہ عمل ہے۔ ریاکاری دکھاوے سے ہر مسلمان کو بچنا چاہئے ۔

پڑوس کی بورویل کے دس ہاتھ پر بورویل ڈالنا
سوال : میرے مکان کے ایک حصہ میں بور ڈالنا چاہتا ہوں۔ بور ڈالے جانے والے مقام سے پڑوس کی بورنگ تقریباً 20 گز کے فاصلہ پر رہے گی ۔ پڑوسی منع کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں شرعاً کیا احکام ہیں جبکہ ان کا استدلال یہ ہے کہ اس سے ان کی بورنگ کو نقصان ہوگا۔
حافظ مصلح الدین
جواب : کسی جگہ کنواں یا بورنگ ہو تو حدیث پاک کی رو سے اس کی ہر سمت میں دس ہاتھ اس طرح چاروں سمت چالیس ہاتھ کا علاقہ ’’ حریم‘‘ کہلاتا ہے جس کا مقصود یہ ہے کہ کوئی دوسرا فرد دس ہاتھ کے اندر کوئی کنواں نہ کھدائے نہ کوئی بور ڈلوائے کیونکہ اس سے پہلے کنویں یا بور میں پانی کے کم ہوجانے کا امکان ہے ۔ اس لئے دس ہاتھ کے اندر کوئی دوسرا فرد بور کروائے تو منع کیا جائے گا ۔ دس ہاتھ کے بعد کوئی اپنی زمین میں بور کروائے تو شرعاً اس کو منع کرنے کا کسی کو اختیار نہیں رہے گا ۔ ثم قدر ھذا بعشر فی عشر و انما قدر بہ بناء علی قولہ علیہ السلام من حفر بیرا فلہ حو لھا اربعون ذراعا فیکون لھاحریمھا من کل جانب عشرۃ ففھم من ھذا أنہ اذا أراد اٰخر أن یحفر فی حریمھا بیرا یمنع منہ لانہ ینجذب الماء الیھا و ینقص الماء فی البیرالاولی (شرح وقایہ ج : 1 ، ص : 81 کتاب الطھارت)
مذکورہ در سوال صورت میں پڑوسی کی بورنگ کے دس ہاتھ کے بعد سے جبکہ آپ اپنی مملوکہ اراضی میں بور کر رہے ہوں تو ان کو منع کرنے کا شرعاً کوئی حق نہیں۔

قبر پختہ بنانا
سوال : قبر کو پکی اور مضبوط بنانا جیسے سمنٹ وغیرہ اور پتھر کا استعمال کر کے کیا یہ شرعاً درست ہے یا نہیں ؟
وقار عزیز، پھسل بنڈہ
جواب : شرعاً قبر کو مضبوط و پختہ بنانے کا حکم نہیں ہے۔ ولا یجصص تاتار خانیہ ج 2 ص : 17 البتہ کسی ضرر اور تکلیف سے میت کو محفوظ رکھنے کے لئے جیسے کفن چرانے وغیرہ کی طرح کسی عمل سے حفاظت کے لئے ہوتو اس صورت میں کچی اینٹوں سے قبر کی حفاظت کیلئے تعمیر درست ہے ۔ تارتار خانیہ ج 2 ص : 169 میں ہے ۔ والیوم اعتادو التسنم باللبن صیانۃ للقبرعن النبش و رأوا ذلک حسنا ۔

نماز جنازہ فرض کے بعد پڑھی جائے یا سنن و نوافل کے بعد
سوال : فرض نمازوں کے وقت جنازہ آجائے تو نماز جنازہعمومی حالت میں سنت و نوافل ادا کر کے پڑھائی جائے یا فرض کے ساتھ ہی نماز جنازہ ہو ؟
کاشف محمد ، ملے پلی
جواب : صورت مسئول عنہا میں فرض نماز کی جماعت کے بعد سنن ادا کر کے نماز جنازہ پڑھی جائے اور یہی مفتی بہ قول ہے۔ در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد اول ص 611 میں ہے : الفتوی علی تاخیر الجنازۃ عن السنۃ و اقرہ ا لمصنف کانہ الحاق لھا بالصلاۃ اور رد ا لمحتار میں ہے ( قولہ الحاقالھا) ای للسنۃ بالصلاۃ ای صلاۃ الفرض اور رد المحتار جلد اول باب صلاۃ الجنائز 658 میں ہے ۔ الفتوی علی تقدیم سنتھا علیھا ۔

جانور کس جانب ذبح کرنا
سوال : مسالح وغیرہ میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ جانور کو پانی پلاکر جیسا موقع ہو ذبح کردیتے ہیں لیکن شرعی نقطہ نظر سے جانور کو کسی بھی جہت ذبح کرسکتے ہیں یا اس کو قبلہ کی طرف رخ کر کے ذبح کرنا چاہئے۔
محمد انس احمد ، مصری گنج
جواب : شرعاً ذبح کرنے والے اور جانور کا قبلہ کے رخ ہونا مستحب ہے کیونکہ مروی ہے کہ صحابہ کرام جب کبھی جانور ذبح کرتے تو قبلہ کی طرف رخ کرتے اور امام شعبی سے منقول ہے کہ صحابہ ذبیحہ جانور کو بھی سمت قبلہ ذبح کرنے کو پسند کرتے تھے ۔ بدائع الصنائع کتاب الذبائح والصیود باب ما مستحب فی الذکاۃ ص :189 میں ہے : ومنھا ان یکون الذابح مستقبل القبلہ والذبیحۃ موجھۃ الی القبلۃ لما روینا ان الصحابۃ رضی اللہ عنھم کانوا اذا ذبحوا استقبلوا القبلۃ فانہ روی عن الشعبی انہ قال : کانوا یستحبون ان یستقبلوا بالذبیحۃ القبلۃ۔
خانہ کعبہ کی تعمیر
سوال : خانہ کعبہ کی تعمیر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل ہوئی یا بعد میں ۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوچکی تھی ۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کا واقعہ ہے کیونکہ حجر اسود کو رکھتے وقت اختلاف رائے ہوا تو سبھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو قبول کیا تو انہوں نے انکار کردیا۔
مجھے آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ حقیقت میں کعبۃ اللہ کی تعمیر کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبائل کے اتفاق سے حجر اسود رکھا تھا یا نہیں ؟ یہ واقعہ اگر معتبر ہے تو تاریخ کی کس کتاب میں مل سکتا ہے ۔
اکرام اللہ نقشبندی، سعید آباد
جواب : سیرت ابن ہشام سیرت کی کتابوں میں اہم کتاب ہے اور اس کتاب کو مرجع و مصدر کا درجہ حاصل ہے۔ اس کتاب کی جلد 1 ص : 204 تا 209 میں خانہ کعبہ کی تعمیر سے متعلق تفصیل ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کعبہ شریف کے پردوں کو بخور سے دھونی دی جاتی تھی ، ایک دن ہوا کی شدت سے چنگاریوں نے پردوں کو آگ لگادی ۔ عمارت کمزور ہوگئی تھی ، کچھ دنوں بعد موسلا دھار بارش ہوئی تو عمارت بیٹھ گئی ۔ تعمیر جدید کے لئے صرف اکل حلال سے چندہ کیا گیا ۔ سود خواروں اور قحبہ خانوں سے رقم قبول نہ کی گئی ۔ انہیں دنوں مکہ کے قریب شعیبیہ (جدہ) میں ایک کشتی جو مصر سے آرہی تھی ، ٹوٹ گئی ۔ کچھ لوگ زندہ بچے اور کچھ سامان بھی بچایا جاسکا ، جس میں شکستہ کشتی کے تختے بھی تھے ۔ اہل مکہ نے ان کا سارا سامان حتیٰ کہ کشتی کے تختے بھی خرید لئے تاکہ کعبہ کی چھت میں لگائیں ۔ اہل مکہ نے پہلے ملبہ صاف کیا اور پرانی بنیادیں برآمد کر کے نئی دیواریں کھڑی کرنا شروع کیں۔ قبائل شہر نے کام بانٹ لیا اور ہر دیوار معین گھرانوں کے سپرد ہوگئی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس موقع پر کام کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر اپنے کندھوں پر اٹھا کر لاتے رہے، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک شانے زخمی بھی ہوگئے ۔ چار دیواری کوئی گز بھر بلند ہوئی تو ایک دشواری پیدا ہوگئی ۔ کعبہ کے دروازے کی مغربی دیوار کے زاویے میں حجر اسود کو نصب کرنا تھا۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لئے رقابت شروع ہوگئی اور قریب تھا کہ خون خرابہ ہوجائے کہ ایک بوڑھے ابو امیہ حذیفہ بن مغیرہ نے جھگڑے کو ختم کرنے کیلئے مشورہ دیا کہ اس وقت جو شخص سب سے پہلے مسجد کے دروازے سے اندر آئے ، انہیں حکم بناؤ ۔ سب نے قبول کیا ۔ اتفاق سے یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو کام کرنے کے لئے تشریف لارہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر سب لوگ پکار اٹھے : ھذا الامین رضینا بہ ، یعنی یہ تو امین ہیں ، ہم سب ان کے فیصلے پر راضی ہیں (ابن الجوزی نے بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے ، ص 148 )
قصہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر بچھائی ، پتھر کو اس پر رکھا اور چادر کے کونے قبائل کے نمائندوں نے پکڑ کر اٹھائے اور دیوار کے قریب کیا ۔ وہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر کو اٹھاکر اس کی جگہ نصب کردیا ۔ (ابن ہشام ، السیرۃ ، 204:1 تا 209 )

بے وضو قرآن کمپیوٹر پر پڑھنا
سوال : برائے مہربانی مجھ کو معلومات فراہم کیجئے ۔ کیا ہم قرآن بغیر وضو کے کمپیوٹر پر نظر آنے والا پڑھ سکتے ہیں۔ میں آپ کے قیمتی معلومات ملاحظہ کرنا چاہتا ہوں ؟
علی الدین قادری، مستعد پورہ
جواب : بے وضو قرآن مجید پڑسکتے ہیں۔ چھونا منع ہے اور غسل کی حاجت ہو تو پڑھنا بھی منع ہے۔

مساجد میں کرسیوں کی کثرت
سوال : ایک اہم سوال آپ کی خدمت میں ارسال ہے کہ آج کل ہماری مساجد میں روز بروز کرسیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس کی وجہ سے مصلیوں میں اختلافات بھی ہورہے ہیں۔ بعض ایسے حضرات جو خود چلکر مسجدکو آتے ہیںلیکن کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں اورنماز کے بعد اپنے دوست احباب کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر اطمینان سے گفتگو کرتے ہیں۔ وہ صبح walking کو بھی جاتے ہیں ۔ گھر کے کام کاج بھی کرتے ہیں لیکن مسجد میں آتے ہیں تو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں ۔ اپنے لئے کرسی کے مقام کو متعین کرلیتے ہیں تو آپ سے دریافت طلب امر یہ ہے کہ جو حضرات قیام پر قادر ہوں اور زمین پر بیٹھ بھی سکتے ہوں۔ سجدہ بھی کرسکتے ہوں تو کیا ایسے حضرات کا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں۔ ہاں جن کو عذر ہے وہ تو معذور ہیںجن کو عذر نہیں ان کا عمل کیسا ہے ؟
مکرم علی، شاہین نگر
جواب : آیت قرآنی قوموا للہ قانتین (سورۃ البقرہ 238 ) (تم فرمانبرداری کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے لئے قیام کرو) سے تمام مفسرین کے اجماع کے مطابق نماز میں قیام مراد ہے اور قیام ہر اس شخص پر فرص ہے جو قیام پر قدرت رکھتا ہے۔ قیام نماز کا اہم رکن ہے ۔اس کے بغیر نماز ادا ہی نہیں ہوتی ۔ ہاں اگر کوئی شخص قیام پر تو قدرت رکھتا ہے لیکن رکوع اور سجوع پر قادر نہیں ہے تو ایسے شخص کو کھڑے یا بیٹھ کر دونوں طریقے سے نماز پڑھنے کا اختیار ہے۔ تاہم اس کا بیٹھ کر پڑھنا بہتر ہے ۔اگرچہ وہ قیام پر قدرت رکھتا ہو لیکن کوئی شخص قیام ‘ رکوع سجود پر قادر ہو ۔ بلاوجہ کرسی پر بیٹھ کر یا محض آرام کیلئے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو ایسی صورتمیں قیام کو ترک کرنے کا وجہ جوکہ فرص ہے اس کی نماز ادا ہی نہیں ہوگی۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے البحر الرائق جلد اول ص : 509 )