سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

میرا کالم             سید امتیاز الدین
دولت کی خواہش ہر شخص کو ہوتی ہے۔ بعض لوگ کھلم کھلا اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ بظاہر بے نیازی اور سیرچشمی دکھاتے ہیں لیکن دل ہی دل میں روپئے پیسے کی ہوس پروان چڑھتی رہتی ہے۔ خود ہم جب نئے نئے عملی زندگی میں داخل ہوئے تھے تو جی چاہتا تھاکہ اچھی تنخواہ ہو جس سے ہم دنیا کی آسائشیں خرید سکیں۔ اب زندگی کے اس آخری  حصے میں احساس ہوتاہیکہپیسے سے ہر چیز خریدی نہیں جاسکتی اور نہ پیسہ آدمی کا ہمیشہ ساتھ دیتا ہے۔ جب ہم بچے تھے اور اعلیٰ حضرت حضور نظام ریاست کے فرما نروا تھے تو اُن کی دولت کے قصے پورے ملک میں بلکہ ساری دنیا میں مشہورتھے ۔ اُن کی سادہ زندگی ، سادہ رہن سہن کا چرچا سب کی زبان پر تھا ۔ اُن سے بہتر کپڑے اُن کے معمولی نوکر پہنتے تھے ۔ 1967 ء میں اُن کا انتقال ہوگیا ۔ غیر معمولی ہجوم اُن کے جنازے میں دیکھا گیا ۔ ایک زمانہ تھا  اُن کے شاندار محل کنگ کوٹھی کے سامنے سے لوگ گزرتے ہوئے ہچکچاتے تھے ۔ ہارن بجاتے ہوئے ڈرتے تھے ۔ آج کیفیت دوسری ہے  کنگ کوٹھی کا بڑا حصہ سرکاری دواخانے میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ کنگ کوٹھی کی دیوار کے ساتھ حلیم کی دکانیں لگی ہوئی ہیں۔ پھلوں کے ٹھیلے کھرے ہوئے ہیں ۔ زمانہ دراز سے اعلیٰ حضرت کی سواری نہیں نکلی اس لئے وہ باب الداخلہ یا مین گیٹ عرصے سے بند پڑاہے ۔ا یک موٹا پردہ لٹکا ہواہے جو نہایت بوسیدہ دکھائی دیتا ہے ۔ ایک آہنی گیٹ دکھائی دیتی ہے

جس کی قسمت میں شاید کھلنا نہیںہے ۔ اس لئے اس کے اطراف سبزہ اُگ آیا ہے ، یہ ساری باتیں ہمیں اس لئے یاد آئیں کہ آج کے انگریزی اخبار میں ہم نے حضور نظام کی دولت کا ایک عبرت ناک افسانہ پڑھا۔ اخبار میں لکھا ہے کہ نظام آف حیدرآباد نے 20 ستمبر 1948 ء یعنی اپنی ریاست جانے کے دو دن بعد دس لاکھ سات ہزار نو سو چالیس پونڈس اور 9 شلنگ کی رقم پاکستانی ہائی کمشنر کے نام لندن کے ویسٹ سنٹر بینک میں منتقل کردی تھی۔ 27 ستمبر 1948 ء کو یعنی صرف ایک ہفتہ بعد ان ہوں نے یہ رقم واپس اپنے نام کرنے کی بینک سے درخواست کی تھی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ہائی کمشنر کے نام رقم کی منتقلی ان کی مرضی سے نہیں کی گئی تھی۔ بینک نے نظام کی درخواست قبول نہیں کی ۔ اس طرح اس رقم کے تین دعویدار ہوگئے ۔ حکومت ہند جس کا استدلال تھا کہ یہ رقم حضور نظام کی نہیں ریاست حیدرآباد کی ہے، نمبر دو حکومت پاکستان جو 20 ستمبر کی منتقلی کو بنیاد بناکر اپنا حق جتا رہی تھی اور خود حضور نظام برطانوی پارلیمنٹ نے تصفیہ کیا کہ جب تک ان تینوں فریقوں میں کسی طرح کی مفاہمت نہیں ہوتی ۔ یہ رقم بینک میںمحفوظ رہے گی ۔ اب یہ رقم حیدرآباد فنڈ کہلاتی ہے اور اس کی مالیت تین سو کروڑ روپئے ہوگئی ہے ۔

ہم کو اس رقم سے کوئی دلچسپی  نہیں ہے کیونکہ اس پر ہم اپنا حق نہیں جتاسکتے ۔ اس پورے واقعہ سے ہمیں صرف اتنا سبق ملتا ہے کہ نظام دکن کی وہی دولت قابل قدر  اور کارآمد ثابت ہوئی جو کسی عوامی مقصد کیلئے صرف ہوئی ۔ عثمانیہ یونیورسٹی پر نہ جانے کت نا خرچ آیا ۔ یہ سارا خرچ کارآمد تھا ۔ نہ جانے کتنے قابل سپوت جامعہ عثمانیہ سے فارغ ہوکر نکلے اور اپنی قابلیت سے دنیا کو فائدہ پہنچایا۔ نظام نے دواخانہ عثمانیہ کی شاندار عمارت بنوائی ۔ کتنے ہی بیمار شفا یاب ہوئے ہوں گے ۔ یہ نظام کے پیسے کا صحیح استعمال تھا اور تو اور فرماں روائی سے دستبردار ہونے کے بعد نظام نے آرتھوپیڈک ہسپتال قائم کیا جو آج نمس کہلاتا ہے اور ہر روز ہزاروں لوگ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ نظام کے خیراتی ٹرسٹسے کئی لوگ فائدہ اٹھا چکے ہیں اور اٹھا رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ نظام کی جویلری اربوں کی مالیت کی ہو لیکن وہ صرف نمائش کی چیز ہے ۔اس کے برخلاف ان کی دولت کی قدر انہیں کاموں سے ہوگی جن سے دنیا نے فائدہ ا ٹھایا ۔ ہمارا ناچیز  مشورہ ہے (جسے کوئی نہیں سنے گا) کہ یہ تین سو کروڑ روپئے کا حیدرآبادی فنڈ اہل حیدرآباد کی بہتری کے کاموں کے لئے خرچ کیا جائے تاکہ سابق ریاست حیدرآبادکے آخری فرماں روا کی روح کو سکون پہنچے۔

دنیا میں وہی دولت عزت کی نظر سے دیکھی گئی ہے جو عوام کی بہتری کے لئے خرچ ہوئی ۔ ہم ہر سال نوبل انعامات کے بارے میں سنتے ہیں ۔ نوبل انعام یافتہ شخص چاہے وہ سائنس داں ہو یا ادیب شاعر ، قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ الفریڈ نوبل نے اپنی ساری دولت ان عالمی انعامات کیلئے وقف کردی تھی ۔ آج ساری دنیا میں الفریڈ نوبل کا نام اس کی دولت یا ڈائنا مایٹ (Dynamite)  کی ایجاد کی وجہ سے زندہ نہیں ہے بلکہ ان انعامات کی وجہ سے زندہ ہے ۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق سے کوئی آٹوگراف مانگتا تو وہ اس کو ایک شعر لکھ کر دیتے تھے ۔
بارے تکلیف میں گزرے کہ سدا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں کے پاس روپیہ پیسہ تو نہیں تھا لیکن ان کو قوم کو تعلیم یافتہ بنانے کی دھن تھی ۔ انہوں نے امیر ،غریب سب سے چندہ جمع کیا اور علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی۔ آج سر سید کا نام کتنی عزت سے لیا جاتا ہے ، سب جانتے ہیں۔ آدمی مال و زر کی وجہ سے نہیں پہچانا جاتا بلکہ اپنے کام کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے ۔ مدر ٹریسا ساری دنیا میں خدمت خلق کے لئے مشہور ہوئیں۔ غریبوں اور بیماروں کی وہ مسیحا تھیں ۔ ان کے پاس دو یا تین سوتی ساڑیاں تھیں جن ہیں وہ اپنے ہاتھ سے دھوکر پہنتی تھیں لیکن ان کی عزت کا یہ عالم تھا کہ ملکوںکے پریسیڈنٹ دنیا کے بڑے بڑے لوگ یہاں تک کہ ملکہ ایلزبتھ ان سے جھک کر ملتی تھیں۔

ہم نے اس کالم کے شروع میں لکھا تھا کہ پیسہ کسی کا ساتھ نہیں دیتا۔ آج حضور نظام کے جن تین سو کروڑ روپیوںکے چرچے ہیں خود ایک ذرا سی لغزش سے نظام کے ہاتھ سے نکل گئے ۔ حضور نظام جو اس دولت کے مالک تھے ۔ کم و بیش 19 سال تک اپنی اس بیش بہا رقم کی واپسی کیلئے کوشش کرتے رہے ہوں گے لیکن ان کی کھوئی ہوئی دولت ان کو نہیں مل سکی۔ نواب میر عثمان علی خاں یاد رکھے جائیں گے توان تین سو  کروڑ روپوںکی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی علم دوستی اور غرباء پروری کی وجہ سے یاد رکھے جائیں گے ۔آج کے اخبار میں لکھا ہے نظام کی دولت تلنگانہ کیلئے خرچ ہونی چاہئے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مہربند خزانے کی چابی کسے ملتی ہے اور اس پیسے کے کتنے حصے بخرے ہوتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ شاہ دکن کی دولت کسی بہتر مصرف میں لگے اور دنیا   اس سے فیضیاب ہو۔