سب آسمان سے اترے ہوئے فرشتے ہیں

لوٹ کے بدھو گھر کو آئے… مودی گجرات میں نمودار
ترقی کا نعرہ … فرقہ پرستی کا ایجنڈہ بے اثر

رشیدالدین
’’لوٹ کے بدھو گھر کو آئے‘‘ وزیراعظم نریندر مودی کو آخرکار اپنی جنم بھومی گجرات میں پناہ ملی۔ ترقی کے گجرات ماڈل کے سہارے وزارت عظمیٰ تک پہنچنے والے نریندر مودی کو انتخابی مہم کے آغاز کیلئے گجرات واپس ہونا پڑا۔ ملک کی کسی اور ریاست میں کوئی کارنامہ ایسا نہیں کہ جس کے نام پر ووٹ حاصل ہوسکے۔ گجرات میں مودی نے کئی اسکیمات کا آغاز کرتے ہوئے 2022 ء کا ترقیاتی ایجنڈہ پیش کیا۔ ملک کی ترقی اور عوام کی بھلائی کیلئے مودی دوسری میعاد کے خواہاں ہیں۔ 2014 ء کی طرح پھر ایک بار گجرات کے ترقی کے ماڈل کو پیش کرتے ہوئے عوام کو بہلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مودی نے 2022 ء تک ہر خاندان کو گھر فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ مارچ 2019 ء تک دیہی علاقوں میں ایک کروڑ مکانات کی تعمیر کا خواب دکھایا گیا جبکہ 2022 ء تک مزید 2.95 کروڑ مکانات تعمیر کئے جائیں گے ۔ نریندر مودی آزادی کی 75 ویں سالگرہ تک وزارت عظمیٰ پر برقراری کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ مودی نے گجرات کے طوفانی دورہ کے ذریعہ لوک سبھا کے آئندہ انتخابات کی مہم کا عملاً آغاز کردیا ہے۔ انتخابات چاہے مقررہ وقت پر ہوں یا وقت سے پہلے دونوں صورتوں میں بی جے پی کیلئے اچھے دن کے آثار کم ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے ترقی کیلئے 2022 ء کا ایجنڈہ طئے کیا تو سنگھ پریوار نے ہندو راشٹر کے لئے بھی یہی نشانہ مقرر کیا ہے۔ ترقی کے ایجنڈہ پر کامیابی کے بعد چار برسوں تک سنگھ پریوار نے نفرت کے ایجنڈہ پر عمل کیا اور ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ بی جے پی نے جب دیکھ لیا کہ جارحانہ فرقہ پرستی کے ایجنڈہ سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا تو دوبارہ ترقی کا ایجنڈہ اختیار کرنے میں عافیت محسوس کی ۔ یہ بی جے پی کی مجبوری کے سواء کچھ نہیں۔ گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں کوئی کارنامہ ایسا نہیں جو کامیابی دلاسکے۔ برخلاف اس کے عوام دشمن فیصلوں کے سبب ناراضگی میں اضافہ ہوگیا۔ قبل اس کے عوامی ناراضگی حکومت کے زوال کا سبب بن جائے۔ نریندر مودی ابھی سے ترقی کے نعرے پر انتخابی تیاریوں میں مصروف ہوچکے ہیں۔ کارناموں سے محروم بی جے پی کی حالت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی استھیوں کے ذریعہ عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ عام طور پر کسی بڑے قائد کی موت سے ان کی پارٹی کو عوامی ہمدردی حاصل ہوتی ہے لیکن یہاں تو استھیوں کو ملک بھرمیں گھماکر استھیوں کی سیاست کی جارہی ہے۔ بی جے پی ترقی کے لاکھ دعوے کرلے لیکن گجرات ماڈل سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ مودی اور امیت شاہ کو کرم بھومی دہلی سے جنم بھومی گجرات واپس ہونا پڑا۔

گجرات سے مودی اور امیت شاہ کے جانے کے بعد ریاست میں بی جے پی کی قیادت عملاً ختم ہوگئی ۔ بی جے پی کا حال یہ ہوچکا ہے کہ کوئی طالب علم اور نوجوان فوری طور پر گجرات کے چیف منسٹر کا نام نہیں بتاسکتا۔ گجرات میں بی جے پی قائدین انتہائی غیر مقبول ہوچکے ہیں اور آج بھی ریاست کی سیاست مودی اور امیت شاہ کے افراد گھوم رہی ہے۔ گجرات ہی کیا ملک بھر میں بی جے پی کا دوسرا نام مودی اور امیت شاہ بن چکا ہے ۔ گجرات کی ترقی اور گجرات ماڈل کے دعوے تو چلتے رہیں گے لیکن اس ماڈل میں مسلم کش فسادات ایک بدنما داغ ہیں۔ نریندر مودی کے دور چیف منسٹری میں پیش آئے فسادات گجرات پر ایسا داغ ہے کہ دنیا کی کسی فیکٹری کا صابن اسے دھو نہیں پائے گا۔ نریندر مودی فسادات کی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے ۔ جس طرح بابری مسجد کی شہادت ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، کلیان سنگھ ، اوما بھارتی اور دوسروں کا تعاقب کر رہی ہے، ٹھیک اسی طرح گجرات میں مظلوم مسلمانوں کی آہیں تاحیات مودی اور امیت شاہ کا پیچھا کریں گی۔ ایسی ترقی کس کام کی جس میں ہزاروں بے گناہوں کا خون ناحق شامل ہو۔ اسے قوم کی بے حسی اور بے ضمیری کہیئے کہ قتل عام کے ذمہ داروں کو سزا کے بجائے وزیراعظم کے عہدہ پر فائز کردیا گیا۔ ملک کی تاریخ کا شائد یہ پہلا فساد تھا جو چیف منسٹر کی راست نگرانی میں ہوا، جس کے کئی ثبوت منظر عام پر آئے لیکن آج تک مودی اور امیت شاہ جوڑی کو بے گناہوں کے قتل پر کوئی افسوس اور پچھتاوا نہیں ہے۔ ترقی کے دعوے اپنی جگہ نریندر مودی اور گجرات کی حکومت کو پہلے اس بات کی وضاحت کرنی ہوگی کہ فسادات کے ذمہ داروں کے خلاف کتنے مقدمات درج کئے گئے اور کتنے ملزمین کو سزا ہوئی ۔ ترقی سے زیادہ انسانیت کے قتل کا معاملہ سنگین ہے اور گجرات کی حکومت کو پہلے اس کا حساب دینا ہوگا ۔ نریندر مودی اور سنگھ پریوار نے گزشتہ چار برسوں میں سیکولرازم اور سوشیلزم پر منصوبہ بند حملہ کیا اور ان نظریات کی حامل جماعتوں کو کمزور کردیا گیا۔ ملک میں سیکولرازم اور سوشیلزم دم توڑ رہا ہے۔ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں نے سماج کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جسے زعفرانی رنگ میں نہ رنگ دیا ہو۔ ملک پر کنٹرول کرنے والے تین اہم عہدوں پر گجرات سے تعلق رکھنے والے افراد فائز ہیں۔ وزیراعظم ، بی جے پی کے صدر اور ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر جیسے عہدوں پر گجرات کا قبضہ ہے اور ملک پر عملاً گجرات کی حکمرانی ہے۔ اس صورتحال سے پریشان بی جے پی قائدین اندرونی طور پر ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں لیکن جس دن مودی کی مقبولیت کا پول کھل جائے گا، اسی دن پارٹی میں بغاوت کی آوازیں اٹھیں گی۔ ترقی کے ماڈل کے لئے مودی کی گجرات واپسی پر گجراتی عوام کے ذہنوں میں یہ جملہ ضرور گشت کر رہا ہوگا کہ ’’پھر آگئے وہیں پہ جہاں سے چلے تھے ہم ‘‘۔

الیکشن کمیشن نے لوک سبھا اور اسمبلیوں کے بیک وقت انتخابات کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ بی جے پی نے ایک ساتھ انتخابات کی تجویز پیش کی تھی تاکہ ملک کی فضاء کو مکدر کرتے ہوئے لوک سبھا اور اسمبلیوں میں فائدہ حاصل کیا جاسکے۔ ملک کی اہم سیاسی جماعتوں نے اس تجویز کی مخالفت کی تھی۔ اب جبکہ الیکشن کمیشن نے اپنا موقف واضح کردیا ہے، لہذا ملک میں وسط مدتی انتخابات کے امکانات موہوم دکھائی دے رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو وسط مدتی انتخابات کا خیال اس وقت آتا ہے جب عوام میں ان کی گرفت کمزور ہونے لگے۔ نریندر مودی کی طرح تلنگانہ میں چندر شیکھر راؤ اسمبلی کے وسط مدتی انتخابات کی تیاری کررہے ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ لوک سبھا کے ساتھ اسمبلی چناؤ کی صورت میں مخالف مودی لہر کا اثر ٹی آر ایس کے امکانات پر پڑے گا اور کانگریس کو راست فائدہ ہوگا۔ کے سی آر نے گزشتہ چار برسوں میں فلاحی اسکیمات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا لیکن کوئی سبھی اسکیم دیرپا اور مستقل ثابت نہیں ہوئی۔ اسکیمات پر عمل آوری کے سلسلہ میں استفادہ کنندگان کا انتخاب تنازعہ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ وزراء اور عوامی نمائندوں نے ٹی آر ایس کے حامیوں کو اسکیمات کے دائرہ میں شامل کیا جس کے نتیجہ میں عوام میں ناراضگی دیکھی جارہی ہے۔ عوامی ناراضگی میں اضافہ سے قبل کے سی آر اسمبلی کے وسط مدتی انتخابات کے حق میں ہیں اور اس کے لئے الیکشن کمیشن کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش جاری ہے۔ دوسری طرف ملک میں عیدالاضحیٰ پرامن طور پر گزر گئی ۔ عید کے موقع پر جس کو جو قربانی دینا تھا ، اس نے فریضہ کی تکمیل کردی۔ عید سے عین قبل گاؤ رکھشا کے نام پر ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ اس کے باوجود عید کا پرامن اختتام اس بات کا ثبوت ہے کہ نریندر مودی حکومت اور بی جے پی کو اندازہ ہوچکا ہے کہ نفرت کی سیاست سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہجومی تشدد کے بڑھتے واقعات سے توقع کی جارہی تھی کہ ہندو ووٹ متحد ہوں گے لیکن جس انداز میں بے قصور افراد کو سڑکوں پر ہلاک کیا گیا ، اس سے ہمدردی کے بجائے ناراضگی میں اضافہ ہوا۔ ہندو برادران وطن کی اکثریت نے ہجومی تشدد کو پسند نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سنگھ پریوار کی تنظیموں نے بھی عید کے موقع پر کسی بھی تنازعہ کو ہوا دینے سے گریز کیا ۔ گزشتہ چار برسوں میں گاؤ دہشت گردوں نے تقریباً 100 افراد کو ہلاک کیا لیکن ملک کی نگہبانی کا دعویٰ کرنے والے چوکیدار نے مذمت تک کرنا گوارا نہیں کیا ۔ ایسی نگہبانی کس کام کی جب عوام غیر محفوظ ہوں۔ عید کے دوسرے ہی دن نریندر مودی کا گجرات کا دورہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ پرامن ماحول میں پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کرنا چاہتے تھے۔ اسی دوران ملک کے نامور صحافی کلدیپ نیر نے اس دارفانی سے کوچ کیا۔ کلدیپ نیر کا شمار ایک سیکولر اور انسانیت دوست شخصیت کے طور پر ہوتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ جارحانہ فرقہ پرستی کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ مختلف زبانوں کے اخبارات میں اپنے جذبات کی ترجمانی کی ۔ وہ آزادیٔ اظہار خیال کے کٹر حامی تھے۔ کلدیپ نیر نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز دہلی کے اردو روزنامہ ’’انجام ‘‘ سے کیا تھا۔ بعد میں وہ مولانا حسرت موہانی کے ساتھ شامنامہ ’’وحدت‘‘ میں کام کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ کلدیپ نیر نے گاندھی جی کے قتل کی رپورٹنگ کی تھی ۔ وہ ایک صحافی کے علاوہ سفارتکار اور پارلیمنٹرین بھی تھے ۔ ہندو پاک کے درمیان عوامی اور سفارتی رشتوں کے استحکام کیلئے کلدیپ نیر نے مشن کے طور پر کام کیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کلدیپ نیر کو خراج پیش کرتے ہوئے ایمرجنسی کا حوالہ دیا جس کی مخالفت میں کلدیپ نیر نے آواز اٹھائی تھی۔ مودی نے خراج پیش کرنے میں بھی کانگریس کو نشانہ بنایا۔ اگر نریندر مودی کو کلدیپ نیر کی خدمات کا اتنا ہی اعتراف ہے تو انہیں بعد از مرگ بھارت رتن اعزاز سے نوازا جائے۔ منظر بھوپالی نے آج کے سیاستدانوں پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
سب آسمان سے اترے ہوئے فرشتے ہیں
سیاسی لوگوں میں کوئی برا تو ہے ہی نہیں