سامنے آئینہ رکھ لیا کیجئے

می ٹو … مسلم وزیر پہلا نشانہ
سازش یا حقیقت … یوگی کتنے نام بدلو گے

رشیدالدین
’’ می ٹو ‘‘ (Me Too) مہم نے آخرکار ایم جے اکبر کو اپنا شکار بنالیا اور انہیں مرکزی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اگرچہ جنسی ہراسانی اور حملوں کے خلاف خواتین کی مہم دنیا بھر میں جاری ہے لیکن ہندوستان میں کچھ زیادہ ہی اثر دیکھا جارہا ہے ۔ کیا ہندوستان نے جنسی ہراسانی معاملات میں مغربی کے آزادانہ معاشرہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ؟ گوگل کی جانب سے جاری کردہ Map کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ’’ می ٹو ‘‘ کا مسئلہ ہندوستان میں زیر بحث ہے اور خواتین بھی مظالم کو بیان کرنے آگے آرہی ہے۔ ہندوستان کی تہذیب اور روایات میں خواتین کے احترام سے انکار نہیں کیاجاسکتا اور ہندوستانی روایات کے مطابق خواتین کو سماج میں بلند مقام دیا گیا ہے ۔ عام طور پر ہندوستانی عوام اپنے اپنے مذہب پر سختی سے عمل پیرا ہیں اور تمام مذاہب نے خواتین کو احترام کی نظر سے دیکھا ہے۔ ہندو سماج میں خواتین کے نام سے دیویاں موجود ہیں جنہیں پوجا جاتا ہے۔ ایسے سماج سے می ٹو مہم میں سرگرمی سے حصہ لینے کی توقع نہیں کی جاسکتی لیکن می ٹو مہم کے نتائج کچھ اور ہی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ کیا ہندوستانی سماج میں خواتین کا احترام ختم ہوچکا ہے یا پھر می ٹو مہم کے نتائج حقائق برعکس اور بڑھا چڑھا کر پیش کئے جارہے ہیں۔ سماج کے اہل دانش طبقہ کو اس کا جائزہ لینا ہوگا۔ ہندوستانی تہذیب میں خواتین کے احترام کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ جنسی ہراسانی اور مظالم کے معاملہ میں سماج کی تمام تر ہمدردی خواتین کے ساتھ ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ قانون بھی الزامات کے سلسلہ میں خواتین کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ بسا اوقات اس تائید کے غلط استعمال کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ می ٹو مہم کے تحت سماج کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیتوں پر الزامات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوچکا ہے جو باعث تشویش اور باعث حیرت ہوئی ہے۔ کیا واقعی تمام کے خلاف الزامات درست ہیں یا پھر کردار کشی کا ہتھکنڈا ہے ؟ اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی شخصیت کو می ٹو مہم کے نام پر بلیک میل نہیں کیا جائے گا، اس بات کی کیا گیارنٹی ہے؟ ایسا کوئی میکانزم اور پیمانہ نہیں جس کے ذریعہ 10 تا 20 سال قبل پیش آئے واقعات کی سچائی کو طئے کیا جائے۔ اتنے طویل عرصہ تک خاموشی اختیار کرتے ہوئے گناہوں کی پردہ پوشی کرنا خود بھی بدخدمتی شمار کیا جائے گا ۔ اگر اسی وقت ملزمین کو بے نقاب کردیا جاتا تو کم از کم دوسری خواتین شائد بچ جاتی۔ ملک میں جس تیزی سے مہم جاری ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خواتین غیر محفوظ ہیں۔ واقعات کی سچائی سے ہمیں انکار نہیں۔ تاہم اس اندیشہ کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ می ٹو مہم کسی کی کردار کشی اور شہرت میں اضافہ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ کسی بڑی شخصیت پر انگشت نمائی کرتے ہوئے راتوں رات شہرت کی بلندی پر پہنچنا آسان ہے۔ می ٹو لفظ کا استعمال 2006 ء میں سب سے پہلے ایک امریکی سماجی جہد کار نے ان پر ہوئے مظالم کے اظہار کے لئے کیا تھا ۔ اکتوبر 2017 ء میں امریکی فلم ایکٹریس نے دنیا بھر کی خواتین سے اپنے تجربات بیان کرنے کی اپیل کی پھر کیا تھا ایک سیلاب امڈ پڑا۔ سماج کے ہر شعبہ میں خواتین کے استحصال کے واقعات ہر دور میں رونما ہوئے۔ سیاستداں ، بیورو کریٹ ، صنعت کار اور فلمی شخصیتیں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں ۔ حال ہی میں ایک راج بھون کا معاملہ میڈیا کی سرخیوں میں رہا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام سیاستداں صنعت کار اور بیورو کریٹ ایسے ہیں۔ ہر شعبہ میں چند سیاہ بھیڑ ضرور ہوتے ہیں، ان کیلئے سارے سسٹم کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستان میں اگرچہ فلمی شخصیتوں سے می ٹو مہم کا آغاز ہوا لیکن اس کا پہلا نشانہ سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر بن گئے۔ ایم جے اکبر سیاستداں سے زیادہ صحافی کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں اور ان کے خلاف خاتون صحافیوں نے الزامات عائد کئے ۔ اس مہم نے آخر کار ایک مسلمان کو اپنا پہلا نشانہ بنایا جس پر بی جے پی اور خواتین کی تنظیمیں بغلیں بجا رہی ہیں۔ کردار کشی کی اس مہم میں تمام تر الزامات مردوں پر لگائے جارہے ہیں جبکہ خواتین کو ہر طرح سے کلین چٹ دے دی گئی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہم نہیں بلکہ کسی سازش کا حصہ ہے۔ خواتین کا اپنے آپ کو پارسا ثابت کرنا اور صرف مردوں کو مجرم قرار دینا لمحہ فکر ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الزام عائد کرنے والی خواتین کو 15 تا 20 برسوں بعد پارسائی کا خیال کیوں آیا۔ فلمی شخصیتوں کے بعد میڈیا کو نشانہ بنایا گیا۔ ایم جے اکبر کے علاوہ ایک اور مشہور صحافی ونود دوا پر بھی الزامات عائد کئے گئے۔ ونود دوا کا شمار مخالف بی جے پی صحافیوں میں ہوتا ہے جو حکومت اور بالخصوص نریندر مودی کی خامیوں کو بے نقاب کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ می ٹو مہم سے سیاستداں بچ نہیں سکتے لیکن فی الوقت سیاستداں محفوظ دکھائی دے رہے ہیں۔ مرکزی کابینہ میں دو مسلم وزیر تھے اور ایم جے اکبر کے بعد اب صرف ایک باقی رہ گئے ہیں۔ موجودہ وزیر تو دراصل ’’ گھر واپسی ‘‘ کیس ہے۔ کسی بڑے عہدہ پر کیا کسی مسلم کو برداشت نہیں کیا جائے گا؟ بی جے پی نے الزامات ثابت ہونے سے قبل ہی ایم جے اکبر کے خلاف کارروائی کردی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مرکزی حکومت الزامات کی جانچ کرتی تاکہ خواتین کی پارسائی بھی تحقیقات کے دائرہ میں شامل ہوتی۔ الغرض می ٹو مہم میں ایک مسلم وزیر قربانی کا بکرا بن گئے ۔ کیا بی جے پی ان کی جگہ دوسرے مسلم وزیر کو شامل کرے گی ؟ مملکتی وزیر خارجہ کی حیثیت سے ایم جے اکبر کی خدمات غیر معمولی رہی۔ انہوں نے عرب اور اسلامی ممالک سے ہندوستان کے تعلقات استوار کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے سبب ایم جے اکبر نے مسلم ممالک میں ہندوستانی وزارت خارجہ کی اچھی شبیہہ بنائی تھی۔ ایسی شخصیت کا حکومت سے علحدہ ہونا وزارت خارجہ کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ می ٹو کے حقائق کا پتہ چلانے کیلئے الزام عائد کرنے والی خواتین کا نارکو ٹسٹ کرایا جائے۔ اس ٹسٹ کیلئے الزامات کی سچائی بے نقاب ہوگی۔ یہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعہ کردار کشی اور بلیک میل کی کوششوں کو روکا جاسکے گا۔ الزام عائد کرنے والی خواتین میں کوئی بھی قانونی لڑائی کیلئے تیار نہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ نارکو ٹسٹ کیلئے بھی تیار نہیں ہوں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ایک طرف بے حیائی کو قانونی شکل دے دی ہے تو دوسری طرف بعض خواتین اپنی پارسائی کا دعویٰ کرنے کیلئے الزام تراشی کر رہی ہے۔ جب برائی جائز بن گئی تو پھر اس میں پارسائی کا کیا سوال ہے۔
اترپردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ لاء اینڈ آر ڈر کی صورتحال پر قابو پانے اور عوام کی بھلائی کے بجائے سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کے تحت ناموں کی تبدیلی میں مصروف ہیں۔ اہم مقامات کے ایسے نام جو اسلامی تہذیب اور مسلمانوں سے منسوب دکھائی دے رہے ہیں، انہیں چن چن کر تبدیل کرتے ہوئے اہم ہندو شخصیتوں سے موسوم کیا جارہا ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ کو عوام نے اس لئے منتخب نہیں کیا کہ وہ شہروں کے نام تبدیل کرنے میں مصروف ہوجائیں۔ انہیں عوام کی بھلائی کی کوئی فکر نہیں۔ یوگی کی حکمرانی میں امن و ضبط کی صورتحال ابتر ہوچکی ہے ۔ انکاؤنٹرس کے واقعات میں اضافہ نے عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کردیا ہے۔ گن کلچر پر قابو پانے کے بجائے یوگی ادتیہ ناتھ بھگوا کلچر کو عام کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ تاریخی شہر الہ آباد کا نام تبدیل کر کے پریاگراج رکھ دیا گیا۔ اس سے قبل مغل سرائے کو دین دیال اپادھیائے جنکشن سے موسوم کیا گیا ۔ نئی دہلی اور اترپردیش دونوں حکومتوں کو مسلمانوں کے ناموں سے کچھ زیادہ ہی نفرت ہے۔ مسلم ناموں کی تبدیلی میں مصروف یوگی ادتیہ ناتھ کا دل اگر اللہ تعالیٰ پھیر دیں تو خود ان کا نام بدل جائے گا۔ سنگھ پریوار نے ناموں کی تبدیلی کے سلسلہ میں طویل فہرست تیار رکھی ہے۔ گورکھپور کے رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے بعد سے ہی ادتیہ ناتھ نے ناموں کی تبدیلی کا آغاز کیا تھا ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی اس قدر نشانیاں ہیں کہ مودی اور یوگی نام تبدیل کرتے تھک جائیں گے لیکن نشانیاں ختم نہیں ہوں گی۔ افسوس کہ اس معاملہ میں سیکولر طاقتیں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ناموں کی تبدیلی دراصل ملک کی تہذیبی اور ثقافتی وراثت پر حملہ ہے۔ دوسری طرف کیرالا کے سبری ملا مندر میں خواتین کے داخلہ کی اجازت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کردیا گیا۔ ہندو تنظیموں نے جنہیں سنگھ پریوار کی سرپرستی حاصل ہے، سپریم کورٹ کے فیصلہ کی دھجیاں اڑادی ہیں لیکن عدالت کی تائید میں کہنے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ اس معاملہ کو کوئی بھی توہین عدالت کہنے سے گریز کر رہا ہے ۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھی سپریم کورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور صدیوں پرانی روایات کی دہائی دی۔ ٹاملناڈو میں جلی کٹو کی رسم کے سلسلہ میں بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تبدیل کرنے کیلئے حکومت کو مجبور ہونا پڑا تھا۔ مسلمانوں کے مسائل کا جب سوال آتا ہے تو سپریم کورٹ کے احکامات پر سختی سے عمل آوری کی جاتی ہے ۔ چاہے وہ حاجی علی درگاہ میں خواتین کے داخلہ کی اجازت ہو یا پھر طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دینا ۔ مسلمان جب اپنی شریعت کا حوالہ دیتے ہیں تو اسے قبول نہیں کیا جاتا اور حکومت کی جانب سے عدالت کے فیصلہ کو ماننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ برخلاف اس کے ہندو تنظیمیں اپنی آستھا کے نام پر سپریم کورٹ کو ماننے سے انکار کر رہی ہیں۔ ہندوؤں کی آستھا جس طرح اہمیت رکھتی ہے ، مسلمانوں کی شریعت بھی اس سے کم اہمیت کے حامل نہیں، پھر دونوں میں امتیازی سلوک کیوں ؟ می ٹو مہم پر خمارؔ بارہ بنکوئی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
دوسروں پر اگر تبصرہ کیجئے
سامنے آئینہ رکھ لیا کیجئے