سال نو کے موقع پر کیک کاٹنا

سوال : آجکل مسلم معاشرہ روز بروز مغربی تہذیب سے متاثر ہوتے جارہا ہے ۔ مغرب کی حیاء سوز و غیر اخلاقی حرکات کو اختیار کرتے جارہا ہے ۔ حالیہ چند سالوں سے حیدرآباد میںبھی مسلمان کثیر تعداد میں سال نو کا جشن منارہے ہیں۔ رات دیر گئے تک بازاروں میں گھومتے پھر رہے ہیں، شراب نوشی کر رہے ہیں۔ رقص و سرور کی محفلیں سجا رہے ہیں، آتشبازی کررہے ہیں۔ بعض لوگ دور دراز مقام پر جاکر خوشی و مسرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کئی مسلمان اس موقع پر کیک کاٹ کر نئے سال کا استقبال کر رہے ہیں۔ شرعی لحاظ سے اس طرح کا عمل مسلمانوں کے لئے کیا حکم رکھتا ہے۔
جمیل الرحمن، لوکل کنٹہ

جواب : شریعت میں کہیں بھی سال نو کے موقع پر اظہار خوشی کرنے کا کوئی حکم نہیں۔ مغرب کی تقلید میں مسلمانوں کا جشن منانا سخت معیوب قابل صد افسوس ہے اور بے حیائی و غیر اخلاقی حرکات کی کسی صورت میں کوئی گنجائش نہیں۔ شراب نوشی ، رقص و سرور کی محفلیں شرعاً حرام ہیں۔ اظہار خوشی کسی نعمت کے حصول یا مقصد کی تکمیل پر ہوتی ہے ۔ سالِ نو کے موقع پر کونسی دینی و دنیوی نعمت مسلمان کو حاصل ہورہی ہے ؟ کس بلند مقصد کی تکمیل ہورہی ہے ؟ اس موقع پر خوشی کا اظہار اخلاق کے دائرہ میںبھی مطلوب نہیں ۔ بلکہ آدمی کو محاسبہ کرنا چاہئے کہ اس کی زندگی کا ایک سال ختم ہوگیا۔ اس کو آخرت کی فکر کرنی چاہئے ۔ نیز سال نو کے موقع پر اس کو اپنی زندگی کی کامیابی اور آخرت میں کامرانی کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے تاکہ وہ دین و دنیا میں سرخرو ہوسکے ۔ نیز اس موقع پر کیک کاٹنا در حقیقت غیر مسلمین سے مشابہت ہے اور مسلمان کو ہر صورت میں غیر قوم کی مشابہت سے بچنا چاہئے ۔

مرد و زن کی مخلوط دعوت میں شرکت
سوال : مسلمان بھی مغربی تہذیب کی قدم بہ قدم پیروی کر رہے ہیں، دعوتوں اور ضیافتوں میں ان کے طور طریق کو صد فیصد اختیار کرتے جارہے ہیں، آج کل دعوتیں بڑی بڑی ہوٹلوں میں ہورہی ہیں، جہاں مرد و خواتین یکساں طورپر رہتے ہیں، حجاب و پردہ کا کوئی اہتمام نہیں رہتا، رشتہ دار غیر رشتہ دار ، دوست احباب سب اپنے اہل و عیال کے ساتھ بے پردہ آتے ہیں اور کھانا کھاتے ہیں ۔ ایسی دعوتوں میں دانشوران قوم و عمائدین ملت بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس قسم کی دعوت کرنے کو بڑا فخر محسوس کیا جارہا ہے، اعلیٰ تہذیب ، اونچی سوسائٹی کا شعار سمجھا جارہا ہے۔ کیا ایسی دعوتوں میں مسلمانوں کو شریک ہونا چاہئے یا نہیں اور مسلمان کا اس قسم کی دعوت کا ا ہتمام کرنا کیسا ہے۔
سید کاظم علی ، ملک پیٹ

جواب : محرم و غیر محرم مرد کے ساتھ عورتوں کا مخلوط اجتماع، احکام شریعت کے خلاف ہے۔ صورت مسئول عنہا میں مذکور طریقہ کی دعوت کرنا کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں۔ لہذا عام مسلمان کو ایسی دعوت میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔ بالخصوص مقتداء حضرات کے لئے اجتناب لازم ہے۔

نعرۂ تکبیر
سوال : مسجد میں محفل وعظ و بیان کے دوران نعرہ بازی ، جیسے ’’ نعرہ تکبیر، نعرہ رسال، ، نعرہ غوث اور ’’ غوث کا دامن نہیں چھوڑیں گے ‘‘ بآواز بلند کہنا درست ہے یا نہیں ۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
علی الدین، محبوب نگر

جواب : کتب احادیث سے خود حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے نعرہ تکبیر بلند کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔ خیبر کے موقع پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ نعرہ تکبیر ۔ اللہ اکبر‘‘ بلند فرمایا تھا ، جیسا کہ بخاری جلد ثانی صفحہ 604 صفحہ میں ہے ’’ عن انس قال صلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم الصبح قریبا من خیبر بغلس ثم قال اللہ ا کبر خربت خیبر ‘‘ … الخ ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے خود اس موقع پر نعرہ تکبیر بلند فرمایا تھا ۔ جیسا کہ مذکورہ کتاب کے صفحہ 605 پر ہے ۔ ’’ عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ قال لما غزا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر … فرفعوا اصواتھم بتکبیر اللہ ا کبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ ‘‘ … الخ ۔ حضرت سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کی مسرت میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے دار ارقم میں نعرہ تکبیر بلند کیا تھا جس کی آواز مسجد والوں نے بھی سنی تھی جیسا کہ اکمال مشکوۃ صفحہ 602 پر ہے‘‘… فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما انت منتہ یا عمر ؟ فقلت اشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لا شریک و اشھد ان محمد اعبدہ و رسولہ فکبر اھل الدار تکبیرۃ سمعھا اھل المسجد ‘‘… الخ۔

حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیوں میں سے بطور پیشنگوئی حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں ایک جنگ کی فتح کا ذکر فرمایا کہ وہ لوگ ہتھیاروں سے جنگ نہیں کریں گے بلکہ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر کا تین مرتبہ نعرہ بلند کریں گے اور کامیاب ہوجائیں گے جیسا کہ مشکوہ المصابیح باب الملاحم صفحہ 467 میں ہے ’’ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ھل سمعتم بمدینہ جانب منھا فی البر و جانب منھا فی البحر قالوا نعم یا رسول اللہ قال لا تقوم الساعہ حتی یغزوھا سبعون الفامن بنی اسحاق فاذا جاء و ھا نزلوا ولم یقاتلوا بسلاح ولم یرموابسھم قالوا لا الہ الا اللہ واللہ اکبر فیسقط احد جانبیھا ۔ ثم یقولون الثانیہ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر فیسقط جانبھا الاخر ثم یقولون الثالثہ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر فیفرج لھم فیدخلونھا ‘‘… الخ ۔ (وہ مسلم )

نعرہ تکبیر یعنی اللہ اکبر ، ذکر اللہ ہے۔ اجتماعی ذکر جہر خواہ مسجد میں ہو کہ غیر مسجد میں علمائے متقدمین و متاخرین کے پاس بالاجماع جائز ہے۔ بشرطیکہ جہر (بلند آوازی) کسی کی نماز و قرات یا آرام میں خلل انداز نہ ہو جیسا کہ شامی جلد ایک صفحہ 488 میں ہے ۔ ’’ و فی حاشیہ الحمومی عن الامام الشعرانی رحمہ اللہ اجمع العلماء سلفاء و خلفاء علی استحباب ذکر الجماعہ فی المسجد و غیرھا الا ان یشوش جھرھم علی نائم او مصل او قاری ‘‘۔ بعض اھل علم نے بعض فوائد جیسے ذاکر کے قلب کی بیداری ، نیند کی دوری اور نشاط میں ازدیاد و اضافہ کی بناء پر ذکر جہر کو ذکر خفی کے مقابلے میں ترجیح دی ہے ۔ جیسا کہ مذکورہ کتاب کے اسی صفحہ پر ہے ’’ … فقال بعض اھل العلم ان الجھر افضل لانہ اکثر عملا و لتعدی فائدتہ الی السامعین فیؤخذ قلب الذاکر فیجمع ھمہ الی الفکر و یصرف سمعہ الیہ و یطرد النوم و یزید النشاط‘‘۔

کتب فقہ میں یہ بھی صراحت ہے کہ آیت پاک ’’ و من اظلم ممن منع مساجد اللہ یذکر فیھا اسمہ ‘‘ … کی وجہ سے مساجد میں ذکر جہر سے منع نہیں کیا جائے گا جیسا کہ بزازیہ میں ہے ’’ ان الذکر بالجھر فی المسجد لا یمنع احترازا عن الدخول تحت قولہ تعالیٰ ’’ و من اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ ‘‘…

اب رہا نعرہ رسالت وغیرہ کا بلند کرنا تو اس سے متعلق مختصر وضاحت یہ ہے کہ غیر اللہ کے ساتھ ’’ یا ‘‘ حرف ندا کا استعمال کبھی اظہار شوق لقاء یا اظہار حیرت اور بکثرت منادیٰ (جس کو پکارا جارہا ہے) کو نداء کرنے (پکارنے) کے لئے کلام عرب میں معروف و مستعمل ہے۔ مخلوق غائب کو ندا کرنا محض تذکرہ یا شوق وصال یا حسرت فراق کے ہو تو شرعاً کوئی حرج نہیں۔ اس اعتبار سے اگر ’’ یا رسول اللہ ‘‘ ’’ یا غوث ‘‘ وغیرہ کا نعرہ بلند ہوجائے تو شرعاً منع نہیں۔ اگر نداء سے غائب کو سنانا مقصود ہو اور تصفیہ باطن سے منادی کے حق میں منادی مشہود ہو تو ایسی صورت میں بھی حرف نداء کا استعمال شرعاً منع نہیں۔ مخلوق غائب کو بلا کسی مشاہدہ کے سنانے کے اعتقاد کے ساتھ نداء کرنا اگرچیکہ قدرت خدا وندی سے بعید نہیں تاہم ایسا اعتقاد بھی آداب توحید کے خلاف ہے۔ ’’ غوث کا دامن نہیں چھوڑیں گے‘‘ اردو زبان میں ایک محاورہ کا جملہ ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت غوث اعظم قدس سرہ العزیز جو اللہ کے نیک بندے اور ولی گزرے ہیں جس طرح ان کی زندگی کا مقصود رضائے الہی رہا ہے اور جس کی وجہ سے ان کی زندگی کامل طور پر اتباع شریعت و احیاء سنت کا جیتا جاگتا نمونہ رہی ہے اسی طرح ہم بھی ان کے طریق پر عمل پیرا رہ کر مرضیات الٰہی کے مطابق زندگی گزاریں گے۔

تصریحات بالا سے واضح ہے کہ مذکورہ در سوال نعرہ ہائے توحید و رسالت وغیرہ کا عام محافل میں دوران وعظ و تقریر بلند کرنا بر محفل و بر موقع ہو تو کوئی حرج نہیں ہے تاہم بے محفل و بے موقع ہو تو احتراز کرنا چاہئے ۔ مساجد کی حد تک مذکورہ صورتوں کے تحت بلا تصنع و تکلف از خود کوئی نعرہ بلند ہوجائے تو کوئی حرج نہیں تاہم آداب مسجد ہر حال میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔

غریب بیوی کا نفقہ اور مالدار شوہر
سوال : ایک شخص کو تین بیویاں ہیں۔ تیسری بیوی غریب گھرانے کی ہے ۔ شوہر پہلی اور دوسری بیوی کو اچھے مکانات میں رکھا ہے اور ان کے بچوں کا اچھا خیال رکھتا ہے ۔ اچھے اسکولس میں تعلیم دلواتا ہے اور تیسری بیوی سے کوئی بچے نہیں، اس کو اپنے ماں باپ کے گھر میں رکھا ہے اور صرف ماہانہ 1500/- روپئے خرچ دیتا ہے جبکہ وہ ا پنے ایک بچے کی فیس پر اس سے زائد رقم خرچ کرتا ہے ۔ جب اس سے اس بارے میں پوچھا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اس کا باپ غریب ہے۔ یہ رقم بھی اس کے لئے بہت کافی ہے ۔ اس بارے میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
محمد ابوبکر ، نانل نگر

جواب : بیوی کا نان نفقہ شرعاً شوہر پر لازم ہے اور نفقہ کے تعین میں شوہر کی مالی حالت کا اعتبار کیا جائے گا بیوی کا نہیں۔ اس لئے شوہر مالدار ہے تو وہ حسب استطاعت اپنی تیسری بیوی کا نفقہ ادا کرے گا ۔ باپ غریب ہونے سے اس کے نفقہ میں کمی نہیں کرسکتا۔ بدائع الصنائع جلد دوم ص : 431 میں ہے : ذکر ا لکرخی ان قدر النفقۃ والکسوۃ یعتبر بحال الزوج فی یسارہ و اعسارہ لا بحالھا۔

پڑوسی کو تکلیف دینا
سوال :۔ ایک شخص اور ان کی بہن کے درمیان ان کی والدہ مرحومہ کے مکان کی تقسیم کے موقع پر حسب رضامندی ہر دو فریق یہ تحریر موجود ہے کہ بہن کے مکان کے چھت اور ہرسہ طرف چار انچ کی چسپیدہ دیوار ان کی ہے اور کھلی اراضی بھی ان کی ہے ۔ اب مرحومہ بہن کے فرزند کا ادعا یہ ہیکہ چار انچ کے علاوہ دیوار کے جس حصہ پر چھت ہے وہ بھی انہی کی ہے ۔ دوسری نزاع یہ ہے کہ مرحومہ بہن کے مذکورہ مکان کی چھت کا پانی بھائی کے گھر میں گررہا ہے ۔ بھائی کی خواہش ہے کہ اس تکلیف کا سدباب ہو لیکن مرحومہ کے لڑکے اس کو قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں ۔

محمد عارف ، حیدر گوڑہ
جواب : ۔ مذکورہ درسوال دیواروں سے متعلق جب فریقین کی رضامندی کا ثبوت تحریراً موجود ہے تو اب نزاع کی کوئی گنجائش نہیں‘ حسب تصفیہ ہرسہ طرف چار انچ کی دیوار بہن کی رہے گی اس لئے ان کے ورثاء کو اس سے اتفاق کرلینا چاہیئے اگر وہ دیوار کا حجم بڑھانا چاہتے ہوں تو چار انچ کی دیوار سے متصل اندرونی حصہ میںمزید دیوار اٹھالینے کا ان کو اختیار حاصل ہے ۔ قطع نظر دیواروں کی نزاع کے ہر صورت میں بہن کے مکان کی چھت کا پانی بھائی کے حصہ مکان میں گررہا ہو تو اس کی شرعاً اور قانوناً بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس لئے اس امر کے سدباب کئے جانے کی بھائی کی طرف سے کی جانے والی خواہش حق بجانب ہے ۔ مرحومہ بہن کے لڑکے پر لازم ہے کہ وہ اس کا سدباب کرے کیونکہ پڑوس کو جبکہ وہ رشتہ دار بھی ہو دوگنا حق رکھتا ہے ‘ اپنی طرف سے کوئی تکلیف دینا تو بڑی بات ہے ۔ پڑوسی ہونے کا حق یہ ہے کہ اس کو کوئی تکلیف ہو تو اس کو بھی دور کرنے میں پڑوسی کو تعاون عمل کرنا چاہیئے ۔