سادھوی بی جے پی کا حقیقی چہرہ!

محمد ریاض احمد

مکہ مسجد بم دھماکوں سے متعلق مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے این آئی اے کی خصوصی عدالت کے جج رویندر ریڈی پانچ ملزمین کو شواہد کے فقدان کی وجہ بتاکر بری کردیتے ہیں۔ اگرچہ اس مقدمہ میں ابھینوبھارت نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والے جملہ 10 افراد کو ماخوذ کیا گیا تھا لیکن صرف پانچ دیویندر گپتا، لوکیش شرما، سوامی آسیما نند عرف (نباکمار سرکار)، بھارت موہن لال رتیشور المعروف بھارت بھائی اور راجیندر چودھری کو گرفتارکیا گیا اور ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے، جبکہ اس مقدمہ میں ملوث سنیل جوشی کو جو سادھوی کا مبینہ عاشق ہوا کرتا تھا مدھیہ پردیش میں دوران مقدمہ ہی قتل کردیا گیا۔ وہ سادھوی سے کیا چاہتا تھا اور کیوں چاہتا تھا اس بارے میں ہماری بہادر تحقیقاتی ایجنسیاں اور سادھوی خود جواب دے سکتے ہیں۔ بہرحال ہم ذکر کررہے تھے مکہ مسجد بم دھماکہ کے مقدمہ کا فیصلہ سنانے والے جج رویندر ریڈی کا جنہوں نے فیصلہ سنانے کے فوری بعد اپنے عہدہ سے استعفی دے دیا اور کچھ عرصہ انتظار کیا پھر بی جے پی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ یہاں تک کہ حیدرآباد کے بی جے پی دفتر میں ایک تقریب بھی منعقد ہونے والی تھی اور راپیندر ریڈی کو مدعو بھی کیا گیا تھا۔ اس معاملہ میں رکن پارلیمنٹ بنڈارو دتاتریہ نے اہم رول ادا کیا لیکن امیت شاہ کی موجودگی میں ریٹائرڈ جسٹس رویندر ریڈی بی جے پی میں شامل نہیں ہوسکے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ امیت شاہ جسٹس ریڈی کی بی جے پی میں شمولیت کو کسی کے اشارہ پر روکنے میں کامیاب رہے کیونکہ اس سے بی جے پی اور اس کی سرپرست آر ایس ایس کی مزید بدنامی ہوسکتی تھی اور یہ سوالات اٹھائے جاسکتے تھے کہ مکہ مسجد دھماکہ مقدمہ میں آسیمانند، لوکیش شرما اور دوسرے ہندو دہشت گردوں کو بری کرنے والے جج نے کہیں کسی کے اشارہ پر تو کام نہیں کیا؟ اس طرح کے سوالات کو ٹالنے کے لئے رویندر ریڈی بی جے پی میں شامل ہونے سے قاصر رہے۔ مکہ مسجد بم دھماکوں کے ملزمین اور مالیگاؤں بم دھماکوں، سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں اور اجمیر کی درگاہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ میں پیش آئے بم دھماکوں کے ملزمین میں دیکھا جائے تو کہیں نہ کہیں تعلق پایا جاتا ہے اور ان کی کڑیاں ایک دوسرے سے ضرور ملتی ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پچھلے پانچ برسوں سے نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی دہشت گردی میں ملوث دائیں بازو کے ان دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کردیا گیا یا ان کے مقدمات کمزور کردیئے گئے جو قوم پرستی کا دعویٰ کرتے ہیں اور خود کو ہندوستان کے پہلے دہشت گرد ناتھورام گوڈسے کی اولاد قرار دیتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ یہ دہشت گرد بابائے قوم مہاتما گاندھی کی مذمت کرتے ہیں اور گوڈسے کو تہنیت پیش کرتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 8 ستمبر 2006 کو مالیگاؤں میں بعد نماز جمعہ سلسلہ وار دھماکے کئے گئے جس میں 37 مسلمان جاں بحق ہوئے تھے۔ اس کیس میں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا لیکن دائیں بازو کے دہشت گرد ہی اس کے ذمہ دار نکلے لیکن بعد میں ان کا ذکر ہی ختم ہوگیا۔ درگاہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے باہر 11 اکتوبر 2007 کو افطار کے دوران دھماکہ ہوا جس میں 3 افراد شہید ہوئے۔ ان دھماکوں کے لئے این آئی اے کی خصوصی عدالت نے آر ایس ایس کارکن سنیل جوشی (جو اب مرچکا ہے)، دیویندر گپتا اور بھاویش پاٹل کو خاطی قرار دیا (دیویندر گپتا مکہ مسجد بم دھماکوں میں بھی ملوث تھا) لیکن آسیما نند اور دوسرے پانچ دہشت گردوں کو شواہد کے فقدان کے باعث بری کردیا گیا۔

اسی طرح اگر آپ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئے دھماکوں پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ 17 فروری 2007 کو پانی پت کے قریب کئے گئے ان دھماکوں میں 68 پاکستانی شہری مارے گئے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ مکہ مسجد بم دھماکوں کی طرح سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں کے واقعہ میں بھی سوامی آسیمانند نے اعتراف جرم کرلیا تھا لیکن بی جے پی کے اقتدار میں عدالت نے سمجھوتہ ایکسپریس کا فیصلہ سناتے ہوئے آسیمانند کے بشمول تمام ملزمین کو بری کردیا۔ دوسری مرتبہ بھی مالیگاؤں میں دھماکہ ہوا اور اس دھماکہ میں 7 مسلمان جاں بحق اور 100 زخمی ہوئے۔ یہ بھی دھماکہ عین رمضان المبارک کے دوران کیا گیا۔ اس مقدمہ میں بھی بی جے پی کی طلبہ ونگ اے بی وی پی سے وابستہ سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر، لیفٹننٹ کرنل پرساد پروہت اور دیگر 6 دہشت گردوں کے خلاف الزامات عائد کئے گئے اور مقدمے چلائے گئے۔ کرنل پروہت کو ضمانت بھی مل چکی ہے جبکہ اس پر آئی ای ڈی حاصل کرتے ہوئے ان دھماکوں میں استعمال کرنے کا سنگین الزام عائد کیاگیا تھا۔ یو پی اے دور حکومت میں معتمد داخلہ رہے آر کے سنگھ نے بھی ببانگ دہل کہا تھا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں جو دہشت گردانہ کارروائیاں کی گئی ہیں ان میں ملوث دہشت گردوں میں کم از کم 10 کا تعلق آر ایس ایس سے ہے۔ یہ بیان ایک ایسے شخص کا ہے جو فی الوقت بی جے پی کا رکن پارلیمنٹ ہے اور مرکزی کابینہ میں شامل ہے۔ آپ غور کریں کہ 2006 سے ہندوتوا دہشت گردانہ جتنے بھی حملے ہوئے ہیں ان کے ملزمین کو پچھلے پانچ برسوں کے دوران شہادتوں کے فقدان اور پولیس کی ناکافی تحقیقات کا بہانہ بناکر رہا کردیا جاتارہا ہے، جس کا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ ہندوستانی عدلیہ کو ساری دنیا میں بدنام کردیا جائے اور پھر ایسی فضاء اور صورتحال پیدا کی جائے جس میں صرف اور صرف مسلمانوں کو سزا ہو اور ہندوتوا دہشت گرد بڑی آسانی سے اپنی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل جائیں۔ حقوق انسانی کے جہد کار ہوں یا پھر انصاف پسند ہندوستانی شہری سب کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کررہا ہیکہ آخر ہندوتوا کے دہشت گردوں کو قانون سے راحت اور جبکہ مسلمانوں، دلتوں اور قبائیلوں کو قانون سے زحمت کیوں پہنچائی جارہی ہے۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ گجرات میں مسلم کش فسادات میں ملوث بیشتر درندے بھی بری کردیئے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ بابو بجرنگی جیسا درندہ بھی ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے۔ یہ وہ درندہ جس نے اسٹنگ آپریشن کے دوران یہ کہا تھا کہ نریندر بھائی نے مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کی ستائش کی تھی اور اس نے یہ کہتے ہوئے انسانیت کو شرم سار کردیا تھا کہ ایک مسلم خاتون کے پیٹ میں پل رہے بچے کو نکال کر اسے تلوار کی نوک پر رکھا گیا۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہندوستان کی تاریخ میں اس طرح کا بدترین واقعہ کبھی پیش نہیں آیا ہوگا۔ دوسری جانب گجرات میں ہی عشرت جہاں کے ساتھ دیگر 4 جوانوں کے انکاؤنٹر، پھر شیخ سہراب الدین، ان کی اہلیہ کوثر بی اور دوست تلسی پرجا پتی کے پولیس کے ہاتھوں انکاؤنٹر کے نام قتل ہوتے ہیں۔ اس معاملہ میں خود صدر بی جے پی امیت شاہ کو جو اس وقت ریاستی وزیر تھے ان الزامات کے باعث اپنے عہدہ سے مستعفی ہونا پڑا یہاں تک کہ انہیں ریاست بدر کردیا گیا تھا۔ تاہم مودی حکومت کے آنے کے بعد فرضی انکاؤنٹرس میں ملوث تمام پولیس عہدہ داروں کو ایک کے بعد ایک ضمانتیں ملتی گئیں اور وہ رہائی پاتے گئے اور اب حال یہ ہے کہ امیت شاہ آج بی جے پی کے عہدہ صدارت پر فائز ہیں۔ جہاں تک سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے بی جے پی میں شمولیت اور بھوپال سے اسے بی جے پی امیدوار بنائے جانے کا سوال ہے اس سے ایک بات صاف ہوگئی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف صفر برداشت کی پالیسی اختیار کرنے کا دعویٰ کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی ہندوستانی قانون اور دستور سے کھلواڑ کررہے ہیں۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ سابق چیف منسٹر جموں و کشمیر عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کا موقف ہے۔ اس بارے میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہیکہ یہ صرف ان دونوں کا ہی موقف نہیں ہے بلکہ ہر اس انصاف پسند ہندوستانی کا موقف ہے جسے اپنے ملک کی گنگا جمنی تہذیب، امن و امان اور ترقی عزیز ہے۔ بی جے پی نے ایک ایسی سادھوی کو جس کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے اور تحقیقاتی ایجنسیوں نے واضح کردیا

ہیکہ مالیگاؤں بم دھماکوں کے لئے جس بائیک کا استعمال کیا گیا وہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی تھی لیکن افسوس کی بات یہ ہیکہ دہشت گردانہ واقعہ میں اس کی گاڑی استعمال ہونے کے باوجود این آئی اے کی خصوصی عدالت اس کے خلاف مکوکا کا اطلاق ختم کردیتی ہے اور ضمانت پر رہا بھی کردیتی ہے لیکن ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں کے سلسلہ میں پھانسی پر لٹکائے جانے والے یعقوب میمن کی قریبی عزیز روبینہ میمن کو صرف اس بنیاد پر سزائے عمر قید سنائی جاتی ہے کہ بم دھماکوں کے لئے جو کار استعمال کی گئی تھی وہ روبینہ کے نام پر تھی۔ اس طرح کا ڈوغلا پن شاید کہیں اور دیکھنے میں نہیں آئے گا۔ بہرحال ہم بات کررہے تھے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی جسے بھوپال سے بی جے پی نے اپنا امیدوار نامزد کیاہے۔ اس کا مقابلہ مدھیہ پردیش کے سابق چیف منسٹر اور کانگریس کے سینئر لیڈر ڈگ وجئے سنگھ سے ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہیکہ وہاں دہشت گردی فتح پاتی ہے یا پھر سیکولرازم، جمہوریت اور دستور کی جیت ہوتی ہے۔ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بی جے پی نے امیدوار بناکر نہ صرف ہندوستانی دستور، قانون اور جمہوریت کی توہین کی ہے بلکہ قوم پرستی پر بھی دھبہ لگادیا ہے۔ ساتھ ہی مودی اور ان کی پارٹی نے مہاراشٹرا اے ٹی ایس کے سابق سربراہ اور ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے ہیرو اور اشوک چکرا ہیمنت کرکرے کی قربانیوں کو بھی ضائع کردیا ہے، یہاں تک کہ ان کی توہین کی ہے۔ یہ وہی کرکرے ہیں جنہوں نے سادھوری پرگیہ سنگھ ٹھاکر، سوامی امرتیہ نندا المعروف دیانند پانڈے، رمیش اپادھیائے (یہ ایک ریٹائرڈ میجر ہے)، کرنل پرساد سریکانت پروہت جیسے مشتبہ دہشت گردوں کی گرفتاری کو یقینی بنایا تھا۔ انہوں نے ہندوتوا دہشت گردی کو بے نقاب کیا تھا۔ اب سادھوی نے جو چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور جس نے خرابی صحت کی بنیاد پر ضمانت حاصل کی ہے، ہیمنت کرکرے کو ملک کا غدار، ہندوتوا کا دشمن کہتی ہیں۔ وہ صرف یہی کہنے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اس کی بددعا کے باعث ہیمنت کرکرے مارا گیا ہے۔ یہ اچھا ہوا کہ سادھوی نے جس بیہودہ زبان کا کرکرے جیسی شخصیت کے خلاف استعمال کیا ہے اس کی اب تمام گوشوں سے مذمت ہونے لگی ہے۔ آئی پی ایس آفیسرس اسوسی ایشن نے بھی سادھوی کی سخت مذمت کی ہے لیکن اسوسی ایشن کے ان بیچارے آفیسروں کو سادھوی سے پہلے مودی اور امیت شاہ کی مذمت کرنی چاہئے جنہوں نے اس طرح کی مشتبہ شخصیت رکھنے والی سادھوی کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com