سادگی سے شادیاں کرنا سود اور غیر اسلامی رسومات سے بچنے کا واحد حل

معاشرہ میں مثالی شادیوں کی ضرورت ، موبائیل فونس آلہ بے راہ روی : مولانا عبدالقوی
حیدرآباد ۔ 29 ۔ ستمبر : ( نمائندہ خصوصی ) : مسلمانوں کی شادیوں کا جو نظام ہے عقد و نکاح کے بارے میں دین اسلام نے جو اصول و ضوابط متعین کئے ہیں شادیوں سے متعلق ہمارے نبی کریم ﷺ کے جو پاک ارشادات ہیں دنیا کے کسی اور مذہب میں ایسے سنہرے اصول و ضوابط اور ارشادات ہم کو نہیں ملیں گے ۔ ہمارا دین بہت آسان ہے وہ اپنے پیروؤں کو آسانیاں فراہم کرتا ہے ۔ اگر مسلمان حقیقت میں شریعت کے مطابق شادیوں کا اہتمام کرنا شروع کردیں تو مسلم معاشرہ میں سود کی جو خطرناک لعنت سرائیت کر جارہی ہے ، جہیز اور گھوڑے جوڑے کے نام پر لڑکی والوں کو جو رسوائی ہورہی ہے ، عمریں گذر جانے کے باوجود شادیاں نہ ہونے کے نتیجہ میں معاشرہ کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان سب کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ آج ہم خود کو ایک کٹر مسلمان قرار دیتے ہیں ۔ دوسروں کی بہ نسبت اپنے آپ کو سب سے اچھا مسلمان سمجھ بیٹھتے ہیں لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو مسلمانوں والی کوئی چیز ہم میں نظر نہیں آتی خاص طور پر ہماری شادیاں تو ایک تماشہ ہوتی جارہی ہیں ۔ رات دیر گئے بیانڈ باجہ ، ہزاروں لاکھوں روپئے کی آتشبازی ، لڑکی والوں کو شادی کے دن اچھے سے اچھے کھانے ، انواع و اقسام کی ڈش رکھنے پر مجبور کرنا رواج بن گیا ہے ۔ لوگ یہ سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں کہ شادی بیاہ میں شاہانہ خرچ ، غیر اسلامی رسم و رواج اور اسراف نہ صرف دینی اعتبار سے بلکہ دنیاوی لحاظ سے بھی ہم کو خسارہ میں ڈال رہے ہیں ۔ شادیوں میں دھوم دھام کے باعث ہمارے شہر میں ایسے درجنوں خاندان ہیں جو سودی قرض میں مبتلا ہیں ۔ دو چار دن کی خوشیوں اور معاشرہ میں جھوٹی حماقت کی خاطر برسوں کی فکر و تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ حالانکہ ہمارے نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ’ سب سے بہتر نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم سے کم ہو ‘ ۔ ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں نے شادیوں میں اسراف کے خلاف جو مہم شروع کی ہے اس کا اثر ہونے لگا ہے ۔ جہاں دھوم دھام کی شادیاں ہورہی ہیں وہیں انتہائی سادگی سے انجام پانے والی شادیوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ حال ہی میں مسجد قادر الدولہ باغ رین بازار میں بعد نماز مغرب نکاح کی ایک متبرک تقریب منعقد ہوئی ہم اسے متبرک اس لیے کہہ رہے ہیں کیوں کہ یہ شادی انتہائی سادگی سے انجام پائی اور اس میں شرعی امور کا پوری طرح خیال رکھا گیا ۔ نکاح کے بعد نوشہ محمد عقیل احمد ولد محمد عمر علی اپنے گھر روانہ ہوگئے اور پھر کچھ رشتہ دار خواتین دلہن کے گھر پہنچ کر اسے اپنے ساتھ لے آئیں ۔ انتہائی سادگی سے انجام پائی شادی کے لیے شرکاء محفل نے نوشہ محمد عقیل احمد ، ان کے والد محمد عمر علی اور عروسہ کے والد محمد یوسف کو دلی مبارکباد پیش کی ۔ دلہن کے ماموں سید مجاہد حسین شاہ قادری کی سرپرستی میں انجام پائی شادی میں مولانا عبدالقوی نے خطبہ دیا ۔ اپنے فکر انگیز خطاب میں انہوں نے پر زور انداز میں کہا کہ آج شادیوں میں جس قسم کی دھوم دھام ہورہی ہے بیجا اسراف کیا جارہا ہے وہ مسلمانوں کے لیے اچھی بات نہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمان اپنی شادیوں میں صرف اور صرف ریا کاری کے لیے زیادہ سے زیادہ خرچ کررہے ہیں ۔ لڑکی کے والدین اور سرپرستوں پر شادیوں میں پر تکلف عشائیہ کے اہتمام کے لیے زور ڈالا جارہا ہے ۔ نتیجہ میں وہ ہراج کی چٹھیاں چھڑا رہے ہیں ۔ سودی قرض حاصل کررہے ہیں جس سے معاشرہ میں ایسی برائیاں جنم لے رہی ہیں جس کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ۔ مولانا عبدالقوی نے دوبدو پروگرام میں جناب زاہد علی خاں کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ شادیوں کو سادہ بناتے ہوئے خود کو اور معاشرہ کو سود کی گندگی سے بچائیں ۔ مولانا نے یہ بھی کہا کہ جب لوگوں کو خوش کرنے کے لیے بیجا اسراف کیا جاتا ہے تو اس سے معاشرہ میں نئی نئی برائیاں جنم لیتی ہیں ۔ اپنے بندوں کی عدول حکمی پر اللہ تعالیٰ کو جوش آتا ہے ایسے میں مسلمانوں کو اس طرح کی غیر اسلامی حرکتوں سے دور رہنا چاہئے ۔ مولانا عبدالقوی نے یہ بھی کہا کہ آج لوگ مساجد میں نکاح کررہے ہیں لیکن بعد میں دیکھا جارہا ہے کہ شادی خانہ پہنچ کر وہ سب کام کئے جارہے ہیں جس سے اللہ اور رسول ﷺ خفا ہوتے ہیں ۔ بے بنیاد الزامات کے تحت گجرات کی جیل میں 5 ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے مولانا عبدالقوی نے مسلمان لڑکے لڑکیوں کو دین بیزاری اور بے راہ روی کا شکار ہونے کے خلاف انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ نوجوان نسل میں آج جو بے راہ روی بے حیائی اور بے شرمی کی پھیلی ہوئی وباء کے لیے انٹرنیٹ اور موبائیل فونس ذمہ دار ہیں ۔ موبائیل فونوں نے تو لڑکیوں کے لیے بے راہ روی کی راہیں کھولدی ہیں ۔ اگرچہ اس کا اچھا استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن موبائیل فون فی الوقت آلہ بے راہ روی بن گئے ہیں ۔ اس چھوٹے سے فون سے کئی خاندانوں کی عزت خاک میں مل گئی ہے اور مل رہی ہے ۔ والدین اور سرپرست اگر لڑکیوں کو موبائیل فون دیں تو اس موبائیل کو وقت بہ وقت چیک کرتے رہیں اس لیے کہ کچھ لوگ موبائیل فونس پر فحش اور گمراہ کن پیامات ارسال کرتے ہیں ۔ بہر حال انتہائی سادگی سے انجام پائی اس تقریب کو مولانا نے دوسروں کے لیے ایک مثال قرار دیا ۔ دوسری جانب ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں نے نئے جوڑے اور ان کے والدین کو مبارکباد دیتے ہوئے مسلمانوں میں اس طرح کی سیدھی سادی شادیوں کے رواج کو فروغ دینے پر زور دیا ۔۔