سادگی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے

سوال: ہمارے دور میں ہر طرف پیار و محبت ، ہمدردی و غمخواری کا ماحول تھا، بے جا خرچ ، اسراف ، تکلف ، نام ونمود سے لوگ کوسوں میل دور تھے۔ شہرت و دکھاوا اظہار برتری کے جذبات نہ تھے۔ ماڈرن زمانے کے ساتھ حالات بھی تبدیل ہوگئے۔ سادگی ختم ہوچکی۔ ہر طرف حماقت ، برتری شان وشوکت کا اظہار ہے۔ یہ بناوٹی دکھاوے نے مسلمانوں کی معیشت اخلاق و کردار، ذہن و فکر کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ سادگی کو ہمارے نوجوان معیوب سمجھ رہے ہیں۔ میں کیا بتاؤں میرے لاکھ کہنے پرمیرے بچوں نے شادی کے موقع پر بے فضول خرچہ کیا۔ سوائے دکھاوا اور پیسوں کی خرابی کے کچھ نہیں۔ دعوتوں میں کھانے پینے میں بے تحاشہ اسراف ہورہا ہے۔ خواتین زیورات اور کپڑوں میں ہزار ہا روپئے خرچ کر رہی ہیں۔ تھوڑی سی حماقت کیلئے لوگ خطیر رقم خرچ کر رہے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ آپ اسلام میں سادگی کی کیا اہمیت ہے۔ بالخصوص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو ساری کائنات کیلئے بہترین نمونہ ہیں، آپ کی زندگی میں سادگی کی کیا حیثیت تھی واضح کیجئے ؟
عبدالحق، نواب صاحب کنٹہ
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملہ میں سادگی کو پسند فرماتے تھے۔ آپؐ کو کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے میں تکلف اور تصنع سخت ناپسند تھا۔ سادگی اور بے تکلفی ہمیشہ آپؐ کا معمول رہی۔ جو کچھ سامنے آجاتا ، کھالیتے، جو کچ فراہم ہوتا ، پہن لیتے ، البتہ طبیعت میں نظافت ضرور تھی، چنانچہ کسی ایسی چیز کو پسند نہ فرماتے جس میں ظاہری یا معنوی طور پر نفاست نہ پائی جاتی ہو۔ کچا پیاز، لہسن گو آپؐ نے حرام نہیں ٹھہرایا، مگر خود کبھی نہیں کھایا (الترمذی، 261:4 ، حدیث 1806 ، 1807 ) ۔ اپنے متبعین سے بھی آپٔ یہی توقع رکھتے تھے کہ ان کے رہن سہن میں سادگی اور بے تکلفی رہے۔ ایک مرتبہ آپؐ حضرت فاطمۃ الزہراء کے مکان پر تشریف لے گئے، مگر دروازے ہی سے پلٹ آئے۔ حضرت علیؓ نے سبب دریافت کیا تو فرمایا : کسی پیغمبر کے شایان شان نہیںکہ وہ کسی ایسے گھر میں داخل ہو جس میں زیب و زینت ہو (ابو داؤد ، 382:4 ، حدیث 4149 ) ۔ ہوا یہ تھا کہ آپؐ کی صاحبزادیؓ نے گھر کی سجاوٹ کے لئے رنگین پردے دروازے پر ڈال لیے تھے، ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓ کے حجرے میں چھت گیر لگی دیکھی تو فوراً چاک کردی اور فرمایا: ’’ کپڑا خود پہننے کے لئے ہوتاہے ۔ اینٹ کو پہنانے کیلیء نہیں ‘‘ (ابو داؤد ، 385:4 ، حدیث 4153 ) ۔ ایک مرتبہ کسی نے آپؐ کو کمخواب کی بنی ہوئی بہت خوبصورت قبا بھیجی ۔ آپؐ نے پہنی ، مگر پھر اتار کر حضرت عمر فاروقؓ کو بھیج دی کہ فروخت کر کے اپنے کام میں لائیں (البخاری : 236:1 ، کتاب الجمعہ ، باب 7 ، مسلم ، 1638:3 ، حدیث 2068 ) ۔ اسی طرح ایک موقع پر آپؐ کو کسی نے بہت خوبصورت چادر بھیجی ، جس کے حاشیے کاڑھے ہوئے تھے۔ آپؐ نے پہنی تو بہت بھلی معلوم ہوئی، مگر ایک شخص کے سوال کرنے پر اتار کر اسے مرحمت فرمادی (البخاری ، 123:4 ، الارب ، باب 39 ) گو عورتوں کے لئے زیور ممنوع نہیں ، مگر آپؐ اپنی ازواج کے لئے یہ تکلف بھی پسند نہ فرماتے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن دیکھے تو فرمایا: ’’ اگر تم ورس کے کنگنوں کو زعفران سے رنگ کر پہن لیتی ، تو بہتر ہوتا‘‘ (النسائی : السنن، مطبوعہ قاہرہ ، 159:8 )۔ ایک مرتبہ حضرت فاطمہؓ کو سونے کی زنجیر پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا : کیا تجھے یہ بات اچھی محسوس ہوگی کہ لوگ یہ کہیں کہ رسول اللہ کی بیٹی کے ہاتھ میں آگ کی زنجیر ہے ۔ پھر آپؐ بیٹھے بغیر لوٹ گئے ۔ اس پر حضرت فاطمہؓ نے اس زنجیر کو بیچ کر اس کی قیمت سے ایک غلام خرید کر آزاد کردیا، جس پر آپؐ بے حد خوش ہوئے (کتاب مذکور ، ص : 155 ) ۔ ایک بار حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ آپؐ جمعہ اور وفود وغیرہ کے اجتماعات کے لئے کوئی عمدہ لباس (حلۃ سیرائ) خرید لیں۔ فرمایا : ’’ یہ تو وہ پہنے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو‘‘(ابو داؤد، 649:1 ، حدیث 1076 ) ۔ ا یک مرتبہ آپؐ باہر نکلے تو ایک قبہ بنتے ہوئے دیکھا ۔ دریافت فرمانے پر پتہ چلا کہ یہ فلاں شخص کا ہے ۔ آپؐ یہ سن کر خاموش ہوگئے ۔ اگلے دن جب وہ شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے اس سے اعراض فرمایا ۔ اس نے اپنے دوستوں سے اس کا ذکر کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ کل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمہارے زیر تعمیر قبے کو دیکھا تھا ۔ اس نے یہ سن کر اپنا قبہ گرادیا (ابو داؤد : السنن، 403:5 ) ۔
آپؐ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ اگر مجلس سے گھر جاکر واپس آنا ہوتا تو اپنی جوتیاں وہیں چھوڑ جاتے اور برہنہ پاؤں جاتے اور واپس آتے (ابو داؤد) ، 5 : 180 ، حدیث 4854 ) ۔ ایک مرتبہ لوگ آپؐ کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے تو آپؐ کو ناگوار ہوا اور فرمایا : ’’ تم عجمیوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھ کر کھڑے نہ ہوجایا کرو (ابن ماجہ : السنن ، حدیث 3839 ، ابو داؤد ، 398:5 ، حدیث 5230 ) ۔ گھر میں جو گدا تھا ، اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی (الترمذی ، 298:4 ، حدیث 1761 )۔متذکرہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراف اور فضول کو پسند نہیں فرمایا گو کہ وہ حلال و جائز ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح ہم کو ہر معاملہ میں سادگی اختیار کرنی چاہئے۔

موقوفہ اراضی پر ٹاور نصب کرنا
سوال : قدیم موقوفہ قبرستان کی اراضی پر Cell Phone Tower تنصیب کرنا ازروئے شرع درست ہے یا نہیں جبکہ اہلیان محلہ و بعض ذمہ داران مسجد کو قبرستان کے تنگ ہوجانے کا اندیشہ ہے ۔ کیا قبرستان کی زمین تنگ کرنے کے باوجود سیل فون ٹاور قائم کیا جاسکتا ہے ؟ کیا یہ منشاء وقف کے خلاف نہیں ہے ؟
محمد نعمت اللہ، مراد نگر
جواب : قبرستان کی زمین کو تدفین اموات کے سوا کسی اور غرض کے لئے استعمال کرنا یا کرایہ پر دینا درست نہیں کیونکہ یہ امر منشاء واقف کے خلاف ہوگا ۔ نیز قبرستان کی زمین تنگ ہوگی ۔ لہذا صورت مسئول عنہا میں قبرستان کی زمین پر سیل فون ٹاور کی تنصیب درست نہیں۔ نیز الاسعاف فی احکام الاوقاف ص : 66 میں کی عبارت ہے : لواتخذ اھل قریۃ ارضا لھم مقبرۃ و قبر وافیھا ثم بنی فیھا و احد منھم بیتا لوضع اللبن وآلۃ الدفن و اجلس فیہ من یأخذالامتعۃ بغیر رضا أھل القریۃ او برضا بعضھم فقط لابأس بہ اِن کان فی المقبرۃ سعۃ بحیث لا یحتاج الی ذلک المکان ولو احتاجوا الیہ یرفع البناء یدفن فیہ سے مستفاد ہے۔

جمعہ کی نماز میں بوقت اقامت کب کھڑا ہونا چاہئے
سوال : بعض مساجد میں جمعہ کے دن خطبہ ثانیہ کے بعد امام صاحب کی طرف سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ تمام اصحاب کھڑے ہوکر صف بندی کریں اور سل فون بند کرلیں۔ امام صاحب کے حکم کی بناء ۔ عموماً تمام لوگ صف بندی کرتے ہیں البتہ بعض اصحاب بیٹھے رہتے ہیں اور حی علی الفلاح کے وقت کھڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے صف بندی میں خلل پیدا ہوجاتا ہے اور بعد میں پیچھے سے لوگ صف بندی کرتے ہیں۔ اقامت کے وقت کھڑے رہنے والوں کا عمل درست ہے یا بیٹھنے والوں کا عمل صحیح ہے ؟
براہ کرم تشریح شریعت کے مطابق فرمائیں تو مناسب ہے
رحمت اللہ خان، حمایت نگر
جواب : عام پنجوقتہ نمازوں میں بوقت اقامت امام مصلی کے قریب موجود ہو تو امام اور مقتدی سب کو حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا چاہئے اور اقامت کے وقت امام مصلی کے پاس موجود نہ ہو پیچھے سے آرہا ہو تو جس صف سے وہ گزرے وہ صف کھڑی ہوجائے اور یہ حکم آداب نماز سے ہے ۔ مراقی الفلاح ص 135 فصل من آدابھا میں ہے : (و) من الادب (القیام) ای قیام القوم والامام وان کان حاضر اتقرب المحراب (حین قیل) ای وقت قول المقیم (حی علی الفلاح) لأنہ أمربہ فیجاب وان لم یکن حاضرا یقوم کل صف حتی ینتھی الیہ الامام فی الاظھر۔ البتہ جمعہ کی نماز میں امام خطبہ ختم کرتے ہی اقامت شروع کردینی چاہئے۔ امام کو خود بیٹھنے کا موقع نہیں رہتا اور جب امام کھڑے رہے تو سارے مقتدیوں کو کھڑے ہوکر صف بندی کرنی چاہئے۔

خادمہ سے نکاح
سوال : زید کے مکان میں ایک گاؤں کی دس بارہ سالہ مسلم لڑکی کو اس کی ماں کام کاج کیلئے رکھی، اس لڑکی کی تمام تر ذمہ داری رہنا سہنا کھانا پینا ، دکھ درد ، سب زید کے ذمہ تھا ، آج تقریباً چالیس سال سے زید اس کی تمام ذمہ داری کو ادا کر رہا ہے ۔اس کی شادی کی گئی تھی لیکن لڑکا چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اب اس کی عمر 52,50 سال ہے اور زید کی عمر 75 سال ہے ۔ زید کی بیوی بھی عمر رسیدہ ہوگئی ہے اور شوگر ، بی پی کی مریضہ ہے ، ہر وقت بیمار رہتی ہے۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ زید اس کو اپنی اور اپنی بیوی کی خدمت کیلئے اپنی زوجیت میں لے سکتا ہے ۔ کیا زوجیت میں لینے کیلئے نکاح کرنا ضروری ہے ۔ کیا نکاح کے بغیر زوجیت میں نہیں لے سکتے۔ جبکہ وہ چالیس سال سے اس کی کفالت میں ہے ۔ اگر نکاح ضروری ہے تو اس کا آسان طر یقہ کیا ہے ؟ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مال غنیمت میں عورتیں آتی تھیں جو نکاح کے بغیر زوجیت میں لیجاتی تھیں۔
مطہر حسین، پہاڑی شریف
جواب : خادمہ کی جس لڑکے سے شادی ہوئی تھی اس نے طلاق دیا ہے تو اس سے نکاح کیا جاسکتاہے ورنہ نہیں اور نکاح کے منعقد ہونے کیلئے عاقد اور عاقدہ کا گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرنا ضروری ہے۔ دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کئے بغیر وہ زید کے نکاح میں داخل نہیں ہوسکتی۔
نکاح کا آسان طریقہ یہی ہے کہ وہ اور خادمہ دو مسلمان عاقل و بالغ مرد یا ایک مرد دو عورتوں کے روبرو نکاح کرنے کیلئے ایجاب و قبول کریں ان میں سے کوئی ایک مثلاً شوہر کہے کہ وہ اس قدر مہر کے عوض اس خاتون سے عقد نکاح کیا اور وہ خادمہ شوہر کے ایجاب کو قبول کرلے تو دونوں میں نکاح منعقد ہوجائے گا لیکن قاضی کے ذریعہ نکاح کیا جائے اور سیاہنامہ بنائے جائیں اور اس کا دفتر میں ریکارڈ ہو کیونکہ نکاح کی وجہ سے وہ بیوی بن جائے گی ۔ خادمہ باقی نہیں رہے گی ۔ اس کے بعد پہلی بیوی کے حقوق برابر ہوجائیں گے اور دونوں میں عدل و انصاف کرنا زید پر لازم ہوگا۔ وہ شوہر کی خدمت و اطاعت تو کریگی لیکن پہلی بیوی کی خدمت اس کے ذمہ لازم نہیں رہے گی۔ اگر وہ اپنے طور پر کرتی ہے تو وہ اس کے اخلاق ہیں۔ نیز نکاح کرلیا جائے اور ریکارڈ نہ ہو تو اس کے حقوق مثلاً بعد انتقال زید وراثت میں حصہ کے حق سے محروم ہوجائے گی اور ز ید اس کے لئے جوابدہ ہوجائے گا۔
کوئی خادمہ لڑکی عرصہ دراز تک یا ساری زندگی کسی کی کفالت و ذمہ داری میں رہنے سے اس کی ذات پر کسی کا کوئی حق نہیں بنتا اور نہ کوئی رشتہ قائم ہوتا ہے ۔ اگر زید اس کے محارم میں سے نہیں ہے تو اس سے گوشہ پردہ ضروری ہے ۔ وہ نکاح کے بغیر اس سے اپنی شخصی خدمت نہیں لے سکتا اور نہ اس دور میں غلام باندی کا کوئی تصور ہے۔