ساحر لدھیانوی (امن اور محبت کے شاعر و نغمہ نگار)

ڈاکٹر امیر علی
ساحر لدھیانوی کے والد چودھری فضل محمد ا پنے بیٹے کی سرگرمیوں سے ناخوش تھے ۔ ایک بار ڈپٹی کلکٹر نے ان کے سامنے ساحر کی شاعری کی تعریف کی تو وہ بہت خوش ہوئے اور اس بات پر فخر کرنے لگے کہ ان کا بیٹا مشہور شاعر بن گیا ہے ۔ پھر انہیں پتہ چلا کہ ساحر زمینداروں اور جاگیرداروں کے خلاف تقریریں کرتے ہیں تو دکھ کے ساتھ کہنے لگے کہ اللہ نے ایسی اولاد دی ہے کہ باپ کی زمینداری کو ختم کرانا چاہتا ہے ۔ مگر ساحر کی لڑائی یا ذاتی دشمنی کسی سے نہیں تھی بلکہ ان کی لڑائی سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں اور سسٹم میں پھیلی ہوئی خرابیوں سے تھی ۔ عام زمینداروں اور جاگیر داروںکی طرح ساحر کے والد بھی انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے اور انگریز حکام کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے ۔ ساحر کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ان پر بار بار حکومت کا عتاب نازل ہوا ۔ ان کی بعض نظمیں ضبط کرلی گئیں۔ بی اے کے آخری سال میں وہ لدھیانہ سے لاہور منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے دیال سنگھ کالج لاہور میں داخلہ اور وہاں وہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن یونین کے صدر چنے گئے ۔ مگر سیاسی سرگرمیوں کے باعث ساحر کو ارباب اقتدار نے امتحان میں بیٹھنے سے قبل ہی ساحر کو کالج چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا اور یوں ان کی تعلیم کا قیمتی سال  ضائع ہوگیا ۔ اب ساحر کو تعلیم سے کوئی دلچسپی باقی نہ رہی اور انہوں نے کالج کو خیر باد کہہ دیا اور رسالہ’’ادب لطیف‘‘ سے وابستہ ہوگئے ۔ ’’ادب لطیف ‘‘ میں وہ مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے کئی  غیر معمولی شہرت حاصل کی ۔ 1944 ء میں ساحر کا شعری مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ شائع ہوکر منظر عام پر آچکا تھا ۔ لوگ ان کے نام اور کام سے بخوبی واقف ہوچکے تھے ۔ 1945 ء اکتوبر میں حیدرآباد میں اردو کے ترقی پسند مصنفین کی کل ہند سطح پر کانفرنس منعقد کی گئی تھی ۔ ساحر کو اس کانفرنس میں خاص مدعو کیا گیا تھا اور ان سے خواہش کی گئی کہ وہ کانفرنس کیلئے اپنا مقالہ پیش کریں۔ جب کانفرنس میں ساحر نے اپنا مقالہ پڑھا تو تئیس چوبیس سال کے نوجوان کو دیکھ کر منتظمین اور کانفرنس کے شرکاء سب حیرت زدہ رہ گئے اوران کے مقالے کی ہر طرف تعریف کی گئی تھی اور سجاد ظہیر نے ساحر کو گلے لگالیا اور مبارکباد دی تھی ۔ کانفرنس کے اختتام کے بعد سجاد ظہیر، کرشن چندر ، مجاز اور سردار جعفری ساحر کو بمبئی لے آئے ۔ اعلان آزادی اور تقسیم ہند کے بعد ملک کے طول و عرض میں فسادات پھوٹ پڑے ۔ لدھیانہ اور پنجاب بھی فساد کی زد میں آچکا تھا۔ اس وقت ساحر بمبئی میں تھے اوران کی والدہ دھیانہ میں تھیں۔ سخت پر یشانی کے عالم میں ساحر دلی پہنچے اور ان کے ایک سکھ دوست کے ہاں ٹھہرے رہے ۔ حالات اتنے خراب تھے کہ ساحر دلی سے لدھیانہ نہیں جاسکتے تھے ۔ ساحر نے اپنی آنکھوں سے فسادات اور دنگوں کا خونین منظر دیکھا تھا اور اس کا گہرا اور شدید تاثر نظم ’’آج‘‘ کی صورت میں ڈھل گیا ہے ۔ یہ نظم کو انہوں نے 11 ستمبر 1947 ء کو آل انڈیا ریڈیو دلی سے نشر کی تھی۔ ساحر کے ہندو اور سکھ دوستوں نے ان کی والدہ کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیںاور پتہ چلا کہ ساحر کی والدہ مہاجرین کے کیمپ میں بھجوادی گئیں تھیں۔ ساحر والدہ کی تلاش میں لاہور روانہ ہوئے اور انہیں اطلاع ملی کہ مجلس احرار کے ممتاز لیڈر ، مشہور صحافی اور ادیب شورش کا شمیری کے یہاں ان کی والدہ ٹھہری ہوئی ہیں۔ لاہور کے احباب کی خو اہش تھی کہ ساحر یہیں رہیں مگر ساحر یہاں مستقل قیام کیلئے خود کو ذہنی طور پر آمادہ نہ کرسکے اور اپنی والدہ کو لے کر ہندوستان چلے آئے ۔ 1948 ء میں ساحر نے دلی سے ماہنامہ ’’شاہراہ‘‘ کا ا جراء کیا تھا ۔ یہ رسالہ حالی پبلیشنگ ہاوس کے مالک بدر صاحب اور محمد یوسف جامعی کے تعاون سے جاری ہوا تھا ۔
ایس ڈی برمن صاحب بہت خوش ہوئے اور اس طرح ساحر ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے بمبئی کی فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے ۔ ساحر نے 1949 ء سے 1980 ء تک یعنی 31 سال تک فلمی دنیا سے وابستہ رہے۔ ساحر کی پہلی اور کامیاب فلم ’’بازی‘‘ تھی ۔ اس کے سبھی نغمے بے حد مقبول ہوئے تھے ۔ اس کے علاوہ تاج محل ، برسات کی رات، نیا دور، گمراہ ، سادھنا ، داغ اور کبھی کبھی اور ایسی بے شمار فلمیں ہیں جو مقبولیت اور کامیابی میں ساحر کے گیت کا بھی بڑا دخل ہے ۔ ساحر کی شاعری اور شخصیت کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے فلمی دنیا سے وابستہ ہوکر بھی ادبی سفر کو جاری رکھا اور اپنی جگہ الگ بنائی ہے ۔ اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ 1954 ء سے 1974 ء تک ’’تلخیاں‘‘ کے بائیں ایڈیشن شائع ہوئے ہیں۔ مجروح  کی طرح ساحر نے بھی فلمی نغموں کو تخلیقی شاعری کے قریب لا کھڑا کیا ہے اور فلمی گیتوں کے ذریعہ انہوں نے عوام کے سماجی اور سیاسی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے جس کا جواب نہیں ہے ۔ ہندوستان کی جنگ آزادی میں بھی ساحر نے اہم رول ادا کیا تھا ۔ ملک کے قومی رہنماؤں سے ساحر کے گہرے مراسم تھے ، سبھی لوگ ان کی شخصیت اور شاعری سے کافی متاثر تھے ۔ پنڈت جواہر لال نہرو ساحر کو بہت چاہتے تھے اور ساحر بھی پنڈت جی کی دل سے عزت کرتے تھے ۔ ساحر کو ’’ہندو مسلم ، سکھ عیسائی‘‘ اتحاد بہت عزیز تھا، وہ چاہتے تھے عملی طور پر تمام لوگ آٖس میں اتحاد و یگانگت کے ساتھ رہیں۔ ساحر چاہتے تھے کہ ملک میں ’’سبز انقلاب‘‘ آئے اور ہرطرف امن و امان ہو۔
ساحر لدھیانوی کی دیرینہ خدمات کے سبب ان کو کئی ایوارڈس عطا کئے گئے ہیں۔ 1971 ء میں حکومت کی جانب سے باوقار ’’پدم شری ‘‘ ایوارڈ دیا گیا ۔ 1972 ء میں مہاراشٹرا حکومت نے انہیں ’’جسٹس آف پیس‘‘ نامزد کیا گیا تھا ۔ 1974 ء میں بمبئی کارپوریشن میں ’’اسپیشل اگزیکیٹیو  مجسٹریٹ بنائے گئے۔ 1972 ء میں ان کے شعری مجمعے ’’آؤ کوئی خواب بنیں‘‘ پر سویٹ لینڈ نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا تھا ۔ 1972 ء میں ہی دوسرے مجموعہ کلام ’’آؤ کوئی خواب بنیں‘‘ پر اردو اکیڈیمی مہاراشٹرا نے اسٹیٹ لٹریری ایوارڈ عطا کیا ۔ حکومت پنجاب نے بھی ساحر کی علمی و ادبی خدمات کو سرہاتے ہوئے ریاست کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا جبکہ 12 ستمبر 1977 ء کو جالندھر میں منعقدہ ایک عظیم الشان جلسہ میںحکومت پنجاب کے وزیر تعلیم سردار سکھ چندر سنگھ نے ساحر کو طلائی تمغہ ابھینندن گرنتی اور سروہا (شال) کے علاوہ نقد رقم پیش کی تھی ۔ ایک ممتاز امریکی اسکالر کارلو کوہر لانے اردو شاعری اور ترقی پسند تحریک پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا اور اس نے ساحر لدھیانوی کے فن کو بھی مطالعے اور بحث کے لئے منتخب کیا تھا ۔ ساحر کا کلام دنیا کی بہت سی زبانوں جیسے انگریزی ، فرانسیسی، چیک ، روسی ، اردو ، فارسی ، ہندی اور عربی میں بھی ترجمے ہوئے ہیں۔ ساحر لدھیانوی کا شعری سرمایہ زیادہ تر نظموں اور گیتوں پر مشتمل ہے مگر انہوں نے غزلیں بھی بہت اچھی کہی ہیں۔ نمونہ کلام کچھ اس طرح ہے ۔ آؤ کوئی خواب بنیں‘‘ کا پہلا قطعہ اور دوسری غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
نہ منہ چھپاکے جیے ہم ، نہ سر جھکا کے جیے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جیے
ا ب ایک رات اگر کم جیے، تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلاکے جیے
بھڑکا رہے ہیں آگ لب نغمہ گر سے ہم
خاموش کیا رہیں گے زمانے کے ڈر سے ہم
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم
ساحر جتنے بڑے شاعر ، ادیب اور مشہور گیت کار تھے ، اتنے ہی عظیم انسان تھے ۔ ساحر نہایت ملنسار ، خوش اخلاق ، ہمدرد ، شریفاور دوست نواز انسان تھے ۔ ہندوستان کے نامور شاعر و نغمہ نگار ہونے کے باوجود ان کی طبیعت میں غرور و تکبر اور اکڑ نام کو نہ تھی ۔ سادگی ، ہمدردی اور اعلیٰ اخلاق ان کے خاص جوہر تھے ۔ ان کی زندگی ہی میں دوستوں اور رشتہ داروں سے انہیں دل شکن تجربے بھی ہوئے لیکن ساحر ان کی باتوں کا برا نہیں مانتے تھے ۔ ساحر ہمیشہ اپنے دوستوں اور مستحق لوگوں کی مالی مدد بھی کیا کرتے تھے ۔ یہ تھا شائستہ تہذیبی ورثہ جس کے ساحر تنہا وارث تھے ۔ ساحر کو انسان اور انسانیت کی اعلیٰ قدروں سے بے حد محبت تھی اور اس کے علاوہ ان کی تمام تر ہمدردیاں سماج کے دبے اور کچلے ہوئے لوگوں اور مظلوم انسانوں کے ساتھ وابستہ تھیں۔ فاقہ کش غریبوں ، یتیموں ، مزدوروں اور کسانوں کے بعد ساحر کی ہمدردیاں مظلوم ہندوستانی عورتوں کے ساتھ رہی ہیں۔ ساحر کو اپنی والدہ سے بے پناہ محبت تھی اور ساحر کی والدہ بھی ان کو دل سے چاہتی تھیں۔ ساحر کی والدہ 31 جولائی 1976 ء کو انتقال کر گئیں جس کا ساحر کے دل کو گہرا صدمہ ہوا ۔ ساحر کے والد چودھری فضل محمد کا بھی 1964 ء میں انتقال ہوچکا تھا جو پاکستان منتقل ہوچکے تھے ۔ ساحر کو اپنی والدہ کی جدائی کا غم اس قدر شدید تھا کہ وہ اس صدمے سے باہر نکل نہ سکے اور اپنی والدہ کے انتقال کے بعد مغموم رہنے لگے اور اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگے اور اپنے تنہا وجود کو زیادہ عرصہ تک سنبھال نہ سکے اور آخر شنبہ 25 اکتوبر 1980 ء میں ساحرنے اپنی جان ، جان آفرین کے سپرد کردی اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ ایک ستارہ جو کبھی لدھیانہ (پنجاب) سے طلوع ہوا تھا وہ بمبئی میں آکر غروب ہوگیا ۔ کیفی اعظمی صاحب کا ایک مشہور شعر ساحر لدھیانوی صاحب پر پورا صادق آتا ہے ۔
ملے نہ پھول تو کانٹوں سے دوستی کرلی
اسی طرح سے بسر ہم نے زندگی کرلی