سابق پرنسپل اسلامیہ ڈگری کالج، ورنگل

تبصرہ: ڈاکٹر محمد بہادر علی
’’اور چراغ جلتا رہا‘‘ ڈاکٹر مسعود جعفری کے فکر و نظر کے آئینے میں
ڈاکٹر مسعود جعفری کی کتاب ’’اور چراغ جلتا رہا‘‘ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔ اس کتاب سے پہلے ایسی کوئی اور کتاب میری نظر سے نہیں گزری جس میں خطوط کی صورت حالات حاضرہ کا جائزہ لیا گیاہے۔ یہ بڑے حوصلہ اور جرأت کی بات ہے کہ مسعود جعفری نے اس ملک کے حقیقی چہرے کو خطوط کی صورت میں بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسعود جعفری کا اخبارات کو مراسلت لکھنے کا مقصد قوم و ملت کے دور رس نتائج دینے والا پیغام دینا ہے اور ملک و ملت کو سلگتے ہوئے مسائل سے آگاہ کرنا ان کا منشا ہے۔ ان کی تحریروں میں حساس موضوعات پر گفتگو ملتی ہے جو ان کی مفکرانہ و دانشورانہ سوچ کی نشاندہی کرتی ہے۔ ان کے خطوط حیدرآباد کے موقر اخبارات جن میں قابل ذکر روزنامہ سیاست حیدرآباد، منصف، رہنمائے دکن اور صحافی دکن کے علاوہ ملک کے مختلف کثیر الاشاعت اخبارات میں بھی شائع ہوتے رہے ہیں جن کی عوامی سطح پر خوب پذیرائی بھی ہوئی۔ ایک طرح سے یہ خطوط ایک تحریک کی صورت میں عوامی سطح پر شعور کی بیداری کا کام کرتے رہے ہیں۔
یوں تو خطوط لکھنے اور شائع کرانے کا سلسلہ غالب سے شروع ہوا۔ غالب کے بعد شبلی، اقبال، فیض، سجاد ظہیر، احتشام حسین، رشید احمد صدیقی اور وزیر آغا کے علاوہ بہت سے ادیبوں کے خطوط شائع ہوئے ہیں اور یہ خطوط اردو ادب کا حصہ بن چکے ہیں۔ اردو میں ان خطوط کا جو ذخیرہ ہے وہ تاریخ، ادب، تحریکات اور شخصیات کے مطالعہ کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ چونکہ مسعود جعفری کے خطوط کی معنویت حالات حاضرہ کا تجزیہ ہے۔ چنانچہ تاریخ، ادب اور شخصیات کے موضوعات کو بھی انہوں نے اپنی تحریر کا حصہ بنایا ہے۔ ساتھ ہی عصر حاضر کی بدلتی ہوئی سیاسی، سماجی، معاشرتی، تہذیبی اور اقداری تعطیب جو کہیں انسانی بے چہرگی کا مظہر بھی ہے۔ ان حقائق پر گہرا طنز ہی نہیں پر تفکر احتجاج کے ساتھ اس ملک کی حقیقی تصویر کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے جس کی تکمیل میں ہمارا صدیوں پر انا تاریخی عمل مضمر ہے اور اس کی اساس مذہبی رواداری رہی ہے۔ اس ملک میں آباد ہر قوم کا اپنا رنگ اس میں شامل ہے۔ ان سبھی رنگوں کا امتزاج اس کے فن کی انفرادیت ہے جو اس کی پہچان ہے۔ اس پہچان کے تحفظ کے لیے مسعود جعفری نے قلم اٹھایا ہے۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ برصغیر اور عالمی سطح پر حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ایسے فکر انگیز مضامین بہت ہی اختصار کے ساتھ لکھے ہیں جن سے مسعود جعفری کی علمی، سیاسی بصیرت، وسعت مطالعہ اور بدلتے ہوئے حالات سے آگہی کے گہرے تنقیدی شعور کی عکاسی ہوتی ہے۔زیر نظر کتاب کے مطالعہ سے مسعود جعفری کی شخصیت کے کئی ایک پہلو سامنے آتے ہیں ساتھ یہ کتاب ان کے افکار و خیالات کو سمجھنے میں معاون بھی ہے۔ ان کے فکر کی اساس میری نظر میں جذبات پر کم ادراک پر زیادہ ہوتی ہے۔ وہ سمجھوتے بازی پر یقین نہیں رکھتے۔ زندگی کی حقیقتوں کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کو سمجھنے اور پرکھنے کے لیے کھلا ذہن اور آزادی فکر ہی معاون بن سکتے ہیں۔
مسعود نے اپنے مضامین میں معروضی نقطہ نظر کو اختیار کیا ہے اور کسی بھی پہلو کو منطقی دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی تحریروں میں اگر کہیں تنقید کے اشارے ملتے ہیں تو اس میں اصلاح کا جذبہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ کسی بھی بات کو مخصوص سیاق و سباق میں دیکھنے کی شعوری کوشش ان کی تحریروں میں دکھائی دیتی ہے۔ بر محل محاوروں اور بامعنی اشعار کے استعمال کی وجہ سے ان کی تحریر اور بھی دلکش ہوگئی ہے۔ یوں بھی تحریر اور تقریر دونوں میں مسعود کو یکساں قدرت حاصل ہے۔ یہیں تک مسعود کی صلاحیتیں محدود نہیں ہیں، وہ بہت ساری خوبیوں کے مالک ہیں۔ وہ ایک ذی فہم ادیب، بیدار ذہن شاعر، محقق، مورخ، قابل استاد، دانشور اور تجزیہ نگار ہیں۔
رہی بات ’’اور چراغ جلتا رہا‘‘ کے اسلوب کی اس تعلق سے بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ ان خطوط کا اسلوب سادہ ’دلکش اور دل نشین ہے۔ مسعود نے اس امر کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خطوط کو تخلیقی زبان میں بھی لکھا جاسکتا ہے۔ یہ انداز نگارش وسیع مطالعہ، گہرے مشاہدے اور دو ٹوک نقطہ نظر کو اپنانے کا متقاضی ہے۔ ’’اور چراغ جلتا رہا‘‘ میں شامل خطوط زیادہ تر روزنامہ سیاست میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان خطوط کی افادیت اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اب کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ جن لوگوں نے سیاست اور دیگر اخبارات میں شائع شدہ خطوط نہیں پڑھے ہیں انہیں اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے جن میں دانشوری بھی ہے اور ملک و قوم سے محبت بھی اور سیاسی بصیرت بھی۔