زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو

ملائم سنگھ یادو کے بدلتے رنگ
کشمیر میں محبوبہ مفتی کی آزمائش

رشیدالدین

سیاسی فائدہ کیلئے قائدین کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ موقع پرستانہ موقف، پالیسیوں سے انحراف ، حتیٰ کہ اصولوں کی سودے بازی کیلئے بھی آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اترپردیش کے اسمبلی انتخابات کی تاریخ جیسے جیسے قریب آرہی ہے ، سماج وادی پارٹی اور بی جے پی نے حقیقی رنگ دکھانا شروع کردیا ہے۔ ملائم سنگھ یادو اقتدار کو گنوانا نہیں چاہتے لیکن بی جے پی نفرت اور مذہب کے نام پر سیاست کے ذریعہ اترپردیش پر قبضہ کرنے کیلئے بے چین ہے۔ بی جے پی کے خوف اور اقتدار کی ہوس نے ملائم سنگھ یادو کو الجھاکر رکھ دیا ہے اور وہ کسی ایک موقف پر جمے رہنے کے بجائے وقتاً فوقتاً الگ رنگ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئی نئی پارٹی کا نیا قائد ہوتا تب اس طرح کا رنگ بدلنا سیاسی بقاء کیلئے مجبوری کہا جاسکتا تھا لیکن ملائم سنگھ تو جہاندیدہ قائد ہیں جو اترپردیش اور مرکز میں طویل عرصہ تک اقتدار کا مزہ لوٹ چکے ہیں۔ رام منوہر لوہیا کی تحریک سے متاثر سوشیلسٹ نظریات کے حامل ملائم سنگھ کو طبعی عمر اور ضعیفی نے اقتدار کی حرص میں اضافہ کردیا ہے ۔ شائد انہیں اس مرتبہ سیکولر رائے دہندوں کی تائید کی امید نہیں ہے ، لہذا وہ فرقہ پرست ایجنڈہ کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ویسے بھی فرقہ پرست طاقتوں سے ملائم سنگھ کی دوستی کوئی نئی بات نہیں۔ بابری مسجد کے محافظ کی حیثیت سے شناخت بنانے والے ملائم سنگھ نے بابری مسجد کے قاتل کلیان سنگھ کو گلے لگایا تھا۔ ظاہر ہے کہ بھلے ہی شخصیتیں الگ ہوں لیکن نام میں سنگھ مشترک ہے ۔ کسی بھی قائد کا حقیقی رنگ اور اس کی اصلیت دیکھنا ہو تو انتخابات کا انتظار کرنا چاہئے ۔ ملائم سنگھ یادو نے دو دن میں دو بیان تبدیل کئے ۔ پہلے تو انہوں نے بابری مسجد کے مقام پر کارسیوا کے لئے جمع کار سیوکوں پر فائرنگ پر افسوس جتایا۔ انہیں جب یہ محسوس ہوگیا کہ سیکولر رائے دہندے اس بیان سے ناراض ہوسکتے ہیں تو انہوں نے دادری میں بیف کے نام پر  اخلاق حسین کے قتل میں بی جے پی قائدین کے ملوث ہونے کی بات کہی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ملائم سنگھ سیکولر اور نان سیکولر طاقتوں کا امتحان لے رہے ہیں؟ کارسیوکوں پر فائرنگ پر اظہار افسوس کا خیال اتنے برس بعد آخر کیوں آیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر کار سیوکوں کو روکا نہیں جاتا تو 1990 ء میں ہی مسجد شہید کردی جاتی۔ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے مسجد کے تحفظ کا سہارا لینے والے ملائم سنگھ یادو کو کارسیوکوں سے اچانک ہمدردی کیسے اور کیوں پیدا ہوگئی۔ دراصل آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے وہ ایجنڈہ کی تلاش میں ہیں۔ فرقہ پرستی کے ایجنڈہ کو عوامی تائید حاصل ہوتی تو وہ اسی راہ پر چل پڑتے لیکن عوامی ردعمل توقع کے برخلاف رہا۔ لہذا ملائم سنگھ نے یو ٹرن لے لیا۔ اب وہ دادری واقعہ پر اپنی سیاسی دکان چمکانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دادری واقعہ میں ملوث تین بی جے پی قائدین کے نام وہ جانتے ہیں اور صرف وزیراعظم کو یہ نام بتائیں گے۔ ملائم سنگھ کو شائد یہ خوش فہمی ہے کہ دادری کے نام کے ساتھ ہی اترپردیش کے مسلمان ان کے ساتھ ہوجائیں گے۔ اس بیان کے ذریعہ ملائم نے خود اپنے پیر پر وار کیا ہے اور مسلم رائے دہندے ان سے دوری اختیار کرلیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دادری واقعہ میں ملوث بی جے پی قائدین کے نام ملائم سنگھ جانتے ہیں تو پھر اب تک خاموش کیوں رہے۔ ناموں کے انکشاف کیلئے وزیراعظم کی دعوت کا انتظار کیوں؟ جب آپ دادری کے ملزمین سے واقف ہیں تو ملک کے وزیراعظم کس طرح ناواقف ہوں گے۔ ملائم سنگھ یو پی حکومت کے مکھیا ہیں۔ انہیں ناموں کے انکشاف کے بجائے خاطیوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے تاکہ اخلاق کے قاتل اور ان کی پشت پناہی کرنے والے دنیا کے سامنے بے نقاب ہوسکیں۔ دادری دراصل اترپردیش کا علاقہ ہے، جہاں ملائم کے فرزند اکھلیش کی حکومت ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اصلی خاطیوں کے خلاف کارروائی کی جاتی بجائے ناموں کے انکشاف سے گریز کرتے ہوئے انہیں بچانے کی کوشش کی جائے۔ معصوم و بے گناہ اخلاق کے قاتلوں کو قانون کے دائرہ میں لانے میں ناکام سماج وادی حکومت اب ناموں کے افشاء کیلئے بھی تیار نہیں۔

ایسی حکومت سے انصاف کی امید کرنا عبث ہے۔ وزیراعظم خود بھی مجرموں کے نام سے واقف ہوں گے لہذا وہ کیونکر ملائم سنگھ سے ناموں کی فہرست طلب کریں گے۔ وزیراعظم تو حملہ آوروں اور حملے کے سازشیوں سے بھی واقف ہوں گے کیونکہ تمام کا تعلق آر ایس ایس اور سنگھ پریوار سے ہے۔ وزیراعظم کو نام بتانے کے بہانے ملائم سنگھ یادو کہیں یو پی الیکشن کیلئے مفاہمت کی راہیں تو تلاش نہیں کر رہے ہیں؟ ملائم سنگھ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ ا کھلیش یادو سرکار نے اخلاق کے قاتلوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور وہ ابھی بھی آزاد ہیں۔ حکومت کے مکھیا تو نام سے واقف ہیں لیکن چیف منسٹر بیٹا شائد لاعلم ہے۔ مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے دادری کے نام پر سیاست سے ملائم سنگھ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دادری صرف ایک واقعہ نہیں ہے ، مظفر نگر فسادات ، رام مندر کیلئے اینٹ اور پلر جمع کرنے اور یو پی کے مختلف حصوں میں اشتعال انگیزی کے ذمہ داروں کے خلاف اکھلیش حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب ملائم سنگھ کے ظاہری روپ  کو دیکھ کر انہیں ’’مولانا‘‘ کہا گیا تھا ۔ نئی نسل ملائم سنگھ یادو کے اندر چھپے آر ایس ایس کے چہرے کو جان چکی ہے ۔ اترپردیش کے مسلمانوں کیلئے ملائم سنگھ اور بی جے پی میں کوئی فرق نہیں۔ سماج وادی پارٹی اقتدار میں رہے یا نہ رہے مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سابق میں بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت چلانے کا تجربہ رکھنے والے ملائم سنگھ یادو کا 2014 ء عام انتخابات میں بی جے پی نے صفایا کردیا ۔ سیکولرازم پر ملائم سنگھ کی سنجیدگی کا بھرم اس وقت کھل گیا ، جب مہا گٹھ بندھن سے وہ علحدہ ہوگئے۔ مختلف سیکولر جماعتوں نے فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے عظیم اتحاد تشکیل دیا تھا اور ملائم سنگھ کو اپنا قائد منتخب کیا لیکن بہار اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ پہنچانے ملائم سنگھ نے خود کو سیکولر اتحاد سے علحدہ کرلیا۔ اس حرکت پر بہار کے رائے دہندوں نے سماج وادی پارٹی کو جو سبق سکھایا وہ ملک کے سامنے ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر سماج وادی پارٹی خاموش ہے۔ اترپردیش میں واحد سیکولر چہرہ مایاوتی کا ہے، جن سے عوام کو امید ہے کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کے بڑھتے قدم روک پائیں گی کیونکہ اترپردیش میں کانگریس کا موقف انتہائی کمزور ہے۔

کانگریس کے قائد اور سابق وزیر فینانس پی چدمبرم بھی شائد بی جے پی میں شمولیت کی تیاری میں ہیں۔ انہیں راجیو گاندھی حکومت کی جانب سے سلمان رشدی کی کتاب پر پابندی عائد کئے جانے کا افسوس  ہے۔ ’’شیطانی کلمات‘‘ پر پابندی کو چدمبرم عدم رواداری کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اس کتاب کے ذریعہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی اور دنیا بھر میں سب سے پہلے ہندوستان میں امتناع عائد کیا گیا جو راجیو گاندھی کا کارنامہ ہے۔ سیکولر پارٹی سے تعلق رکھتے ہوئے اسطرح کے نظریات باعث حیرت ہے۔ چدمبرم شائد بھول رہے ہیں کہ اٹل بہاری واجپائی اور آج کی نریندر مودی حکومت نے بھی اس کتاب پر امتناع برقرار رکھا ہے۔ بی جے پی حکومت نے امتناع کو جاری رکھا لیکن اعتراض کانگریس قائد کو ہے۔ تاملناڈو میں عوام کی جانب سے مسترد کئے جانے کے بعد چدمبرم کو سیاسی مستقبل کی فکر ستانے لگی ہے۔ انہیں اور ان کے فرزند کو سی بی آئی تحقیقات کا سامنا ہے۔ کوئی عجب نہیں کہ وہ ان حالات میں بی جے پی کا ہاتھ تھام لیں ، ویسے بھی ٹاملناڈو میں قدم جمانے کیلئے  بی جے پی کو کسی چہرہ کی تلاش ہے۔ اسی دوران زعفرانی ایجنڈہ کو آگے بڑھاتے ہوئے آر ایس ایس کے ترجمان ’’پنچ جنیہ‘‘ میں شاہ بانو کیس میں دستوری ترمیم کی مخالفت کی گئی۔ آر ایس ایس کو اس بات پر اعتراض ہے کہ کانگریسی حکومت نے دستوری ترمیم کے ذریعہ شاہ بانو مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بے اثر کردیا تاکہ مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کی جاسکے۔ دراصل سنگھ پریوار ملک کو یکساں سیول کوڈ کی طرف لیجانا چاہتا ہے جو بی جے پی کا اہم ایجنڈہ ہے۔ بی جے پی میں موجود سنگھ پریوار کے ترجمان سبرامنیم سوامی زعفرانی ایجنڈہ کے برانڈ ایمبسیڈر بن چکے ہیں۔ انہوں نے جاریہ سال رام مندر کی تعمیر کے آغاز کا اعلان کردیا۔ یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے۔ ایسے میں اس طرح کے بیانات توہین عدالت کے زمرہ میں آتے ہیں۔ سبرامنیم سوامی جو خود بھی ایک قانون داں ہے ، ان کی مخالف مسلم اور مخالف اسلام سرگرمیوں سے کون واقف نہیں۔ ان کی بے لگام زبان پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وہ عدالتوں میں کتنے مقدمات دائر کئے ہیں، شائد ان کی تعداد سے وہ خود بھی لاعلم ہیں۔ اس طرح کی سرگرمیوں کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے مسلمانوں میں قیادت کا فقدان ہے۔

شریعت اور بابری مسجد جیسے مسائل پر ملک بھر میں صرف حیدرآباد سے ہی ایک آواز اٹھتی رہی لیکن آج وہ آواز بھی باقی نہیں رہی۔ ہماری مراد مسلم پرسنل لا بورڈ کے اسسٹنٹ جنرل سکریٹری جناب رحیم قریشی مرحوم سے ہے۔ زعفرانی ایجنڈہ کو کشمیر میں نافذ کرنے کی تیاری کے نتیجہ میں مفتی محمد سعید کے بعد تشکیل حکومت تعطل کا شکار ہوچکی ہے۔ پی ڈی پی کی قائد محبوبہ مفتی کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ بی جے پی سے اتحاد پر کشمیری عوام ناراض ہیں جس کا اظہار مفتی سعید کے جنازہ میں کم تعداد کی شرکت سے ہوا۔ محبوبہ مفتی عوامی ناراضگی میں اضافہ کے ذریعہ کوئی سیاسی جوکھم مول لینا نہیں چاہتیں لہذا انہوں نے مرکز کی جانب سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کی شرط رکھی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مرکز کشمیرکے سخت گیر حریت قائدین سے مذاکرات کرے۔ وزیراعظم نے کشمیر کیلئے 80 لاکھ کروڑ کے پیاکیج کا اعلان کیا تھا جو ابھی تک صرف کاغذ پر ہے۔ کشمیر کے سیلاب کے متاثرین کیلئے اعلان کردہ مرکز کی امداد آج تک جاری نہیں کی گئی۔ ان حالات میں محبوبہ مفتی بی جے پی سے مفاہمت پر پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہیں، انہیں بی جے پی کی دوستی سے زیادہ کشمیری عوام کا مفاد عزیز ہے۔ موجودہ صورتحال پر ڈاکٹر راحت اندوری کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو