زندگی کے تلخ نقوش مٹائے نہیں مٹتے

ڈاکٹر مجید خاں
بسا اوقات نفسیاتی مریضوں کی جو ظاہری علامات ہوتی ہیں اور جو دواخانوں میں جانے کا باعث بنتی ہیں، وہ صرف ایک نقاب ہی ہوتا ہے۔ ان جسمانی کیفیات کے نیچے ایک جذباتی سمندر متلاطم ہوا کرتا ہے جس کو مریض اور رشتہ دار اپنے اپنے طور طریقوں سے قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی متلاطم سمندر کو نفسیاتی زبان میں لاشعور کہا جاتا ہے۔ مریض نہ تو اس کی اہمیت سے واقف رہتا ہے، نہ اپنی موجودہ کیفیت کو اس سے جوڑتا ہے۔ اس نفسیاتی تسلسل کو سمجھنا ایک نفسیاتی ہنر ہے جو تجربے سے آتا ہے۔

کئی مضامین میں مَیں نے صاف صفائی کے خبط کو بچپن کے ناگزیر صدمات سے جوڑ کر سمجھانے کی کوشش کی ہے، مگر آج بھی بعض ایسے مریضانہ مسائل سے میں درپیش ہوتا ہوں جو میرے تجربے، علم اور مہارت کو للکارتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مریض کی تفصیلات یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ دس سالہ لڑکی کو عادل آباد سے ہیبت زدہ ماں باپ مشورے کیلئے لے آتے ہیں۔ متوسط خاندان کے لوگ مگر تعلیم یافتہ اور سنجیدہ لوگ تھے۔ وہ لوگ خود سمجھ نہیں پارہے تھے کہ کیا وہ صحیح مقام پر آئے ہیں۔ کیا اس مرض کا تعلق نفسیات سے ہے، اس شش و پنج میں رہتے ہوئے وہ بہرحال تفصیلات بیان کرنا شروع کرتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب! یہی ایک لڑکی ہماری اولاد رہ گئی ہے۔ ہم لوگ کافی پریشان ہیں، اس لڑکی کو ہر کھانے کے بعد قئے ہوجاتی ہے، کافی علاج کرواچکے ہیں۔ شاید ہی کوئی بڑا دواخانہ ہو خاص طور سے امراض شکم جہاں پر ہم لاکھوں خرچ کرکے اس کا علاج و عصری امتحانات نہ کرائے ہوں۔ ہم اب ذہنی اور معاشی طور پر قلاش ہوچکے ہیں۔ ہر شخص کے مشورے پر ہم عمل کرچکے ہیں۔ کسی نے کہا کہ آپ سے بھی مشورہ کیا جائے، اس لئے حاضر ہوئے ہیں۔ ویسے ان دواخانوں میں آپ جیسے ڈاکٹروں سے بھی علاج کراچکے ہیں مگر کہیں بھی رتی برابر افاقہ نہیں ہوا۔ چونکہ ہم عادل آباد کے ہیں، اس لئے یہ مت سمجھئے کہ ہم عصری علاجوں سے واقف نہیں ہیں۔ ہمارا زیادہ وقت تو حیدرآباد ہی میں گزرتا ہے۔ رشتہ دار بھی ہمارا ساتھ دیتے دیتے تھک گئے ہیں۔ اب ہم میاں بیوی تنہا رہ گئے ہیں۔ ممکن ہو ہمارے رشتہ دار ہمت ہار گئے ہوں گے، اور یہ سمجھ بیٹھے ہوں گے کہ مرض لاعلاج ہے۔ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ کرتوت، اثرات اور جادو منتر بھی ہوسکتا ہے۔ اس پر اعتقاد نہ رکھتے ہوئے بھی اس علاج پر بھی کافی رقم برباد کرچکے ہیں۔ ڈاکٹری علاج کے علاوہ اشتہاری علاج معالجے کے چکر میں بھی ہم پریشان رہے۔ آپ کے ہاں بھی ہم امید لے کر نہیں آئے ہیں۔ ہماری سوچ میں سے امید بھی غائب ہوچکی ہے۔ ہم مایوس ہوچکے ہیں۔ خوش قسمتی سے میری بہترین ملازمت ہے اور اب تک کے اخراجات کو ہم برداشت کرتے رہے۔ ہم نے ابھی تک کسی سے قرض نہیں مانگا مگر جب ہم کسی پیسے والے رشتہ داروں سے ملنے جاتے ہیں تو وہ ہم سے کترانے لگے ہیں، انہیں ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ہم ان کے سامنے بڑا ہاتھ تو نہ پھیلائیں ۔

میں نے پوچھا کہ شکم اور اعصاب کے تمام امتحانات ہوچکے ہیں جو سب کے سب اچھے ہیں تو آپ مطمئن کیوں نہیں ہوتے تو کہنے لگے:

ڈاکٹر صاحب! کیسے مطمئن ہوسکتے ہیں جب کہ ہر کھانے کے بعد یہ لڑکی اُلٹی کردیتی ہے۔ کیا کسی ماں باپ سے یہ مصیبت برداشت ہوسکتی ہے، اس کے سامنے کیسے ہم کھانا کھاتے۔ ڈاکٹر صاحب! آپ اندازہ نہیں کرسکتے، ہر کھانے پر ہم دونوں پر ایک سکتے کا عالم طاری ہوجاتا ہے۔ اس کو اُلٹی کرتے ہوئے دیکھ کر ہم بے تاب ہوجاتے ہیں۔ لڑکی پر جب میں نے نظر ڈالی تو ایک بات مجھے عجیب سی نظر آئی۔ دس سالہ لڑکی جو ہر کھانے کے بعد قئے کرتی ہے تو اس کو تو ہڈی چمڑا ہوجانا چاہئے تھا، برخلاف اس کے وہ صحت مند نظر آرہی تھی۔ پوچھنے پر وہ لوگ کہنے لگے کہ اس کا وزن گھٹا نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لڑکی گھر کا کھانا کھاتی تو وہ پچتا نہیں، باہر سے کوئی بھی کھانے کی چیز لے کر آئیں تو وہ ہضم ہو جاتی ہے۔ اب ملا مجھے پہلا نفسیاتی سراغ، میں نے خاندان کو داخل دواخانہ کرلیا۔ گھر کی غذا سے نفرت اور باہر سے لائی ہوئی کھانے کی چیزوں سے رغبت۔ اگر شکم و معدے کی کوئی الٹی والی بیماری ہو تو وہ اس قسم کی تفریق نہیں کرتی۔ دوسری بات والدین کا کہنا تھا کہ اسکول پابندی سے جاتی ہے، بہترین طالبہ ہے اور محنت سے پڑھتی ہے۔اب یہ بات میری سمجھ میں آگئی تھی کہ اس الٹیوں کے عمل کے پس پردہ کوئی راز ہے۔ میں الُٹیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے گھریلو تعلقات پر تفصیلات معلوم کرنا چاہ رہا تھا مگر ماں باپ مجھ سے یہ کہہ رہے تھے کہ اس کی الٹیوں کو بند کردیجئے۔ میری کھوج کو غیرمتعلقہ دخل اندازی سمجھ رہے تھے۔ میں اس کی اس عادت کو سمجھنا چاہ رہا تھا کہ کیوں ماں کے ہاتھوں تیار کی ہوئی غذا کو دیکھتے ہی اس کو متلی ہونے لگتی ہے اور پھر زبردستی اس کو کھلایا جاتا ہے، جس کو اس کا دماغ رد کردیتا ہے ۔ اس کے معدے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ کیا یہ لوگ کسی اور معاملے پر لاشعوری طور پر پردہ ڈالتے ہوئے اس لڑکی کی اُلٹیوں پر غیرضروری توجہ تو نہیں دے رہے ہیں۔ پھر والد نے کہا کہ بیٹی تم باہر جاؤ، پھر لڑکی بلا کسی تردّد کے باہر چلی گئی تو انہوں نے کہا :

ڈاکٹر صاحب! ان کا ایک بڑا بھائی تھا جس کو بھی الٹیاں ہوا کرتی تھیں، بہت ہی چہیتا بیٹا اور اس کا بھائی تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے۔ یہ اس کی تیمار داری کیا کرتی تھی۔ یہ ایک فطری بات تھی کہ ہم اس کو زیادہ چاہتے تھے اور یہ احساس اس لڑکی کو شروع سے رہا ہے۔ اس کے علاج کیلئے ہم ہر جگہ کی خاک چھانے، حیدرآباد مہینوں اس کو لے کر مشہور معدے کے دواخانے میں علاج کروائے۔ شروع ہی میں ایک ڈاکٹر نے ہم سے کہہ دیا تھا کہ یہ مرض مہلک ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں ہے، پھر بھی ڈاکٹر صاحب ہم کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ جب کبھی ہم واپس اپنے گھر آتے تو لڑکی جس کو ہم نانا ، نانی کے پاس چھوڑ کر جاتے تھے، بے چینی سے اس کی منتظر رہا کرتی تھی۔ مگر وہ لڑکا 12 سال کی عمر میں اس مرض سے جان توڑ دیا اور چونکہ اس کو جگر کا کینسر ہوگیا تھا، اس لئے اس کو بھی صرف ماں کی پکائی ہوئی چیزیں پسند تھیں۔

تو اس لڑکی کے تحت الشعور میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ اُلٹیاں ، پھر ماں کے ہاتھ کا پکوان، موت وغیرہ سب کا ایک ہی سلسلے ہے۔ دوسری اہم بات مجھے محسوس ہورہی تھی کہ لڑکی اور ماں کے تعلقات بظاہر شیر و شکر کی طرح نظر ضرور آرہے تھے مگر اندرونی کڑواہٹ بھی مجھے نظر آئی یعنی محبت اور نفرت دونوں کا امتزاج۔اب یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ جب والد یہ حالات بیان کررہے تھے تو لڑکی کو کیوں باہر بھجوا دیا گیا۔ لڑکی بڑی خاموشی سے چلی تو گئی مگر اس کے ذہن میں کئی خیالات آئے ہوں گے۔ اس کو معلوم تھا کہ اس کے بھائی کے تعلق سے بات ہوئی ہوگی مگر یہ کوئی راز کی بات تو نہیں تھی۔ ممکن ہو میری بیماری کے تعلق سے یہ لوگ کچھ چھپا رہے ہوں گے۔ میرے بھائی کو آخری وقت تک یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ زیادہ دن بقید حیات نہیں رہے گا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ میں اچھا ہوجاؤں گا اور ہم لوگ خوب کھیلیں گے اور تماشہ کریں گے۔ پھر میں نے لڑکی کو بلاکر پوچھا کہ وہ اپنی بیماری کے تعلق سے کیا سوچتی ہے۔ اس نے پہلے تو لاعلمی کا اظہار کیا مگر جب میں نے اپنے طریقے سے پوچھا تو کہنے لگی کہ مجھے کچھ خطرناک بیماری ہوگی اور سب مجھ سے چھپا رہے ہیں۔

دوسری بات میں نے ماں اور اس کے روزمرہ کے روابط کے تعلق سے پوچھا تو کہنے لگی کہ ماں کا رویہ بہت سخت ہے اور مجھ پر غیرضروری پابندیاں عائد کرتی رہتی ہے اور میرے ہر کام پر ٹوکتی ہے۔ صفائی کی دھن ان پر سوار ہے تو پھر میں نے یہ اعلان کیا کہ اس لڑکی کو کسی قسم کے علاج کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت اگر علاج کی ہے تو وہ ماں کو بہتر ہوگا کہ اس لڑکی کو والدین سے الگ رکھا جائے مگر یہ ممکن نہیں تھا اور لڑکی بھی اس کے لئے راضی نہیں تھی۔ ماں بیچاری سمجھ دار تھی اور اس نے غصیلے مزاج، ہٹ دھرمی اور غیرمعمولی مایوسی کے علاج کیلئے راضی ہوگئی۔ اس چھوٹے سے غم زدہ اور مصیبت زدہ خاندان کی توجہ بچی سے ہٹاکر ماں پر لا دی گئی۔ بچی کو یہ دیکھ کر بڑا سکون ملا۔ اس لڑکی کی ابتدائی ایک دو اُلٹیوں کو اگر یہ لوگ نظرانداز کئے ہوتے تو اس کی اہمیت اتنی زیادہ بڑھ نہیں جاتی۔

دوسری بات ایک خوبصورت اکلوتے چہیتے اور ہنس مکھ لڑکے کی موت ان کو اتنی مایوس کردی تھی کہ اس غم کو ہٹانے کیلئے یہ لوگ اس لڑکی کی معمولی بیماری پر زیادہ توجہ دیتے ہوئے اپنے ذہنوں کو لڑکے کے غم سے دور رکھنے میں کامیاب ہورہے تھے۔ بیچارہ دودو اپنی اولاد اور خاص طور سے لڑکے کیلئے ایک اچھا مکان تعمیر کیا تھا مگر دونوں کے علاج کے اخراجات کیلئے اس کو یہ فروخت کرنا پڑا۔
تینوں کے ذہنوں میں زندگی کے یہ اندوہناک واقعات کے نقوش کبھی مٹ نہیں سکتے اور جسمانی اور دماغی تکلیفات کی شکل میں رونما ہوسکتے ہیں۔