زندگی خفا خفا سی

افروز سعیدہ
خواب یہ ہے کہ وہ حقیقت تھا
یہ حقیقت ہے کوئی خواب تھا وہ
انسان ،اشرف المخلوقات ، زمیں پر اللہ کا نائب ، جس کی فطرت میں خیروشر اورنیکی وبدی دونوں موجود ہیں ۔ یہ خوبصورت دنیااورلاکھوں کروڑوں چاند تاروں سے مزین آسمان ،زمین اورآسمان کے درمیان موجود ہر چیز انسان کے لئے بنادی گئی اوراسی میں اس کی آزمائش بھی رکھ دی ۔رخسانہ فجر کی نماز کے بعد مصلے پر بیٹھی ان ہی سوچوں میںگم تھی گزراوقت ایک فلم کی ریل کی طرح اس کی آنکھوں کے آگے تھا۔ کئی لوگ اسے یاد آرہے تھے ماں باپ ، بھائی بہن دوست احباب اورجانے کیوں فرحان علی کا چہرہ اداس مسکراہٹ لئے باربار اس کی آنکھوں کے آگے آرہاتھا۔ ڈاکٹروں نے اسے سوچنے اورچھوٹی چھوٹی باتوں کا اثر لینے سے منع کیاتھا ۔ برین ٹیومر کے باعث اس کی صحت دن بہ دن گرتی جارہی تھی ۔ آج اسے محسوس ہورہاتھا جیسے موت آہستہ آہستہ دبے قدموں اس کی طرف بڑھ رہی ہے ۔وہ موت سے ڈرتی نہیں تھی وہ جانتی تھی موت سے کسی کو مفرنہیں ’’کُلِّ نفس ذائقۃ الموت‘‘ دکھ تھا تویہ کہ وہ اپنے بچوں کے دکھ سکھ نہیں بانٹ سکے گی ۔ وہ کبھی سیگریاکے قدرتی حسین نظا روں سے لطف اندوز نہ ہوسکے گی جن کی یاد اسکے دل کے نہاں خانہ میں چھپی ہوئی تھی ۔
زندگی بے حد مصروف گزری تھی انٹر پاس ہوتے ہی شادی ہوگئی تھی بس ۔ اس کے بعد وہی مصروفیت جو ہرعورت کی زندگی کا لازمی حصہ ہوتی ہے شوہر کی خدمت ، بچوں کی پرورش اورسسرالی لوگوں کی نازبرداریاں ۔اسے اپنے آپ کے بارے میں کبھی سوچنے کا موقع ہی نہ ملا۔نہ کبھی ہارسنگھارکی طرف خیال گیا، نت نئے فیشن کے کپڑے پہنے نہ ہی زیورات کی فرمائش کی، کبھی شوہرنے چھوٹا موٹا زیوربنواکر دیناچاہاتو صاف کہہ دیتی یہ پیسہ بچوں کے لئے رہنے دیں۔ بیوٹی پارلر تو دور کی بات رہی کئی کئی دن آئینہ میں اپنی شکل نہ دیکھتی تھی ۔
اس کے دولڑکے اوردولڑکیاں تھیں خیرخوبی کے ساتھ سب اپنی اپنی زندگی کے ساتھ چل پڑے تھے لیکن اب اس کی زندگی ایک اپاہج کی طرح گھر کی دہلیز پر پڑی ہانپ رہی تھی جیسے ایک چڑیاموسم گرما میں رزق کی تلاش میں تھک کر اپنے گھونسلے میں تازہ دم ہونے کی کوشش کررہی ہو۔ عمر کے اس موڑ پر وہ سوچ رہی تھی کہ زندگی کے تئیں اس کا فیصلہ صحیح تھا یاغلط ! وہ دن اسے یاد ہے
جب اس کی بہن سلطانہ نے فون پر کہا تھا۔’’رخسانہ میں نے کولمبوجانے کا پروگرام بنایاہے تمہارے بھائی جان اپنے بزنس کے سلسلے میں امریکہ گئے ہوئے ہیں میں نے کولمبوکی تفریح کے لئے ان سے اجازت لے لی ہے یہ اچھا موقع ہے تم بھی میرے ساتھ چلو سناہے کولمبو کے مضافات میں بہت اچھے تفریحی مقامات ہیں تم شادی کے بعد کہیں نہیں گئیں تمہارے دوسرے بچہ کی آمد میں ابھی 6-7ماہ باقی ہیں پتہ نہیں تمہیں پھر کب موقع ملے ‘‘
باجی میرادل تو چاہتاہے کہ گھر سے باہر نکلوں قدرت کے حسین نظاروں کا لطف اٹھاؤں جس کی میں بچپن سے ہی دلدادہ ہوں پتہ نہیں ظہیرمانے گے یانہیں آپ جانتی ہیں کہ ان کا بزنس کیاہے ایک دن کے لئے بھی شہر سے باہر جاناان کے لئے مشکل ہے ‘‘یہ تم مجھ پر چھوڑدو میں انھیں منالوں گی کہہ دوں گی کہ وہ کچھ دنوں کے لئے اپنی بہن کو اپنے پاس بلوالیں ‘‘ظہیرحالات سے سمجھوتہ کرنے والے ایک سیدھے انسان تھے انھوں نے سلطانہ کی بات کو رد نہیں کیارخسانہ کو اجازت دے دی ۔ان کے ساتھ ان کا چھوٹا بھائی نوید بھی تھا یہ سب کولمبوکے اسٹیشن پر اترے تو دیکھا سلطانہ کی سہیلی انجوانھیں Receiveکرنے کے لئے موجود تھی دوسرے دن انجوانھیں سیگریالے گئی جہاں اس کی ماں رہتی تھی سیگریاقدرتی مناظر سے مالامال ایک سرسبزوشاداب پہاڑی مقام تھا۔وہ جس ٹرین سے سفر کررہے تھے وہ نان اسٹاپ تھی اوربہت تیزی کے ساتھ منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ جوں جوں سیگریاقریب آرہاتھا سرسبزاوردلنوازونظرنواز مناظرکی بہتات ہورہی تھی پہاڑوں پر جیسے سبزہ پر پھولوں کی چادریں بچھادی گئی تھیں ۔ بھیگی بھیگی ہواؤں میں پھولوں اورپھلوں کی مہک مشام جاں کو معطرکررہی تھی ایک ملکوتی سا ماحول تھا جس میں سب ہی کھوسے گئے تھے قدرت کی صناعی کو دیکھ کر گنگ ہوگئے تھے ۔!!
قدرت اپنے حسین اوران دیکھے لباس میں جلوہ گرتھی۔رخسانہ کے دماغ میں سورہ رحمن کی آیت گھوم رہی تھی۔ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنْo
دو گھنٹے کی مسافت طئے کرنے کے بعد وہ انجو کی ماں کے بنگلہ پر پہنچ گئے انھیں ان سب کے آنے کی اطلاع تھی وہ منتظر تھیں نہایت خوش دلی کے ساتھ استقبال کیا۔ بنگلے کے اندربڑاہال اورکشادہ روشن اورہوادارکمرے تھے ۔کھڑکی سے دیکھنے پر کچھ دوربہتی ندی کا سحر انگیز منظر دعوت نظارہ دے رہاتھا سلطانہ ، رخسانہ اوربچے بہت خوش تھے رخسانہ مارے خوشی کے سلطانہ سے لپٹ لپٹ جاتی کہ اس نے اچھا کیاجو اسے یہاں لے آئی جیسے وہ مردہ تھی اوریہاں آکر جی اٹھی تھی ،وہ سب ہر روز تفریح کے لئے نکل جاتے اورشام ڈھلے واپس آتے ۔ پلک جھپکتے ایک ہفتہ گزرگیا۔ اب انھیں واپس جانے میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیاتھا۔
ایک دن وہ سب ندی کنارے بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے لنچ انھوں نے لے لیاتھا انجوکی والدہ نے وہاں کے مخصوص پکوان کرکے ٹفن دے دیاتھا عجیب ذائقہ دارڈشیس تھیں ۔اسی وقت ایک ستائس اٹھائس سالہ اسمارٹ سا لڑکا ان کے قریب آیااورانجوسے مخاطب ہوا’’ہیلومسز رمیش آپ یہاں کیسے؟رمیش کہاں ہے ؟کیاآپ سب بھی یہاں تفریح کے لئے آئی ہیں ؟وہ کن انکھیوں سے رخسانہ کی طرف دیکھ رہاتھا ۔ ‘‘
ارے ارے ایک سانس میں اتنے سارے سوال ؟رمیش امریکہ گئے ہوئے ہیں موقع غنیمت جان کر ہم یہاں سیگریاگھومنے آگئے ہیں یہ میری سہیلی سلطانہ ہے یہ اس کی بہن رخسانہ اوراس کا بیٹاتیمورہے، سلطانہ یہ میرے ہزبینڈ کے دوست فرحان علی ہیں ، مدراس میں ان کے ناریل کے باغات اورریفائنریز ہیں ‘‘فرحان نے آگے بڑھ کر تیمور سے ہاتھ ملایااوراسے گود میں اٹھاتے ہوئے کہا ‘‘بڑا پیارابچہ ہے اوررخسانہ کی طرف چورنظروں سے دیکھنے لگا۔کچھ دیروہ ادھرادھر کی باتیں کرتے رہے تب ہی اچانک بارش شروع ہوگئی سب نے دوڑکر ایک سائبان کے نیچے پناہ لی فرحان نے کہاچلئے میں آپ لوگوں کو گھرپہنچادوں بارش تیز ہوگئی تو پریشانی ہوگی سلطانہ نے اس کی پیش کش کو قبول کرلیاسب فرحان کی گاڑی میں بیٹھ گئے ۔رخسانہ بالکل خاموش بیٹھی تھی فرحان بھی بات کرتے کرتے خاموش ہوجاتاایک معنی خیز خاموشی دونوں طرف تھی وہ آئینہ میں باربار رخسانہ کو دیکھتاہوا پاکر نظریں جھکالیتی سینے میں عجیب سا تہلکہ مچاہواتھاایک میٹھامیٹھاسادرد پورے جسم میں پھیلتامحسوس ہورہاتھاانجانی سی لذت تھی اسے کیانام دوں یہ مجھے کیاہورہاہے؟یہ کیسی ہلچل سی دل میں ہورہی ہے کالج کے دورمیں کچھ میگزینس میں کہانیاں پڑھی تھیں ایک دوناول بھی سہیلیوں کے اکسانے پر پڑھ لئے تھے ان میں کچھ ایسی ویسی ہی باتیں تھیں۔ادیب اورشاعرشاید ایسی ہی آپ بیتی اورجگ بیتی کو رنگین الفاظ کا جامہ پہناکر کتابوں میں محفوظ کرلیاکرتے ہیں ۔ وہ ایک انجانے سے اضطراب سے محضوظ ہورہی تھی ۔ کیااس تفریح کی بھی کوئی کہانی بنے گی ؟!اب فرحان کا معمول بن گیاتھا کہ ہرروز صبح صبح اپنی گاڑی لے کر پہنچ جاتااورسب کو نئی نئی جگہوں کی سیرکراتا۔
تیمورکو قیمتی کھلونے ، چاکلیٹ اورجانے کیاکیالے کر دیتاان ہی دنوں میں ایک دن موقع پاکر اس نے رخسانہ کے دونوں سرد ہاتھ اپنے گرم ہاتھوں میں لے لئے اورکہا’’رخسانہ میں آج تک جس ہستی کی تلاش میں تھا جسے رات دن اپنے خوابوں خیالوں میں دیکھتارہاہوں وہ تم ہی ہو۔تم ہی تو ہو رخسانہ !لیکن تقدیرکا یہ کیسا مذاق ہے کہ میں تمہیں پاسکتاہوں نہ بھول سکتاہوں عجیب سی اذیت ناک کشمکش میں مبتلاہوگیاہوں کاش تم مجھے نہ ملی ہوتیں ،میں اسی تلاش اورتصورات میں زندگی گزاردیتا‘‘یہ تقدیرکا مذاق نہیں فرحان صاحب بلکہ مقدرکا لکھاہے ہم ایک ندی کے دوکنارے ہیں جو کبھی نہیں مل سکتے ‘‘’’کیااس ندی کو ہم پاٹ نہیں سکتے ؟
’’ندی کو پاٹ دیاگیاتو یہ سبزہ زاریہ پھولوں کے تختے اوریہ بستیاں سب ویران ہوجائینگے گلشن میں آگ لگ جائے گی اور…!!
اس نے بات ادھوری چھوڑدی اپنے کپکپاتے ہاتھ ایک جھٹکے سے چھڑالئے اورمنہ چھپاتے ہوئے اس طرف چل دی جس طرف سب جارہے تھے اس کا چہرہ سرخ ہورہاتھا ضبط کا دامن تھام رکھاتھااس رات اس کی نیند جیسے روٹھ گئی تھی عجیب سی سنگین سوچوں نے گھیررکھاتھا۔ کبھی یہ سوچ کر خوش ہوتی کہ کوئی اسے پسند کرتاہے برملاچاہت کااظہارکیاہے کس قدرجانفزاہوتاہے کسی کو چاہنے اورچاہے جانے کا خیال !…دوسرے ہی لمحے احساس جرم سے بے چین ہوجاتی گویاخیروشرکی جنگ جاری تھی ۔وہ دن آگیاجب انھیں سیگریاچھوڑناتھاان سب کو چھوڑنے کے لئے فرحان بھی کولمبوآگیاوہاں سے وہ سب روانہ ہوگئے ان کی ٹرین کی روانگی سے پہلے فرحان پلٹ گیااس کی سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں نمکین پانی سے لبریزتھیں ۔
گھرواپس آنے کے بعد رخسانہ نے اپنے آپ کو بے حد مصروف کرلیادن جیسے تیسے گزرجاتارات اس کی آنکھوں کے بند ٹوٹ جاتے سوچتی کہ یہ مجھے کیاہوگیاہے میں ایک مشرقی عورت ہوں شرم وحیااوروفاداری میری رگوں میں خون کے ساتھ گردش کرتے ہیں میں شادی شدہ اورایک بچے کی ماں ہوں میراشوہر ہے ، ایک اجنبی میری زندگی میں بن بلائے گھس آیامجھے گنہ گارکررہاہے میں کیاکروں ؟وہ اٹھ کر مصلیٰ بچھالیتی گھنٹوں رکوع اورطویل سجدوں میں گزاردیتی ۔
دوسرے بچے کی آمد کے بعد وہ سنبھل گئی پھر تیسری اورچوتھی لڑکی پیداہوگئی اب اسے سب کچھ بھول گیاتھا وہ نارمل تھی لیکن کبھی کبھی پچھلی یاد اس کے راستے میں آکھڑی ہوتی وہ کانپ جاتی کہ وہ اس کی زندگی کا کس قدرکمزورلمحہ تھاشاید آزمائش تھی وہ جانتی تھی کہ معاشرتی بندھنوں کو توڑنامشکل تو ہے لیکن معیوب بہت ہے۔چاروں بچے اپنی اپنی زندگی کے راستے لگ گئے تھے۔اس نے بڑی محبت اورمحنت کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کرلی تھیں ۔ اب وہ زندگی میں ایک خالی پن ایک خلاء سا محسوس کرنے لگی تھی زندگی کے اس موڑ پہ شوہر نے بھی بہت دور اپنی دنیا بسا لی تھی ۔ جب سے یہ معلوم ہواکہ اس کے سرمیں ٹیومر ہے وہ زیادہ ہی سوچنے لگی تھی حالانکہ ڈاکٹر نے سوچنے سے منع کیاتھا سوچوں پر اس کا اپنااختیار نہیں تھا ۔ اب اس کے تصورمیں سیگریاکے سبزہ زارگھومنے لگے تھے ندی کنارے سحر انگیز ماحول میں کھوجانے کو دل چاہتابس نہیں چلتاتھا کہ اڑکر سیگریاچلی جائے ۔ اچانک اس کا وزن کم ہونے لگاصحت گرنے لگی ۔ بچے اس کے لئے پریشان تھے ایک دن سب مل کر اسے دواخانہ لے گئے بے شمارٹسٹوں کے بعد انکشاف ہواکہ اس کے دماغ میں ٹیومر ہے اورآپریشن ضروری ہے ۔ وہ سوچ رہی تھی آج اس کی وفاداری ، قربانی اورجانثاری کام آرہی تھی ۔
اس کے اپنے اس کے قریب تھے وہ اپنے مالک اوران سب کی شکر گزارتھی بات بے بات یونہی سب سے معافی مانگتی رہتی آپریشن سے عین ایک دن پہلے اس نے سلطانہ سے کہا’’مجھے ایک بار سیگریالے چلووہاں کا دلنشیں موسم اورمعطر ہوائیں مجھے اکثربے چین کئے رہتے ہیں، ندی کا کنارہ مجھے آواز دے رہاہے مجھے ایک باروہاں لے چلوپھرچاہے موت مجھے گلے لگالے ‘‘وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔