زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے سعید شہیدی اجمالی تعارف

ڈاکٹر فاروق شکیل
نام: میر عابد علی، تخلص : سعید، قلمی نام: سعید شہیدی، تاریخ پیدائش: 14 جولائی 1914 ء ، تعلیم : ایف اے ، تاریخ وفات : 15 مئی 2000 ء ، کتابیں : ’’خاکِ شفا‘‘ (سلام ، مرثیے، نوحے) ، عرفانِ وفا، (منقبتیں) ،کوثر و تسنیم ، (حمد ، نعت ، قصائد) ، اے رات ذرا آہستہ گزر، (سلام ، نوحے) ، کوثر پر ہم ملیں گے (قصائد) ، ’’برق و آشیاں (غزلیں، شفق، (غزلیں) ، آفتاب غزل ، (غزلیں) ’’کف گل فروش‘‘ (غزلیں) ، ’’سرِ شام (غزلیں)، اسفار: پاکستان، لندن ، کویت ، دوحہ قطر
سعید شہیدی ، شہید یار جنگ کے فرزند ارجمند تھے جو نواب میر عثمان علی خاں نظام ہفتم کے مشیر خاص تھے اور شہید یار جنگ کے لقب سے نوازے گئے تھے ۔ سعید شہیدی کئی حیثیتوں سے ممتاز تھے ، نہ صرف وہ بڑے باپ کے بیٹے تھے بلکہ انہوں نے خاندانی وجاہت کے ساتھ علم و ادب کے چراغ کو بھی روشن رکھا ۔ ڈاکٹر وحید اختر رقم طراز ہیں۔ سعید شہیدی نے روایتی غزل کی لفظیات کو اپنے انفرادی مجربات اور اپنے عہد کے شعور کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ یہی ان کی غزل کی منفرد خصوصیت ہے جس کی وجہ سے حیدرآباد کے روایتی غزل نگاروں کے ہجوم میں اپنے لہجے اور اپنی لفظیات کی بنا پر الگ پہچان لئے جاتے ہیں ۔ سعید شہیدی نے روایت کا احترام کیا ہے ۔ غزل کے حسن کو روایتی حسن سے اس طرح سنوارا کہ ایک زمانے کو گرویدہ کرلیا ۔ نہایت عام فہم زبان سادگی اور سلاست سے بھرپور۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کو ہندوستان کے مشہور فنکاروں نے دلنشین  دھنوں میں پیش کر کے مقبول کردیا جن میں قابل ذکر بیگم اختر، جگجیت سنگھ ، رؤف ، وٹھل راؤ، طلعت عزیز وغیرہ ہیں۔ سعید شہیدی کے فرزند دل بند رشید شہیدی نے اپنے والد کی وراثت کی حفاظت کی ہے اور ’’بزم سعید‘‘ قائم کی ہے جس کے تحت ا کثر مشاعروں کا انعقاد بھی عمل میں آیا ہے۔ رشید شہیدی خود جدید لب و لہجہ کے منفرد شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کی صد سالہ تقاریب منانے کا فیصلہ کیا ہے جو عنقریب منعقد ہونے والی ہیں۔ سعید شہیدی کا دور شعر و ادب کا سنہری دور تھا ان کے بغیر بڑے مشاعروں کا تصور بھی نہیں کیاجاتا تھا۔ ان کے بغیر حیدرآباد کی ادبی تاریخ ادھوری ہے۔
منتخب اشعار
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بیزار ہوجائے
اہلِ حق کی فطرت ہے ، حق پہ آنچ جب آئے
سر کٹا تو سکتے ہیں سر جھکا نہیں سکتے
کیسے سکون پاؤں تجھے دیکھنے کے بعد
اب کیا غزل سناؤں تجھے دیکھنے کے بعد
اللہ جانے پھر یہ اندھیرا ہے کس لئے
آیا تھا انقلاب اجالا لئے ہوئے
ہنساتے ہیں مجھ کو رلانے سے پہلے
بنانے کی کوشش مٹانے سے پہلے
سعید اچھی تھی پہلی بے قراری
سکوں سے اور جی گھبرا رہا ہے
شبِ فراق تم آئے تو یوں ہوا محسوس
کہ جیسے جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھا ہے
ہمیں یاد آ آ کے تڑپانے والے
تجھے بھی جو ہم یاد آئیں تو کیا ہو
بہار آنے میں عرصہ ہے مانتا ہوں میں
اگر چمن میں کوئی آگیا تو کیا ہوگا
نہ فصلِ گل کی خطا ہے نہ بادلوں کا قصور
تری نظر نے بنایا ہے بادہ خوار مجھے
ابھی ابتدائی منازل ہیں غم کے
ابھی مسکرانے کی زحمت نہ کیجئے
اللہ اللہ میرے مرنے پر
ہورہا ہے زمیں کا سینہ چاک
غزل
دل جو وقفِ ستم ہوگیا
بے نیازِ کرم ہوگیا
حاجتِ چارہ گر اب نہیں
خود بخود درد کم ہوگیا
دل میں اب تم ہو ارماں نہیں
بتکدہ بھی حرم ہوگیا
جس نے غم کی اُڑائی ہنسی
خود گرفتارِ غم ہوگیا
دور نظروں سے جب وہ ہوئے
فاصلہ دل سے کم ہوگیا
ربط تھا برق سے اس قدر
آشیاں اس میں ضم ہوگیا
اصل میں ہے وہ انساں سعیدؔ
جس کو ادراکِ غم ہوگیا