زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

ڈاکٹر فاروق شکیل

سید نظیر علی عدیلؔ
اجمالی تعارف
نام : سید نظیر علی ، قلمی نام : نظیر علی عدیلؔ ، پیدائش : 27 جولائی 1925 ء ، وفات : 20 نومبر 1995 ء دوشنبہ ، تعلیم : انٹرمیڈیٹ ، منشی فاضل (نظامیہ) ، تلمیذ : امجد حیدرآبادی ، صفی اورنگ آبادی ، کتابیں : قوس قزح ’’(شعری مجموعہ)‘‘ نشاط الثانیہ (حمد و نعت) ’’محاورات عدیلؔ ‘‘ (محاوراتی اشعار)
امجد حیدرآبادی سے عروض کی تعلیم اور صفی اورنگ آبادی سے اکتساب فن نے نظیر علی عدیل کی شاعری کو اس قدر نکھارا کہ انہوں نے نہ صرف شاعری کی دنیا  میں اپنالوہا منوایا بلکہ استادی میں بھی اپنے گہرے نقوش ثبت کئے ہیں۔ زبان و بیان ، محاورہ ہندی ، سادگی  و سلامت ، ندرتِ خیال اور تغزل نے ان کے کلام میں جاذبیت بھردی ہے ۔ عروض پر دسترس اور مکتب صفی کی خصوصیات کے علاوہ جدت فکر کے باعث نظیر علی عدیل کی شاعری کلاسیکی اور جدید شاعری کے امتزاج کی عکاس ہے ۔ نظیر علی عدیل کی شخصیت اور فن پر ڈا کٹر محمد عظمت اللہ خان نے سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد سے ایم فل بھی کیا ہے ۔ پدم شری عزیز احمد خاں وارثی نے نظیر علی عدیل کے مذہبی کلام کے گراموفون ریکارڈ بھی پیش کئے جو آج تک گشت کر رہے ہیں۔ مشہور حمد ندائے ارض و سما لا الہ اللہ ، فقط خدا ہی خدا لا الہ اللہ اور نعت شریف قیامت اٹھانے کا مقصد رہو کچھ بھی مگر دیکھنے کی قیامت رہے گی اور مناجات مانگنے والے مانگ خدا سے اور ائے خالق عالم ۔
نظیر علی عدیلؔ کے تلامذہ ملک و بیرون ملک پھیلے ہوئے ہیں ۔ جن میں راقم الحروف کے علاوہ شاہد عدیل ، مسرور عابدی ، راشد احمد راشد ، ڈاکٹر راہی ، ڈاکٹر غیاث عارف، ظفر فاروقی، احمد قاسمی ، رؤف رحیم ، گلی نلگنڈوی ، اشہر ندیمی ، خواجہ ضمیر ، ضیا عرفان حسامی ، مسعود جاوید ہاشمی ، فکر نلگنڈوی ، کبیر احمد شکیل ، تنویر واحدی اور افضل تسلم قابل ذکر ہیں ۔ راقم الحروف کو ’’جانشین عدیل ملنے کا بھی شرف حاصل ہے ۔ نظیر علی عدیلؔ اپنے عہد کے واحد استادِ سخن تھے جو اپنے تلامذہ کو نہ صرف عروض کی تعلیم دیتے تھے بلکہ رموز و نکات بھی سمجھاتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے بعض تلامذہ آج مسند استاذی پر فائز ہیں اور ’’دبستانِ عدیلؔ ‘‘ کے چراغ کو فروزاں کئے ہوئے ہیں۔
منتخب کلام
نہیں ہے اصل میں پت جھڑ یہ زرد پتوں کی
شجر بہار کے رستے میں زر بچھاتے ہیں
رستے ہوئے جھرنوں میں یہ پانی ہے کہاں کا
سینے میں ز میں کے کوئی چھالا تو نہیں ہے
دنیا میں اگر پھر آنا ہو دل لے کے نہیں آئیں گے عدیلؔ
اک بات ہوئی تو سہہ لیں گے ہر بات میں دل آزاری ہے
جو  غنچے کھلائے نہ گئے باد صبا سے
واقف تھے یقیناً وہ تبسم کی سزا سے
زندگی نے ساتھ چھوڑا موت لینے آگئی
اک در کے بند ہوتے ہی نیا اک در کھلا
کیاکہئے کیا ہوا ہے جب وہ جدا ہوا ہے
محشر پہ طنز کر کے محشر بپا ہوا ہے
ٹھہریئے کچھ دیر کا مہمان ہوں
دیکھ بھی لیجئے غروب آفتاب
قابل احترام ہے افلاس
یہ وہ شئے ہے نہیں خدا کے پاس
ائے طور پھر ہو روشن ورنہ ہنسی اڑے گی
کس کا چراغ ہو کر کب سے بجھا ہوا ہے
وہ میرے خون کا پیاسا ہے کیا کیا جائے
اسی سے خون کا رشتہ ہے کیا کیا جائے
دم آخر وہ دیکھنے آئے
سو گئے ہم تو جاگ اٹھی تقدیر
دہک رہا ہے جہنم مری توقع پر
خدا کو مجھ پہ ترس آگیا تو کیا ہوگا
ہوتا ہے عجب ٹھاٹھ عدیل اہل جنوں کا
جنگل میں ہے منگل کبھی ویرانے میں ڈیرا
ہے اعتبار اگر جرم تو سزا دیجئے
گناہ گار نے رحمت پہ اعتبار کیا
ہنسی اڑائی تھی شاید کسی کے زخموں کی
صدی صدی سے سمندر نمک نمک ہے میاں
ڈوبتے ہی شام کو سورج کا کر وفر گیا
انتقاماً اپنی ساری ر وشنی لے کر گیا
ہے زیست سے بھی زیادہ سکون بخش عدیلؔ
یہ انکشاف قضا کو گلے لگا کے ہوا
غزل
آج تک صدیوں سے جو ناقابل تسخیر ہے
سوچئے کیا چیز ہے وہ ؟ نعرۂ تکبیر ہے
قربتِ مژگاں و ابرو کی یہی تفسیر ہے
سیج پر تیروں کی اک لیٹی  ہوئی شمشیر ہے
ہو نہ حیرت کیوں ؟ ہیں چپ آنسو ہی آنسو آنکھ میں
کس طرح محفوظ پانی میں تری تصویر ہے
پھر کماں میں لوٹ سکتا ہے کماں سے چھوٹ کر
ایک ہی ہے تیر ایسا وہ نظر کا تیر ہے
دیکھتی تک بھی نہیں مڑ کر مری عمر رواں
منہ پھرالینے کی شاید شرم دامن گیر ہے
کچھ تو اپنی آگ میں جلنے کا غم ہے شمع کو
کچھ تو پروانوں کو جلتا دیکھ کر دل گیر ہے
معترف غالب تھے اپنے دور میں تو کیا عدیل
میر تو اس دور میں بھی شاعروں کا میر ہے