’’زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘ ’’وحیدِ سخن‘‘

ڈاکٹر وحیدؔ اختر
اجمالی تعارف :
نام : وحید اختر ، قلمی نام : ڈاکٹر وحید اختر، پیدائش : 12 اگست 1935 ء ، وفات : 13 ڈسمبر 1996 ء ، تعلیم : ایم اے پی ایچ ڈی ، کتابیں : (1) ’’پتھروں کے مغنی ‘‘ (مجموعہ کلام) (2) ’’زنجیر کا نغمہ‘‘ مجموعہ کلام ، (3) خواجہ میر درد ‘‘ (تصوف اور شاعری ) ، (4) ’شب کا رزمیہ‘‘ (5) ’’کلیات وحید اختر ‘‘ (تین جلدوں میں) (6) ’’انتخاب کلام وحید اختر‘‘ (7) فلسفہ اور ادبی تنقید‘‘ (8) ’’کربلا تا کربلا ‘‘۔
ڈاکٹر وحید اختر ممتاز شاعر و نقاد تھے ۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں صدر شعبہ فلسفہ اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس رہے۔ ابتداء میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے لیکن بعد میں جدیدیت کی طرف راغب ہوئے ۔ انہوں نے جدیدیت کی تحریک کو نہ صرف اپنی شعری خدمات عطا کیں بلکہ اپنے مضامین کے ذریعہ بھی جدیدیت کی تعبیر و تشریح کی کوشش کی ۔ مرثیوں کو بھی جدید طرز میں لکھ کر اس صنف کا دائرہ وسیع کیا ۔ ڈاکٹر وحید اختر کی پہچان عام طور پر ان کی نظموں سے ہے ۔ ان کی نظموں میں فکر و آہنگ کا توازن برقرار ہے۔ انہوں نے غزلوں میں کسی خاص صفت ، موضوع یا اسلوب کو محدود نہیں کیا بلکہ اپنی بات کو زیادہ بلیغ بنانے کیلئے موقع اور محل کا لحاظ رکھا۔ کہیں انہوں نے کلاسیکل شاعری کی مرصع زبان سے استفادہ کیا ہے اور کہیں بول چال کے آہنگ سے فائدہ اٹھایا ہے۔
منتخب اشعار :
تم گئے ساتھ اجالوں کا بھی جھوٹا ٹہرا
روز و شب اپنا مقدر ہی اندھیرا ٹہرا
برسی نہیں نغموں کی گھٹائیں کئی دن سے
سینکی نہیں مدماتی ہوائیں کئی دن سے
وہ جس ہے آواز کا دم ٹوٹ رہا ہے
ہر گیت کا ہر ساز کا دم ٹوٹ رہا ہے
یا رب مری زبان کو قدرت بیاں کی دے
لب مصلحت کے بند ہیں جراء ت بیاں کی دے
آخری منزل ہے سب کی نارسائی تشنگی
تیز گاموں نے بہت کی دشت پیمائی تو کیا
اپنے شعلوں سے اُگائی ہے ستاروں کی فصل
زخم در زخم چراغاں ہمیں ہر رات ملی
تھک گئے ہیں جو امیدوں کی کشاکش سے وحید
ناامیدی کی گھنی چھاؤں میں آرام کریں
حصارِ ذات سے نکلو تو انجمن ہر سو
چھٹے وطن تو سفر میں بھی ہے وطن ہر سو
زمیں کو دیکھتے ہیں لوگ خواب آلود آنکھوں سے
کہ جیسے آسماں سے خواب کی تعبیر اترے گی
دفتر لوح و قلم یا درغم کھلتا ہے
ہونٹ کھلتے ہیں تو اک باب ستم کھلتا ہے
رات بھر خواب کے دریا میں سویرا دیکھا
دن کے ساحل پہ جو ا ترے تو اندھیرا دیکھا
زبانِ خلق پہ آیا تو اک فسانہ ہوا
وہ لفظ صورت و صدا سے جو آشنا نہ ہوا
رباعیات
لب مصلحت اظہار کے سی لیتی ہے
خاموشی ریا کا زہر پی لیتی ہے
توفیق سخن حق کی ہے تائید وحید
میں بولوں تو سچائی بھی جی لیتی ہے

سن لیتی ہے گو عرش کا ارشاد زمیں
پر اپنے ہی نغمات سے ہے شاد زمیں
کردیتا اسے شوق عبادت ویراں
گر ذوق گنہ رکھتا نہ آباد زمیں
غزل
سفر ہی بعد سفر ہے تو کیوں نہ گھر جاؤں
ملیں جو گم شدہ راہیں تو لوٹ کر جاؤں
مسلسل ایک سی گردش سے ہے قیام اچھا
زمین ٹہرے تو میں بھی کہیں ٹہر جاؤں
سمیٹوں خود کو تو دنیا کو ہاتھ سے چھوڑوں
اثاثہ جمع کروں میں تو خود بکھر جاؤں
مری اڑان اگر مجھ کو نیچے آنے دے
تو آسمان کی گہرائی میں اتر جاؤں
صبا کے ساتھ ملا مجھ کو حکم در بدری
گلوں کی ضد ہے مزاج ان کا پوچھ کر جاؤں
کہاں اٹھائے پھروں بوجھ اپنے سر کا وحیدؔ
یہ جس کا قرض ہے اس کے ہی در پہ دھر جاؤں