’’زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘

ڈاکٹر فاروق شکیل
شعر و ادب کا آفتاب
ڈاکٹر عنواؔن چشتی
اجمالی تعارف :
نام : افتخار الحسن ، قلمی نام : عنوان چشتی، پیدائش : 1937 ء ، وفات : 2004 ء ، تعلیم : ایم اے (جغرافیہ) ۔ایم اے (اردو) ۔ پی ایچ ڈی ، کتابیں: ’’نیم باز (شعری مجموعہ) ’’اردو شاعری میں جدیدیت کی روایت‘‘، ’’اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے‘‘ ، ’’اردو میں کلاسیکی تنقید‘‘ ، ’’تنقید سے تحقیق تک‘‘ ، ’’تنقید نامہ ‘‘ ، ’’تنقیدی پیرائے‘‘، ’’آزادی کے بعد دہلی میں اردو غزل‘‘، ’’ذؤق جمال‘‘، ’’چاند چکور اور چاندنی‘‘ ، ’’عروضی اور فنی مسائل‘‘ ، ’’اصلاح نامہ ‘‘ ،’’اخباروں کے بیچ‘‘، ’’معنویت کی تلاش‘‘، ’’مکاتیب احسنؔ‘‘، ’’حرف برہنہ‘‘ ۔
ڈاکٹر عنوانؔ چشتی شعر و ادب کا وہ آفتاب ہے جو نہ صرف زندگی میں تشنگان شعر و ادب کو منور کرتا رہا بلکہ اپنی شعری ، فنی اور اصلاحی کتابوں کے ذریعہ آج بھی اپنی روشنی بکھیر رہا ہے ۔ وہ اپنے سینے میںدینی اور علمی سمندر رکھنے کے با وجود انتہائی منکسر المزاج ، اعلیٰ ظرف اور مشفق انسان تھے۔ پیشۂ تدریس سے وابستہ تھے تو ہزاروں طالبان علم کو فیض یاب کیا ۔شاعری اور تنقید کے میدان میں ساری دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ آج بھی ان کے بھائی تنویر چشتی جو نہ صرف ماہر عروض ہیں بلکہ اپنے تلامذہ کو بھی ماہر عروض بنادیا ہے ۔ مثال واحدؔ نظام آبادی ہیں جنہوں نے ان سے عروض کی ایسی تعلیم حاصل کی ہے اور آج ماہر عروض کہلاتے ہیں۔ ڈاکٹر عنوان چشتی کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، ان میں کئی تلامذہ استادی کی مسند پر فائز ہیں۔ اس اجمالی تعارف میں ڈاکٹر عنوان چشتی کی شخصیت ، شاعری اور ادبی خدمات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وہ شعر و ادب کا آفتاب تھے۔
منتخب اشعار :
اس شخص کو تم چن کر پھر تازہ جنم دینا
ذروں کی طرح جس کا ہر لمحہ بکھر جائے
عنوان زمانے کو آئینہ اگر دیدوں
خود اپنی ہی صورت کی پرچھائیں سے ڈر جائے
افشائے راز کر گیا دیوانہ لہر میں
ہر چہرہ بن گیا ہے اب آئینہ شہر میں
دیکھا اسے تو خواب کا دھوکہ ہوا مجھے
لیکن چھوا تو حسن ملا بولتا ہوا
ہزار اندھیرے برستے ہیں میری آنکھوں میں
یہ اور بات کہ میں روشنی کا پیکر ہوں
پتھراو اور میرے دلِ لخت لخت پر
نفرت کا دیوتا ہے محبت کے تخت پر
رنگِ بے اصولی ہے چمپئی اصولوں میں
جھولتی ہے تاریکی روشنی کے جھولوں میں
صبح کو یہ بھی پرایا نہ کہیں ہوجائے
اپنے ہی جسم سے کچھ دیر لپٹ کر سولوں
جیسے دریا میں چراغوں کے سفر کا منظر
اُف یہ بیدار ستارے یہ گگن رات گئے
روح میں خوشبو لہراتی ہے دل پر رنگ برستا ہے
جب کوئی خوابوں کا پیکر آنکھوں میں آکر بستا ہے
یوں دل میں آرزوئے وفا کھیلتی پھرے
صحرا میں جیسے خشک ہوا کھیلتی پھرے
احساسِ کرب ذہن کی تنویر چھین لے
وہ کون ہے جو ہم سے یہ جاگیر چھین لے
جس سے ہر سانس پہ تحریک وفا ملتی تھی
اب وہی بات محبت کے نصابوںمیں نہیں
کچھ تو بتاؤ ائے فرزانو، دیوانوں پر کیا گزری
شہرِ تمنا کی گلیوں میں برپا ہے کہرام بہت
پھر فضاؤں کے بندِ قبا کھل گئے
پہلی شب کی دلہن ہوگئی چاندنی
عنوانؔ پھر پلٹ کے یہ شایدنہ آسکے
جاتی ہوئی بہار کی تصویر کھینچ لے
غزل
امرت پی کر جھوم رہے ہیں تنہا تنہا شہروں شہروں
سانپوں کا منہ چوم رہے ہیں تنہا تنہا شہروں شہروں
اپنی ہی آواز کی خاطر ، اپنے ہی سایہ کی طلب میں
فرزانے بھی گھوم رہے ہیں تنہا تنہا شہروں شہروں
اس کی خاطر چاند کو چھونے اپنے گھر سے لوگ چلے تھے
خود سے بھی محروم رہے ہیں تنہا تنہا شہروں شہروں
آدرشوں کی نسبت سے بھی ہم پہچانے جاسکتے ہیں
سہمے سہمے گھوم رہے ہیں تنہا تنہا شہروں شہروں
خوابوں کے آئینہ خانو خیر مناد کچھ دیوانے
پتھر لیکر گھوم رہے ہیں تنہا تنہا شہروں شہروں
میری غزل کی دلداری میں وہ بھی اب شامل ہیں عنوانؔ
لفظ جو بے مفہوم رہے ہیں تنہا تنہا شہروں شہروں