’’زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘ ماہر صفیات محبوب علی خان اخگرؔ

ڈاکٹر فاروق شکیل
اجمالی تعارف :
نام : محبوب علی خاں قادری ، قلمی نام : محبوب علی خان اخگرؔ، پیدائش : 15 اگست 1926 ء ، وفات : 18 جولائی 2015 ء ، تعلیم : میٹرک (سٹی کالج حیدرآباد)، منشی (جامعہ نظامیہ ، تلمڈ : غلام علی حاویؔ، کتابیں : ’’شعلہ سخن‘‘ (مجموعۂ کلام 1994 ء) ، تلامذۂ صفی اورنگ آبادی‘‘ 1991 ء ’’اصلاحات صفیؔ اورنگ آبادی‘‘ 1993 ء ، ’’ انشائے صفیؔ اورنگ آبادی‘‘ 1991 ء ، ’’اصلاحات صفیؔ اورنگ آبادی‘‘ 1993 ء ، ’’انشائے صفی اورنگ آبادی‘‘ 1996 ء ، ’’خمریاتِ صفیؔ ‘‘ 1995 ء ، ’’محاوراتِ صفیؔ ‘‘ 1998 ء ، ’’کلیات صفیؔ ‘‘ 2000 ء ’’افکار صفیؔ ‘‘ 2005 ء ۔ ’’صفیؔ اورنگ آبادی مشاہیر کی نظر میں ’’2007-08 ‘‘، خیالات خاوؔی‘‘ 1992 ء ، ’’کلام جوہرؔ 2003 ء ، ’’تذکرہ عارف‘‘ 1997 ء ۔ ان کتابوں کے علاوہ دلائل الخیرات اور سیرت نبیؐ بھی شائع کیں۔ ایم فل کا مقالہ : ’’محبوب علی خان اخگر کی ادبی خدمات ‘‘ مقالہ نگار: افضل بانو (یونیورسٹی آف حیدرآباد) 2005 ء ، ’’محبوب علی خان اخگرؔ ایک مطالعہ‘‘ مولف : ڈاکٹر م ق سلیم 1997 ء ۔
محبوب علی خان اخگرؔ نہ صرف اچھے شاعر تھے بلکہ تحقیق میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیئے ۔ ان کی شاعری میں سادگی ، سلاست ، پرکاری، معاملہ فہمی و محاورہ بندی کے ساتھ ساتھ بے ساختگی و بے تکلفی جو دبستانِ صفیؔ اورنگ آبادی کی خصوصیات ہیں موجود ہیں۔ پروفیسر عنوان چشتی رقم طراز ہیں۔ ’’اخگرؔ کی غزلیں کلاسیکی در و بست ، سنجیدہ افکار اور تہذیبی اقدار کی حامل ہوتی ہیں‘‘۔ پروفیسر اشرف رفیع لکھتی ہیں‘‘۔ اخگرؔ کی غزل دبستانِ صفیؔ کی روایات کی اہم کڑی ہے جس میں مذہبی ، صوفیانہ اور اخلاقی مضامین کا تقدس صاف نظر آتا ہے‘‘۔
محبوب علی خان اخگرؔ نے جس جانفشانی سے گلستانِ صفیؔ کی گل فشانی کی ہے اور حضرت صفیؔ جیسے عظیم المرتبت شاعر کے گمشدہ قلمی جواہرات کو کتابوں کی شکل میں محفوظ کر کے دوام بخشا ہے وہ ان کے نام اور کام کو دوام بخشنے کافی ہے ۔ تاریخ شعر و ادب میں محبوب علی خان اخگرؔ کو ’’ماہر صفیات‘‘ کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ ان کے فرزند دل بند محمد جعفر علی خان فہیم نے اپنے والد کے سرمائے کو سجاکر رکھا ہے اور یادوں کو زندہ رکھا ہے۔
منتخب اشعار :
اس نے دل رکھنے کو بس اتنا کیا
وعدہ پورا کرنے کا وعدہ کیا
لے یہ آئینہ ہے اپنی بولتی آنکھوں سے پوچھ
شہر بھر میں کیوں مرے غم کا پکارا ہوگیا
اُدھر ہجوم ہے ساحل پہ خیر مقدم کو
ادھر بھنور میں سفینہ ہے کیا کیا جائے
دل چڑھے ان کو نیند آتی ہے
زخم جاگے تھے رات بھر کیلئے
ایک بوسیدہ سی کشتی سے لڑے جاتے ہیں
واہ کیا ظرف ہے بپھرے ہوئے طوفانوں کا
دیکھ کر اخگرؔ کو فرمانے لگے
آگ لگ جاتی ہے اس کے نام سے
ضبطِ غم مشکل سے مشکل ہی سہی
سامنے روتے نہیں بیمار کے
صبح تارے فلک سے ہیں غائب
ان پہ صدقے اُتر گئے شاید
ہٹ کے در سے آپ کے در دوسرا تھا ہی نہیں
اور ہر جا جھکنے والا برا ماتھا ہی نہیں
جب کبھی میرے بھروسے کے سہارے چھوٹے
ساتھ ہی غیب سے ’’میں ہوں‘‘ کی صدا آئی ہے
خوش رہے دل یا رہینِ غم رہے
دم بھریں گے تیرا جب تک دم رہے
بڑی نسبت بڑی ہوتی ہے اخگرؔ
مجھے شہرت ملی حضرت صفی سے
لیجئے بیمارِ غم دنیا سے چلتا ہوگیا
آپ نے چاہا تھا جیسا آج ویسا ہوگیا
دنیا اڑا نہ دے کہیں قامت کا مضحکہ
اپنا لباس قد کے برابر تلاش کر
وہ تو کہو کہ موت مرے کام آگئی
ممکن نہ تھا نباہ مرا زندگی کے ساتھ
غزل
روشن وفا کا نام تو کرجانے دیجئے
مرتا ہے کوئی آپ پہ مرجانے دیجئے
دل کو دکھایئے مگر اتنا رہے خیال
شیرازہ زیست کا نہ بکھر جانے دیجئے
اب حیات بخش سکندر ہی میں نہ تھا
افسوس کیا جناب خضر جانے دیجئے
کچھ دیر بے نقاب یونہی رہیئے بام پر
تاروں کو رخ پہ صدقے اُتر جانے دیجئے
رہ جایئے نہ زلف ہی اپنی سنوار کر
میرے نصیب کو بھی سنور جانے دیجئے
اخگرؔ بضد ہے آہ تو کیوں روکتے ہیں آپ
خود ڈھونڈنے کو بابِ اثر جانے دیجئے